کیا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251001-03-5
احمد حسن
جب ملک میں طاقتور لوگ نظام اور اصول وضوابط کے تحت چلنے سے انکار کر دیں، ان کی خواہش قانون کا درجہ حاصل کر لے تو بار بار ایسے واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں جن پر عام لوگوں کو حیرت ہوتی ہے۔ لاپتا افراد کے مقدمات کی سماعت مختلف عدالتوں میں ہوتی رہتی ہے، ان سماعتوں کی جو روداد اخبارات میں شائع کی جاتی ہے اس کی سرخیوں میں سے ایک سرخی ضرور اس طرح کی ہوتی ہے ’’عدالت کا پولیس پر اظہار برہمی‘‘، ’’عدالت سرکاری وکیل پر برہم‘‘ وغیرہ برسوں سے چلنے والے ان مقدمات میں ایک مرتبہ بھی کوئی یہ نہیں بتا سکا کہ ان لوگوں کو کس نے اٹھایا؟ کہاں رکھا اور پھر کیوں چھوڑا یا انہیں کس نے قتل کیا؟ پوری سوسائٹی کی جانب سے اسے روکنے کی اپیلوں، درخواستوں کے باوجود یہ سلسلہ اب تک کیوں جاری ہے؟ بعض اہم ترین خبریں ملک کے کسی ایک ٹیلی وژن چینل پر بھی نظر نہیں آتیں حالانکہ جب پوچھا جاتا ہے تو ان خبروں کو روکنے کا پیمرا کو علم ہوتا ہے نہ وزارت اطلاعات و نشریات کو۔ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ جام صادق علی کے دور سے پہلے اگر کسی علاقے میں شدید ہنگامے ہوتے تھے تو وہاں کرفیو لگا دیا جاتا تھا، جام صادق مرحوم کے دور اور اس کے بعد بھی بارہا ایسی صورتحال پیدا ہوئی، بہت ہنگامے ہوئے، فساد ہوئے، خونریزی ہوئی لیکن کبھی سرکاری کاغذات میں کرفیو نہیں لگایا گیا یعنی پالیسی یہ رکھی گئی کہ عملی کارروائی ساری کی جائے لیکن ریکارڈ صاف رہے، یہ ایسی ہی ذہنیت ہے جیسی تھانیداروں کی ہوتی ہے کہ جرائم کتنے بھی ہوں ایف ائی آر نہ کاٹی جائے تاکہ تھانے کا ریکارڈ اچھا رہے، اب یہ رجحان ملک میں اعلیٰ ترین سطح پر بھی فروغ پا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف کے وفد میں شامل ایک خاتون، وزیر دفاع کے پیچھے بیٹھی دیکھی گئیں، جس پر نئی بحث شروع ہو گئی تو وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے بیان میں جواب دیا کہ وزیراعظم اپنی مصروفیات کے باعث اجلاس میں تقریر نہ کر سکے اس لیے میں نے بطور وزیر دفاع پاکستان کی نمائندگی کی تاہم یہ خاتون کون ہیں ؟ کیوں وفد کا حصہ ہیں اور انہیں میرے پیچھے کیوں بٹھایا گیا؟ ان سوالات کے جواب دفتر خارجہ ہی دے سکتا ہے، خواجہ آصف نے کہا کہ فلسطین کے ساتھ میری کمٹمنٹ ذاتی اور جذباتی ہے، فلسطین کے ساتھ میرے تعلقات 60 سال پر محیط ہیں اسرائیل اور صہیونیت کے بارے میں میرے خیالات نفرت کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری جانب دفتر خارجہ نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں وزیر دفاع کے پیچھے ایک خاتون کی نشست کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا نوٹس لیا ہے، متعلقہ خاتون کا نام پاکستان کے وفد کے لیے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اس سرٹیفکیٹ میں شامل نہیں تھا جس پر نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے دستخط کیے تھے لہٰذا وزیر دفاع کے پیچھے نشست پر بیٹھی ہوئی خاتون کو نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی منظوری حاصل نہیں تھی۔ واضح رہے کہ مذکورہ خاتون شمع جونیجو پاکستانی نژاد برطانوی شہری اور صحافی ہیں، حال ہی میں انہیں حکومت پاکستان نے تمغہ امتیاز سے بھی نوازا ہے، ان کا موقف ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے، وہ اس حوالے سے مہم بھی چلاتی رہی ہیں، اسی سلسلے میں وہ کچھ عرصے قبل اسرائیل کا دورہ کرنے والے ایک وفد میں بھی شامل تھیں، جس کی خبریں اور تصاویر پاکستان سمیت کئی ملکوں کے اخبارات میں شائع ہوئی تھیں۔
خواجہ آصف کی جانب سے پہچانے جانے سے صاف انکار اور دفتر خارجہ کی طرف سے لاعلمی کے اظہار کے بعد شمع جونیجو نے اس حوالے سے ایکس پر طویل وضاحت جاری کی ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ میں گزشتہ کئی مہینوں سے پاکستان اور وزیراعظم شہباز شریف کے لیے کام کر رہی ہوں انہوں نے دعویٰ کیا کہ مجھے وزیراعظم نے اقوام متحدہ کے لیے اپنی تقریر لکھنے کا ٹاسک دیا اور خود وفد کا حصہ بنایا، میرا نام باقاعدہ مشیر کے طور پر شامل کیا گیا اور میرا سیکورٹی پاس بھی اسی حوالے سے جاری کیا گیا۔ شمع جونیجو نے مزید کہا کہ میں نے وزیراعظم کی ٹیم کے ساتھ مل کر دن رات کام کیا، میں نے ان کے ساتھ سفر کیا، ان کے اور ٹیم کے ساتھ ہی ہوٹل میں قیام کیا، ان کی بل گیٹس جیسی اہم ترین سائیڈ لائن میٹنگ کا بھی حصہ بنی جس کی فوٹیج ٹی وی پر بھی آئی، ان کا کہنا تھا کہ کلائیمٹ کانفرنس میں وزیراعظم کے پیچھے میں اور اسحاق ڈار ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جن کی وزارت نے میرے بارے میں ٹویٹ کیا ہے کہ میں وفد کا حصہ نہیں تھی، انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کانفرنس کے بعد مجھے پروٹوکول ٹیم اے آئی کانفرنس میں لے گئی جہاں خواجہ آصف کے پیچھے بلال اور میں سارا وقت بیٹھے رہے اس کے بعد ہم نے مل کر چائے پی، گاڑی کے انتظار میں 40 منٹ بیٹھے رہے، دوبارہ تصویریں لیں اور ایک ہی کار میں تینوں ساتھ واپس ہوٹل بھی آئے، خواجہ صاحب کار میں پیچھے میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے، شمع جو نیجو نے کہا کہ آخری دن وزیراعظم کی تقریر کے وقت بھی میں سب کے ساتھ اقوام متحدہ میں تھی جہاں خواجہ آصف میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، شمع جونیجو نے سوال کیا کہ اب خواجہ آصف ایسے بیان کیوں دے رہے ہیں، وزیراعظم کو ان سے پوچھنا چاہیے کیونکہ اس تنازع سے وزیراعظم کی اتھارٹی کو چیلنج کیا گیا ہے میری نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے 2018 کے ایک ٹویٹ کو لے کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ میں اسرائیل کی حامی ہوں جبکہ غزہ جنگ کے بعد سے میں نے ہمیشہ اسرائیلی مظالم کی سخت مذمت کی ہے، وہ کسی کو نظر نہیں آرہا۔
خواجہ آصف حکومت پاکستان کے انتہائی ذمے دار عہدے پر فائز ہیں، اسی طرح وزارت خارجہ اہم ترین وزارت سمجھی جاتی ہے، یہاں کام کرنے والوں کی اہلیت مثالی ہوتی ہے، دفتر خارجہ کے افسران بولنے اور لکھنے میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہیں اسی لیے دفتر خارجہ کو ملک کا ترجمان سمجھا جاتا ہے، خواجہ آصف اور دفتر خارجہ کی جانب سے خاتون سے لا تعلقی کے اظہار اور شمع جونیجو کے جوابی بیان میں کیے گئے دعووں کے بعد صورتحال بہت پیچیدہ ہو گئی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے دور سے اب تک حکومت پاکستان کی پالیسی یہی رہی ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے پاکستان اسے تسلیم نہیں کرے گا، فلسطین فلسطینیوں کا ہے، پاکستان ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑا رہے گا، حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام و خواص کی عظیم اکثریت بھی ایسے ہی جذبات رکھتی ہے، ملک میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اسرائیل کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے اور تجارت کا سلسلہ شروع کرے، شمع جونیجو بھی انہی میں سے ایک ہیں، وہ وزیراعظم کے وفد میں شامل رہیں اور ان کا دعویٰ کہ انہوں نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے کی جانے والی وزیراعظم کی تقریر لکھنے میں حصہ لیا بہت اہم سوال اٹھاتا ہے، کیا پاکستانی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے کسی منصوبے پر کام کر رہی ہے، اگر ایسا ہے تو یہ معاملہ پارلیمنٹ میں کیوں نہیں لایا گیا؟ کیا وفاقی کابینہ سے ایسے کسی منصوبے کی منظوری لی گئی ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ کون سی طاقتیں ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کروانا چاہتی ہیں؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ غیر معمولی شفقت کا مظاہرہ بھی اس حوالے سے ایک اہم نکتہ ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حال ہی میں ایک اہم دفاعی معاہدہ ہوا ہے، معاہدے کا بیش تر حصہ خفیہ ہے، کیا اس معاہدے میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بھی کوئی وعدہ کیا گیا ہے؟ کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ حماس کی جانب سے سات اکتوبر کے حملے سے قبل کئی عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ سعودی عرب بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والا ہے لیکن سات اکتوبر کے حملے نے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا تھا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیل کو تسلیم کر وزیراعظم کی اقوام متحدہ دفتر خارجہ خواجہ ا صف کی جانب سے اجلاس میں وزیر دفاع حوالے سے انہوں نے کے پیچھے ہوتی ہے کیا گیا کے ساتھ سے ایک کے بعد کہا کہ کہ میں
پڑھیں:
پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور نہ ہی ایسی کوئی بات ہے، ایاز صادق
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کیا، نہ ایسی کوئی بات ہے، پاکستان اور آٹھ ممالک نے اسرائیل کے غزہ سے نکلنے کی بات کی ہے، فلسطین کے مسئلے پر سیاست سے پرہیز کرنا چاہیے۔
لاہور میں تقریب سے خطاب میں ایاز صادق نے کہا کہ سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کی رہائی کے لیے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سینیٹر مشتاق احمد کی رہائی کےلیے کچھ یورپی مالک سےرابطہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مسئلے پر سیاست اہل فلسطین کی خدمت نہیں ہے، وہاں قتل عام ہورہا ہے، پاکستان اور دیگر 8 ممالک نے اسرائیل کے غزہ سے نکلنے کی بات کی ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے مزید کہا کہ دفاعی معاہدے کے تحت سعودی عرب پر حملہ پاکستان پر حملہ تصور ہوگا اور اسی طرح پاکستان پر حملہ سعودی عرب پر حملہ تصور ہوگا۔
اُن کا کہنا تھا کہ حرمین شریفین کی حفاظت کی ذمہ داری ملنا اللّٰہ کی کرم نوازی ہے، دوسرے ممالک بھی پاکستان کےساتھ سعودی عرب جیسا معاہدہ چاہتے ہیں، دنیا کا ہر ملک پاکستان کو عزت کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ امریکا بھی کہتا ہے کہ ہم آپ کی بات سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈیفالٹ سے بچ گئے ہیں اب ترقی کی طرف گامزن ہیں، سی پیک ہوا تو سازش ہوئی، سی پیک ٹو ہورہا ہے تو سازش ہورہی ہے، حکومت اور سیکیورٹی فورسز مل کر سازش کرنے والوں کا محاسبہ کریں گے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آزاد کشمیر میں قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی، قومی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا شکریہ کہ انہوں نے فنڈز کی فراہمی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، شہر کی ٹوٹی سڑکوں کو پختہ کرائیں گے، شہر شہر، گاؤں گاؤں میں سیوریج کا جال بچھایا جائے گا۔