طوفانِ امید: غزہ کی طرف بڑھتا کاروانِ انسانیت
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ کے ساحل کی طرف بڑھتی ہر لہر ایک سوال اٹھا رہی ہے: جب سارا عالم خاموش تھا تو کون داد رسی کرے گا؟ آج وہی سوال سمندر کی زبان میں جواب مانگ رہا ہے۔ قطرہ قطرہ جمع ہو کر دریا بننے والی صدائیں اب کشتیوں کے پر نشتر ہیں۔ ایک بین الاقوامی بحری قافلہ، مظلوم فلسطینیوں کی طرف زندگی بچانے والی امداد لے کر روانہ ہے اور اس کا مقصد واضح ہے: انسانی زندگی بچانا، انصاف کا پیغام دینا اور محاصرے کو توڑنا۔ یہ کاروان کسی ایک قوم یا مذہب کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا ہے، جس میں مختلف ممالک کے ڈاکٹر، صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور رضاکار شریک ہیں۔ ہر جہاز طبی یونٹس، خوراک، ادویات، خیمے اور تعلیمی وسائل سے لدا ہوا ہے۔ تیونس میں ان کشتیوں کا پْرجوش استقبال اور عالمی میڈیا کی بھرپور توجہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ صرف امداد نہیں بلکہ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والا قدم ہے۔ اسرائیل نے قافلے کو روکنے کے لیے تمام حربے آزمانے شروع کیے: سمندر میں رکاوٹیں ڈالیں، ڈرونز کی نگرانی بڑھائی، جنگی مشقیں کیں اور کھلے عام حملے کی دھمکیاں دیں۔ یہاں تک کہ بین الاقوامی پانیوں میں ڈرون حملے بھی ہوئے جن سے درجنوں کشتیوں کو نقصان پہنچا اور ان کا مواصلاتی نظام جام ہوا، مگر کارکنان نے کشتیوں کی مرمت کی اور اپنے سفر کو جاری رکھا۔ یہ امن پسند لوگ کسی خوف یا دباؤ کے آگے جھکنے والے نہیں، ان کا اعلان ہے کہ وہ کسی قیمت پر رکیں گے نہیں۔ ان کے نزدیک یہ امدادی مشن روکنا انسانیت پر حملہ ہے، اور دنیا اب اسرائیلی جارحیت کو اسی تناظر میں دیکھ رہی ہے۔
پاکستان نے اس قافلے میں براہِ راست اور بالواسطہ دونوں انداز میں کردار ادا کیا ہے۔ پاکستانی عوام نے احتجاجی ریلیوں اور سوشل میڈیا پر بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا، جبکہ ڈاکٹروں اور صحافیوں پر مشتمل ایک پاکستانی وفد قافلے کا حصہ ہے۔ اگرچہ ڈرون حملوں کے بعد فوری حکومتی ردعمل نہ آنے پر مایوسی کا اظہار ہوا، لیکن پاکستان نے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ اور او آئی سی میں اس قافلے کی سلامتی پر زور دیا اور واضح کیا کہ انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ترکی، قطر، ایران اور دیگر مسلم ممالک نے بھی مختلف سطحوں پر حمایت کا اظہار کیا، جبکہ یورپ اور امریکا میں عوامی دباؤ نے حکومتوں کو کم از کم اظہارِ تشویش پر مجبور کیا۔ یہ قافلہ ایک ایسے وقت میں روانہ ہوا ہے جب فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ اب تک اقوام متحدہ کے بیش تر رکن ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں اور برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال جیسے ممالک نے بھی حالیہ برسوں میں اس سمت قدم بڑھایا ہے۔ یورپ کے کئی ممالک میں پارلیمان کے منتخب ارکان کھل کر اس قافلے کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ تبدیلیاں اسرائیل کے لیے سخت سفارتی ناکامی ہیں اور عالمی رائے عامہ کے رخ کو ظاہر کرتی ہیں۔ معاشی طور پر بھی یہ تحریک اسرائیل پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ مسلسل جنگ اور محاصرے کے باعث اسرائیلی معیشت پہلے ہی بحران کا شکار ہے، اب بحری انشورنس کے اخراجات میں اضافے، برآمدات میں کمی اور سرمایہ کاروں کی بداعتمادی نے اس دباؤ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ، اسٹاک مارکیٹس میں اتار چڑھاؤ اور تجارتی تاخیر نے عالمی سطح پر بھی اثر ڈالا ہے۔ بائیکاٹ مہمات نے اسرائیل سے جڑے برانڈز اور کمپنیوں کو اربوں کا نقصان پہنچایا ہے۔ میکڈونلڈز اور اسٹاربکس جیسی عالمی کمپنیوں کی فروخت میں کمی اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی طاقت اب حقیقی معیشت کو ہلا رہی ہے۔
سوشل میڈیا اس پورے منظرنامے کا سب سے بڑا محاذ بن چکا ہے۔ ہر پوسٹ، ہر ہیش ٹیگ اور ہر ویڈیو ایک ہتھیار کی طرح ہے جو اسرائیلی پروپیگنڈے کو بے نقاب کر رہا ہے۔ لندن، پیرس، نیویارک، برلن اور کراچی کی سڑکوں پر نکلنے والے لاکھوں افراد اور آن لائن یکجہتی کی گونج نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ یہ تحریک صرف مسلم دنیا تک محدود نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی آواز ہے۔ یہ قافلہ انسانیت کا قافلہ ہے، امید کا طوفان ہے، انصاف کا پرچم ہے۔ قطرہ قطرہ جمع ہونے والی آواز آج سمندر کی موجوں کے ساتھ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب یہ کشتیوں کا کاروان غزہ کے ساحل پر لنگر انداز ہوگا اور محصور بچوں کے لبوں پر پہلی بار امید کی مسکراہٹ جھلکے گی، زخمی مائوں کے دل سکون پائیں گے اور یتیموں کی آنکھوں میں روشنی لوٹ آئے گی۔ اس لمحے دنیا کو یاد دلایا جائے گا کہ طاقت کے ایوان مٹ جاتے ہیں مگر انسانیت زندہ رہتی ہے۔ ہمارا نعرہ ہے: ’’ہم سب ایک آواز — مظلوم کی حمایت!‘‘ یہ صرف ایک جملہ نہیں، یہ ہماری عہد کی مہر ہے۔ آج کا قافلہ آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ظلم کے اندھیروں کو توڑنے کے لیے بس ایک آواز کافی ہے، اور جب یہ آواز لاکھوں دلوں سے ملتی ہے تو طوفان بن جاتی ہے۔ اب یہ آواز رکے گی نہیں، یہ قافلہ تھمے گا نہیں، یہ پرچم جھکے گا نہیں۔ یہ امید کا سفینہ ہر طوفان سے ٹکرا کر بھی منزل تک پہنچے گا اور تاریخ کے صفحات پر یہ کاروان ہمیشہ کے لیے روشن مثال کے طور پر ثبت ہو جائے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نے والی رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
بنگلہ دیش کی عدالت نے حسینہ واجد کو انسانیت کیخلاف جرائم کا مرتکب قرار دیدیا
ڈھاکا(انٹرنیشنل ڈیسک) بنگلہ دیش کی عدالت نے سابق وزیراعظم حسینہ واجدکو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے مجرم ٹھہرادیا۔
سابق وزیراعظم حسینہ واجد کیخلاف انسانیت کے جرائم کا مقدمہ گزشتہ سال سے زیر سماعت تھا جس میں انہیں سزائے موت دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں قرار دیا گیا تھا کہ گزشتہ سال 15 جولائی سے 5 اگست کے درمیان حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے تقریباً 1400 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے، جو 1971 کی آزادی کی جنگ کے بعد سے بنگلہ دیش میں سب سے بدترین سیاسی تشدد تھا۔
17 کروڑ سے زائد آبادی والا بنگلہ دیش دنیا کے بڑے گارمنٹس برآمد کنندگان میں شامل ہے اور بڑے عالمی برانڈز کو سامان فراہم کرتا ہے، پچھلے سال کے احتجاجات کی وجہ سے اس صنعت کو سخت نقصان پہنچا۔
شیخ حسینہ اگست 2024 میں بنگلہ دیش چھوڑ کر نئی دہلی میں جلاوطنی میں رہ رہی ہیں۔
78 سالہ حسینہ نے عدالت کے احکامات کو رد کرتے ہوئے عدالت میں پیشی کے لیے بھارت سے واپس آنے سے انکار کر دیا تھا، جس میں یہ تعین ہونا تھا کہ آیا انہوں نے اگست 2024 میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والے احتجاج پر جان لیوا کریک ڈاؤن کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں وہ برطرف ہو گئیں۔
اگر انہیں مجرم قرار دیا گیا تو انہیں ممکنہ طور پر موت کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حسینہ کی آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے بنگلہ دیش سیاسی ہلچل کا شکار ہے، اور فروری 2026 میں متوقع انتخابات کی مہم میں تشدد نے بھی معاملات خراب کیے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق کریک ڈاؤن کے دوران 1,400 تک افراد ہلاک ہوئے، جو اس مقدمے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ حسینہ اقتدار پر قابض رہنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
گزشتہ ہفے فیصلے کی تاریخ مقرر کیے جانے پر چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے صحافیوں سے کہا تھا کہ ’انصاف قانون کے مطابق فراہم کیا جائے گا‘۔
انہوں نے مزید کہاتھا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ عدالت دانشمندی سے کام لے گی، انصاف کی پیاس بجھائی جائے گی، اور یہ فیصلہ جرائمِ انسانی کے خاتمے کا نشان بنے گا‘۔
پراسیکیوٹرز نے پانچ الزامات دائر کیے، جن میں قتل کو روکنے میں ناکامی بھی شامل ہے، جو بنگلہ دیش کے قانون کے تحت انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
عدالت نے غیر حاضری میں مہینوں تک شہادت سنی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ حسینہ نے بڑے پیمانے پر قتل کا حکم دیا تھا، شیخ حسینہ واجد نے اس مقدمے کو ’قانونی مذاق‘ قرار دیا۔
ان کے شریک ملزمان میں سابق وزیر داخلہ اسدالزمان خان کمال(مفرور) اور سابق پولیس چیف چوہدری عبداللہ المامون شامل ہیں، جو حراست میں ہیں اور جرم قبول کر چکے ہیں۔
حسینہ واجد کو عدالت کے لیے ریاستی وکیل فراہم کیا گیا لیکن انہوں نے عدالت کے اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ تمام الزامات کو رد کرتی ہیں۔
اکتوبر میں اے ایف پی کے ساتھ تحریری انٹرویو میں حسینہ نے کہا کہ مجرم قرار دینے کا فیصلہ پہلے سے طے شدہ ہے اور جب فیصلہ آئے گا تو انہیں حیرت نہیں ہوگی۔
بحران کی شدت:
فیصلے کی تاریخ مقرر ہونے پر عدالت کے اردگرد سیکیورٹی فورسز موجود تھیں اور بکتر بند گاڑیوں کے ذریعے چیک پوائنٹس مضبوط کیے گئے۔
ڈھاکہ میونسپل پولیس کے ترجمان طالب الرحمٰن نے کہا کہ پیر کے فیصلے کے لیے پولیس ہائی الرٹ پر ہے اور دارالحکومت کے اہم چوراہوں پر چیک پوائنٹس قائم کیے گئے ہیں، تقریباً آدھی تعداد یعنی 34 ہزار میں سے 17ہزار پولیس اہلکار ڈیوٹی پر ہوں گے۔
وزارت داخلہ کے عارضی سربراہ جہانگیر عالم چوہدری نے صحافیوں سے کہا کہ حکومت تیار ہے اور کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔
اس ماہ محمد یو نس کی حکومت کی عمارتوں، بسوں اور مسیحی مقامات پر دیسی ساختہ بم پھینکے گئے تھے، زیادہ تر پیٹرول بم تھے۔
بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے اس ماہ بھارت کے نمائندے کو طلب کرکے مطالبہ کیا تھا کہ نئی دہلی مفرور حسینہ واجد کو صحافیوں سے بات کرنے اور نفرت پھیلانے کے لیے پلیٹ فارم دینے سے روکے۔
حسینہ واجد اب بھی سرکشی کر رہی ہیں، انہوں نے اکتوبر میں کہا کہ وہ ’ان بھیانک دنوں میں جانیں کھونے والے سب افراد کے لیے غمگین ہیں، جب طلبہ کو سڑکوں پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، ان کے بیانات نے کئی افراد کو غصہ دلا دیا جو کہتے ہیں کہ انہوں نے اقتدار قائم رکھنے کے لیے بے رحم کوشش کی۔
حسینہ نے یہ بھی خبردار کیا کہ ان کی سابقہ حکمران جماعت عوامی لیگ پر عبوری حکومت کی پابندی ملک میں 170 ملین افراد خاص طور پر انتخابات سے قبل کے لیے سیاسی بحران کو بڑھا رہی ہے۔