Jasarat News:
2025-10-04@14:06:28 GMT

ڈاکٹر احمد شریف کی رحلت

اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

موت ایک حقیقت ہے اور ہر فرد کو اس کا مزا چکھنا ہے۔ بے شک کامیاب وہ ہوگیا جس نے حق کو پہچان لیا اور وہ اس ڈٹ گیا۔ ڈاکٹر احمد شریف بھی ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ زمانہ طالب علمی میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ میں قوم پرستوں سے انکا خوب ٹاکرا ہوا۔ انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن ایک لمحے کے لیے بھی یہ پیچھے نہیں ہٹے ایک سال تک لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل کالج کے پہلے ناظم کی ذمے داری ادا کی۔ پھر ان کا داخلہ سندھ میڈیکل کالج کراچی میں منتقل ہوگیا یہاں بھی انہیں نظامت کی ذمے داری ملی۔ کالج کا آخری الیکشن بھی ڈاکٹر احمد شریف نے لڑا کڑا مقابلہ تھا اور معمولی ووٹوں سے انہیں شکست ہوئی تھی۔ ڈاکٹر احمد شریف نے اپنے دور میں طلبہ تحریکوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔

 

وہ انتہائی پرجوش اور بہادر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ کبھی کسی دھمکی اور خوف سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ ان کی بہادری کے ڈنکے وزیر اعلیٰ ہاؤس تک پہنچے تھے۔ ان کے دور میں سندھ کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفی جتوئی تھے وزیراعلیٰ ہاؤس پر طلبہ کا احتجاجی مظاہرہ تھا۔ وزیراعلیٰ ہاؤس کا گیٹ بند کردیا گیا۔ نوجوان طالب علم رہنما ڈاکٹر احمد شریف نے بس کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کی دیوار کے ساتھ لگا دیا اور بس کی چھت پر چڑھ کر یہ اپنے ساتھیوں سمیت وزیراعلیٰ ہاؤس کے اندر کود گئے۔ اس وقت خالد رحمن ناظم کراچی تھے اور وہ اس پرجوش نوجوان سے بڑی محبت کرتے اور انہیں ہر وقت تحمل اور صبر کے ساتھ کام کرنے کی تلقین

 

کرتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں احمد شریف پر بڑے مقدمات قائم ہوئے لیکن انہوں نے کبھی اس کی پروا نہیں کی اور ہمیشہ آگے ہی بڑھتے رہے۔ سید منور حسن، حسین حقانی، خالد رحمن، قیصر خان، اسلم مجاہد سے قریبی تعلقات تھے۔ خالدرحمن تو ڈاکٹر احمد شریف کے آئیڈیل تھے اور آخری سانسوں تک ان سے محبتوں والا تعلق قائم رہا۔ ان دونوں کے آپس میں فیملی تعلقات تھے۔ احمد شریف کی شادی اسلامیہ کالج کے پرنسپل انصار اعظم کی صاحبزادی کے ساتھ ہوئی تھی اور یہ بے مثال جوڑا دونوں خاندانوں میں ایک مثال تھا۔ ایم بی بی ایس اور ہاؤس جاب مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر احمد شریف نے اپنی پریکٹس شروع کی۔ سینٹ جان اسپتال کورنگی چھے کے ایڈمنسٹر مقرر ہوئے اس کے علاؤہ پی آئی بی کالونی میں احمد فوڈ کی بلڈنگ میں نورالنہار میڈیکل اسپتال قائم کیا اس وقت کے میئر کراچی عبد الستار افغانی اور وہاں کے کونسلر زہیر اکرم ندیم نے اس عظیم الشان اسپتال افتتاح کیا تھا۔ اس اسپتال میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار جو کہ فریش ڈاکٹر بنے تھے انہوں نے میڈیکل آفیسر کی ملازمت کی۔ ڈاکٹر فاروق ستار کے ڈاکٹر احمد شریف سے خصوصی تعلقات تھے۔ میری کبھی ڈاکٹر فاروق ستار سے کسی تقریب میں ملاقات ہو جائے تو وہ ڈاکٹر احمد شریف کے بارے میں ضرور پوچھا کرتے تھے۔

 

احمد شریف نے ہمیشہ کورنگی لانڈھی کے غریب لوگوں کی خدمت کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا۔ جے ایریا کورنگی کے بعد کلو چوک پر ان کا کلینک شفٹ ہوگیا اور پھر ڈاکٹر صاحب کی مصروفیت کا ایسا دور شروع ہوا کہ سر جھکانے کی فرصت نہیں تھی۔ شام سات بجے کے بعد رات ایک بجے تک ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر رش ہوتا اور رات ایک بجے دروازے بند کر دیے جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب جلدی امراض کے انتہائی ماہر ڈاکٹر تھے اور پورے شہر سے مریض علاج کے لیے ان کے پاس آتے تھے۔ انتہائی مصروف زندگی گزارنے کے باوجود ڈاکٹر احمد شریف بندگان خدا کی خدمت کا شعار بنائے رکھا۔ ڈاکٹر صاحب تقریباً 20 سال قبل پہلوان گوٹھ کے قریب سندھ بلوچستان سوسائٹی منتقل ہوگئے۔ وہاں کے سماجی کاموں کے باعث انہیں سوسائٹی کے انتخابات میں سوسائٹی کا صدر منتخب کیا گیا اور مستقل 20 سال سے وہ اس عہدے پر فائز تھے اور آخری سانسوں تک وہ خدمت کا کام سر انجام دیتے رہے۔ انہوں نے اپنا ذاتی پیسہ سوسائٹی کی فلاح و بہبود اور یہاں کے ترقیاتی کاموں میں خرچ کیا۔ انہیں یہاں بھی بڑی مقبولیت حاصل تھی اور لوگ ان سے بڑی محبت کرتے۔ ڈاکٹر احمد شریف تو ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ دیکھ کر ہی مریض ٹھیک ہو جاتے تھے۔ ڈاکٹر احمد شریف نے اپنے شعبے میں بڑی مہارت حاصل کی اور اس سلسلے میں بیرون ملک بھی یہ مختلف ٹریننگ اور کورسز کے لیے گئے۔ اللہ نے ان ہاتھوں میں بڑی شفاء عطا کی تھی۔

 

ڈاکٹر احمد شریف کا تعلق ایک متوسط طبقے کے گھرانے سے تھا وہ اپنی محنت اور صلاحیت کی بنیاد پر ڈاکٹر بنے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اپنے اہل خانہ کی خدمت کے لیے وقف کی ہوئی تھی۔ وہ سب کا خیال رکھتے اور سب کے حالات سے باخبر رہتے تھے انہیں اپنے خاندان اور سسرال میں انتہائی اہمیت حاصل تھی اور ان کی شرکت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر احمد شریف اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ اپنے حلقہ احباب کا بھی خیال رکھتے۔ اللہ نے انہیں بڑا دل دیا تھا کسی کی پریشانی اور مشکلات کا علم ہوتا تو مجھے کلینک میں بلا کر اس کی مدد کرتے۔ میرے اسکول کے دو بچوں کے والد کا دو سال قبل عید والے دن انتقال ہوگیا تو ان کے پاس کفن دفن کے پیسے بھی نہیں تھے ہم نے اس کا انتظام کیا ڈاکٹر صاحب کو علم ہوا تو وہ بھی ان کے مکان کے کرایہ میں مدد کیا کرتے تھے۔ سیکڑوں لوگ اور خاندان ہیں جو آج انہیں یاد کرتے ہیں۔ ہمارے ایک مشترکہ دوست صحافی محمد انور جنہیں فالج تھا اور دس سال سے وہ صاحب فراش تھے ڈاکٹر احمد شریف قوی بھائی اور کبھی کبھار میرے ساتھ چھٹی کے دن محمد انور کے گھر جاتے گھنٹوں وہاں ہماری مجلس جمتی تھی اور وہ انتہائی خاموشی کے ساتھ ان کی مدد کیا کرتے تھے۔

 

ڈاکٹر صاحب کو مطالعہ کا بہت شوق تھا اردو ڈائجسٹ، تکبیر، زندگی، ایشیا کے وہ مستقل قاری تھے انہیں حالات حاضرہ پر بڑا عبور حاصل تھا۔ اپنی بچیوں سے بڑی محبت کرتے اور ہمیشہ ان کی ہر ضرورتوں کا خیال رکھتے ان کی اہلیہ ڈاکٹر ثروت نرگس پر آج بلاشبہ غم کا پہاڑ ٹوٹا ہے۔ اللہ پاک انہیں صبر عطا فرمائے ان دونوں کی محبتیں لازوال تھی دونوں ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرتے اور اپنے خاندان کو جوڑے رکھنے اور ان کی پریشانیوں کو حل کرنے میں دونوں میاں بیوی پیش پیش رہتے تھے۔ میری حیثیت ان کے گھر اور خاندان میں فیملی ممبر کی طرح تھی ان کے تمام بہن بھائی، بیوی بچے اور داماد تک مجھے بڑی عزت دیتے ہیں۔ ان کے دوست ڈاکٹر عرفان اشرف، ڈاکٹر عبد العلیم صدیقی ان کے انتقال پر بڑے غم زدہ تھے۔ میں نے ڈاکٹر عبد العلیم صدیقی کو ان کی قبر سے لپٹ کر روتے دیکھا ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر احمد شریف کو ایک آئیکون کی حیثیت حاصل تھی ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا آج ہم جو کچھ بھی ہیں وہ اپنے مرشد ڈاکٹر احمد شریف کے مرہون منت ہی ہیں۔ اللہ پاک اپنے بندوں کی خدمت کرنے والے اپنے اس عظیم بندے کا جنت میں شایان شان استقبال کریں گے اور غریبوں کے مسیحا کو اس کی تمام خطاؤں کو درگزر کرتے ہوئے اسے شہداء اور صالحین کا قرب عطا فرمائے گے۔

قاسم جمال.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر احمد شریف نے ڈاکٹر صاحب کرتے تھے انہوں نے کے ساتھ تھے اور کی خدمت تھی اور اور وہ کے لیے

پڑھیں:

عابد حسین، درجنوں افراد کی پی ایچ ڈی اور دریافتوں میں مددگار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اکتوبر 2025ء) ’’یہ 23 مارچ 2003 کی بات ہے جب مجھے کسی نے بتایا کہ لاکھوں سال قدیم ہاتھی دانت کےانمول فوسل کو کلہاڑوں سے کاٹا جاچکا ہے۔ جب میں وہاں پہنچا تواس کا کچھ حصہ نظر آرہا تھا۔ اس وقت موبائل فون عام نہ تھے، تاہم کسی نہ کسی طرح شعبہ حیوانات، جامعہ پنجاب سے رابطہ کیا گیا تو ڈاکٹرعبدالغفاراور زبیدالحق وہاں پہنچے۔

‘‘ عابد حسین نے یہ بات ڈی ڈبلیو کو بتائی۔

قدیمی عظیم الجثہ جانور کی باقیات دریافت

نظام دوران خون رکھنے والا قدیم ترین جاندار دریافت

عابد حسین، ضلع جہلم کے چھوٹے سے گاؤں 'تتروٹ‘ کےرہائشی ہیں جن کے پاس ارضیات اور حیوانیات کی باقاعدہ ڈگری تو نہیں لیکن اوائل عمر میں انہوں نے ڈائنوسار کی ہڈیوں کے متعلق پڑھا اوران کی تلاش میں چل پڑے۔

(جاری ہے)

اب تک وہ لاتعداد قدیم جانداروں کی نشاندہی کر کے سائنسی لٹریچر میں اضافے کی وجہ بن چکے ہیں۔ پاکستان کا 'فوسلستان‘

تتروٹ میں جا بجا لاکھوں برس پرانے جانوروں کی ہڈیاں بکھری ہوئی ہیں جو مقامی ارضی لحاظ سے اپر سوالِک کا علاقہ ہے جہاں 35 سے 5 لاکھ سال پرانے جانوروں کےفوسل پائے جاتے ہیں۔ انہیں نیو جین (نئی پیدائش) کے جاندار بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس وقت زمینی تبدیلیوں سے طرح طرح کے جانور پیدا ہوئے جن پر تحقیق میں پاکستان کا کردار نہایت اہم ہے۔

اب بھی یہاں فوسل آسانی سے مل جاتے ہیں جن کا اولین ذکرانیسویں صدی میں بھی ملتا ہے۔

عابد حسین کا گھر بالخصوص موسمِ سرما میں اسکالروں کی آماجگاہ ہوتا ہے جہاں پاکستان سمیت دنیا بھر کے ماہرین، فوسل کی تلاش میں ان کے مہمان بنتے ہیں۔ ان کی مدد سے اب تک 22 طلبا و طالبات پی ایچ ڈی اور ایم فل مکمل کرچکے ہیں۔ یہاں تک کہ کئی مقالوں میں ان کا نام بھی شامل ہے۔

پاکستان کے معروف ماہرِ قدیم حیوانات اور چولستان یونیورسٹی بہاولپورمیں شعبہ حیوانیات کے ڈین، ڈاکٹر عبدالغفارنے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عابد حسین سے ان کی پہلی ملاقات 1998 میں ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا، '' نہ صرف جہلم، بلکہ چکوال کے کئی علاقے فوسلز سے بھرے ہوئے ہیں جو اسے بین الاقوامی شہرت یافتہ نیچرل میوزیم بناتے ہیں۔

یہاں ناپید زرافوں، گینڈوں، گوشت خور درندوں، ہرن، چوپائیوں، چوہوں اور ہاتھیوں کی نئی اقسام بھی دریافت ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ ایشیا میں قدیم ہاتھی کا سب سے بڑا دانت ملا ہے جس کی لمبائی 8 فٹ 11 انچ ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر عابد حسین پیلی اونٹولوجی کے لیے اتنے ہی اہم ہیں جتنا خود جہلم کا علاقہ ہے۔‘‘

جامعہ پنجاب کے شعبہ حیوانیات میں قائم 'ابوبکر فوسل اینڈ ڈسپلے ریسرچ سینٹر' میں 'اینانکس سیولینسس‘ نامی ہاتھی کا دانت رکھا ہے۔

چھوٹی سونڈ اور بڑے دانتوں والے ہاتھیوں کی یہ نسل لگ بھگ ٍ15 لاکھ سال قبل صفحہ ہستی سے مٹ گئی تھی۔ قدیم زندگی کے نئے ابواب

واضح رہے کہ سوالک گروپ یا فارمیشن کے آثار اور ان میں موجود فوسل اپنی وسعت کی بنا پر بھارت تک پھیلے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک سے 'راما پتھیکس‘ اور 'شیواپتھیکس‘ انواع کے جبڑے اور کھوپڑی کی ہڈیاں ملیں تو پہلے کہا گیا کہ یہ قدیم انسانوں کے آثار ہیں۔

تاہم مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ گہرے نارنجی بالوں سے ڈھکے اورنگ اٹان بندر کے جد تھے جن کی اونچائی ایک سے ڈیڑھ میٹر ہوا کرتی تھی۔

تتروٹ فوسل نے حیاتیات کی گتھیوں کو بھی سلجھایا ہے۔ ایک دلچسپ واقعہ عابد حسین نے سنایا کہ کسی نے انہیں ایک جانور کا سینگ لاکر دیا تو وہ اس کے قائل نہ ہوئے۔ لیکن جب ڈاکٹر عبدالغفار اور ان کے ساتھیوں نے اسے دیکھا تو کہا کہ یہ کسی بھینسے کا سینگ ہے اور اسی مقام پر دوسرا سینگ تلاش کرنے کا مشورہ دیا۔

عابد حسین اسی آدمی کی رہنمائی میں سینگ والے مقام تک پہنچے اور وہاں کھدائی شروع کی تو دوسرا سینگ بھی نکل آیا۔ اس سے قبل یہاں بھینسے کے سینگ نہیں ملے تھے اور خود غیرملکی ماہرین بھی اس پر متفق تھے۔ تاہم یہ ایشیا میں اس دور کے بھینسے کی یہ پہلی دریافت بھی ہے۔

تتروٹ کا چڑیا گھر

اگرچشمِ تصور سے دیکھا جائے تو تتروٹ کا پرسکون گاؤں دسیوں لاکھوں برس قبل سبزے سے بھرا جنگل تھا۔

یہاں قدیم ہاتھی چنگھاڑتے تھے، چھوٹی گردن والے زرافے جگالی کرتے تھے، چوہا ہرن قلانچے بھرتے تھے، درندے غراتے تھے، انہیں دیکھ کر چھوٹے ممالیے چھپ جایا کرتے تھے اور قدیم مگرمچھ اور کچھوے یہ منظر دیکھتے تھے۔ آج ان کی کہانی پتھروں پر لکھی ملتی ہے۔

اس سے بڑھ کر یہ علاقہ ہمیں ناپید حیات، قدیم موسم، حیوانوں کی نقل مکانی اورحیاتیاتی تنوع کی داستان سناتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر محمد زبیر ابوبکر، ماجد خان، ڈاکٹر سمیع اللہ، ڈاکٹر منظور، ڈاکٹر اختر، ڈاکٹر اکبر، ڈاکٹر عبدالغٖفار اور دیگر بے شمار پاکستانی اسکالروں کے علاوہ پوری دنیا کے ماہرین نے اس خطے میں حیرت انگیز دریافتیں کی ہیں۔ ان میں برطانیہ کے گائے پِلگرم، رچرڈ لائڈیکر، پروبی کوٹلے، ہیوفاکنر اور دیگر شامل ہیں۔ جبکہ جے سی بیری، ایل ایل جیکب، جے جے ہیڈ اور شیری نیلسن کا تعلق امریکہ سے ہے۔

عالمی شہرت یافتہ اس مقام پر اب بھی دنیا بھر کے ماہرین آرہے ہیں، اب بھی الماریوں میں بھری ہڈیوں کو پڑھنا باقی ہے اور مقالے لکھے جارہے ہیں۔

دنیا بھر میں شوقیہ فوسل ہنٹر، غیرمعمولی دریافتوں کی وجہ بنتے ہیں، پاکستان میں عابد حسین اس میدان کے غیرمعمولی کھلاڑی ہیں جن کی تلاش کا سفر اب بھی جاری ہے۔ بلاشبہ ان کی علمی خدمات کے صلے میں وہ ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کے حقدار بھی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • عابد حسین، درجنوں افراد کی پی ایچ ڈی اور دریافتوں میں مددگار
  • انسدادِ شدت پسندی قانون امن کے فروغ میں سنگِ میل ثابت ہوگا، ڈاکٹر احمد جاوید قاضی
  • حافظ نعیم الرحمان کا شہباز شریف سے مشتاق احمد کی بازیابی کیلئے کوششیں تیز کرنے پر زور
  • رجب بٹ پر ’ہم جنس پرستی‘ کا الزام، ویڈیو ثبوت پیش کرنے کی دھمکی
  • صمود فلوٹیلاکے غیر مسلح امدادی کارکنوں کی گرفتاری عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے،ڈاکٹر حمیرا طارق
  • وزیراعظم شہباز شریف کیجانب سے قاتل ٹرمپ کے غزہ پلان کی حمایت مسترد کرتے ہیں، غلام حسین جعفری
  • آئی فون خریدنے کیلئے اپنا گردہ بیچنے والا شخص تاحیات بڑی مشکل میں پھنس گیا
  • ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایچ ای سی ضیاء القیوم مستعفی
  • مشتاق احمد خان سمیت تمام گرفتار پاکستانی فوری رہا کیے جائیں، شہباز شریف کا مطالبہ
  • شکیب الحسن پر قومی ٹیم کے لیے کھیلنے پر مستقل پابندی عائد