ڈاکٹر احمد شریف کی رحلت
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251001-03-7
قاسم جمال
موت ایک حقیقت ہے اور ہر فرد کو اس کا مزا چکھنا ہے۔ بے شک کامیاب وہ ہوگیا جس نے حق کو پہچان لیا اور وہ اس ڈٹ گیا۔ ڈاکٹر احمد شریف بھی ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ زمانہ طالب علمی میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ میں قوم پرستوں سے انکا خوب ٹاکرا ہوا۔ انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن ایک لمحے کے لیے بھی یہ پیچھے نہیں ہٹے ایک سال تک لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل کالج کے پہلے ناظم کی ذمے داری ادا کی۔ پھر ان کا داخلہ سندھ میڈیکل کالج کراچی میں منتقل ہوگیا یہاں بھی انہیں نظامت کی ذمے داری ملی۔ کالج کا آخری الیکشن بھی ڈاکٹر احمد شریف نے لڑا کڑا مقابلہ تھا اور معمولی ووٹوں سے انہیں شکست ہوئی تھی۔ ڈاکٹر احمد شریف نے اپنے دور میں طلبہ تحریکوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔
وہ انتہائی پرجوش اور بہادر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ کبھی کسی دھمکی اور خوف سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ ان کی بہادری کے ڈنکے وزیر اعلیٰ ہاؤس تک پہنچے تھے۔ ان کے دور میں سندھ کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفی جتوئی تھے وزیراعلیٰ ہاؤس پر طلبہ کا احتجاجی مظاہرہ تھا۔ وزیراعلیٰ ہاؤس کا گیٹ بند کردیا گیا۔ نوجوان طالب علم رہنما ڈاکٹر احمد شریف نے بس کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کی دیوار کے ساتھ لگا دیا اور بس کی چھت پر چڑھ کر یہ اپنے ساتھیوں سمیت وزیراعلیٰ ہاؤس کے اندر کود گئے۔ اس وقت خالد رحمن ناظم کراچی تھے اور وہ اس پرجوش نوجوان سے بڑی محبت کرتے اور انہیں ہر وقت تحمل اور صبر کے ساتھ کام کرنے کی تلقین
کرتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں احمد شریف پر بڑے مقدمات قائم ہوئے لیکن انہوں نے کبھی اس کی پروا نہیں کی اور ہمیشہ آگے ہی بڑھتے رہے۔ سید منور حسن، حسین حقانی، خالد رحمن، قیصر خان، اسلم مجاہد سے قریبی تعلقات تھے۔ خالدرحمن تو ڈاکٹر احمد شریف کے آئیڈیل تھے اور آخری سانسوں تک ان سے محبتوں والا تعلق قائم رہا۔ ان دونوں کے آپس میں فیملی تعلقات تھے۔ احمد شریف کی شادی اسلامیہ کالج کے پرنسپل انصار اعظم کی صاحبزادی کے ساتھ ہوئی تھی اور یہ بے مثال جوڑا دونوں خاندانوں میں ایک مثال تھا۔ ایم بی بی ایس اور ہاؤس جاب مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر احمد شریف نے اپنی پریکٹس شروع کی۔ سینٹ جان اسپتال کورنگی چھے کے ایڈمنسٹر مقرر ہوئے اس کے علاؤہ پی آئی بی کالونی میں احمد فوڈ کی بلڈنگ میں نورالنہار میڈیکل اسپتال قائم کیا اس وقت کے میئر کراچی عبد الستار افغانی اور وہاں کے کونسلر زہیر اکرم ندیم نے اس عظیم الشان اسپتال افتتاح کیا تھا۔ اس اسپتال میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار جو کہ فریش ڈاکٹر بنے تھے انہوں نے میڈیکل آفیسر کی ملازمت کی۔ ڈاکٹر فاروق ستار کے ڈاکٹر احمد شریف سے خصوصی تعلقات تھے۔ میری کبھی ڈاکٹر فاروق ستار سے کسی تقریب میں ملاقات ہو جائے تو وہ ڈاکٹر احمد شریف کے بارے میں ضرور پوچھا کرتے تھے۔
احمد شریف نے ہمیشہ کورنگی لانڈھی کے غریب لوگوں کی خدمت کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا۔ جے ایریا کورنگی کے بعد کلو چوک پر ان کا کلینک شفٹ ہوگیا اور پھر ڈاکٹر صاحب کی مصروفیت کا ایسا دور شروع ہوا کہ سر جھکانے کی فرصت نہیں تھی۔ شام سات بجے کے بعد رات ایک بجے تک ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر رش ہوتا اور رات ایک بجے دروازے بند کر دیے جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب جلدی امراض کے انتہائی ماہر ڈاکٹر تھے اور پورے شہر سے مریض علاج کے لیے ان کے پاس آتے تھے۔ انتہائی مصروف زندگی گزارنے کے باوجود ڈاکٹر احمد شریف بندگان خدا کی خدمت کا شعار بنائے رکھا۔ ڈاکٹر صاحب تقریباً 20 سال قبل پہلوان گوٹھ کے قریب سندھ بلوچستان سوسائٹی منتقل ہوگئے۔ وہاں کے سماجی کاموں کے باعث انہیں سوسائٹی کے انتخابات میں سوسائٹی کا صدر منتخب کیا گیا اور مستقل 20 سال سے وہ اس عہدے پر فائز تھے اور آخری سانسوں تک وہ خدمت کا کام سر انجام دیتے رہے۔ انہوں نے اپنا ذاتی پیسہ سوسائٹی کی فلاح و بہبود اور یہاں کے ترقیاتی کاموں میں خرچ کیا۔ انہیں یہاں بھی بڑی مقبولیت حاصل تھی اور لوگ ان سے بڑی محبت کرتے۔ ڈاکٹر احمد شریف تو ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ دیکھ کر ہی مریض ٹھیک ہو جاتے تھے۔ ڈاکٹر احمد شریف نے اپنے شعبے میں بڑی مہارت حاصل کی اور اس سلسلے میں بیرون ملک بھی یہ مختلف ٹریننگ اور کورسز کے لیے گئے۔ اللہ نے ان ہاتھوں میں بڑی شفاء عطا کی تھی۔
ڈاکٹر احمد شریف کا تعلق ایک متوسط طبقے کے گھرانے سے تھا وہ اپنی محنت اور صلاحیت کی بنیاد پر ڈاکٹر بنے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اپنے اہل خانہ کی خدمت کے لیے وقف کی ہوئی تھی۔ وہ سب کا خیال رکھتے اور سب کے حالات سے باخبر رہتے تھے انہیں اپنے خاندان اور سسرال میں انتہائی اہمیت حاصل تھی اور ان کی شرکت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر احمد شریف اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ اپنے حلقہ احباب کا بھی خیال رکھتے۔ اللہ نے انہیں بڑا دل دیا تھا کسی کی پریشانی اور مشکلات کا علم ہوتا تو مجھے کلینک میں بلا کر اس کی مدد کرتے۔ میرے اسکول کے دو بچوں کے والد کا دو سال قبل عید والے دن انتقال ہوگیا تو ان کے پاس کفن دفن کے پیسے بھی نہیں تھے ہم نے اس کا انتظام کیا ڈاکٹر صاحب کو علم ہوا تو وہ بھی ان کے مکان کے کرایہ میں مدد کیا کرتے تھے۔ سیکڑوں لوگ اور خاندان ہیں جو آج انہیں یاد کرتے ہیں۔ ہمارے ایک مشترکہ دوست صحافی محمد انور جنہیں فالج تھا اور دس سال سے وہ صاحب فراش تھے ڈاکٹر احمد شریف قوی بھائی اور کبھی کبھار میرے ساتھ چھٹی کے دن محمد انور کے گھر جاتے گھنٹوں وہاں ہماری مجلس جمتی تھی اور وہ انتہائی خاموشی کے ساتھ ان کی مدد کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کو مطالعہ کا بہت شوق تھا اردو ڈائجسٹ، تکبیر، زندگی، ایشیا کے وہ مستقل قاری تھے انہیں حالات حاضرہ پر بڑا عبور حاصل تھا۔ اپنی بچیوں سے بڑی محبت کرتے اور ہمیشہ ان کی ہر ضرورتوں کا خیال رکھتے ان کی اہلیہ ڈاکٹر ثروت نرگس پر آج بلاشبہ غم کا پہاڑ ٹوٹا ہے۔ اللہ پاک انہیں صبر عطا فرمائے ان دونوں کی محبتیں لازوال تھی دونوں ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرتے اور اپنے خاندان کو جوڑے رکھنے اور ان کی پریشانیوں کو حل کرنے میں دونوں میاں بیوی پیش پیش رہتے تھے۔ میری حیثیت ان کے گھر اور خاندان میں فیملی ممبر کی طرح تھی ان کے تمام بہن بھائی، بیوی بچے اور داماد تک مجھے بڑی عزت دیتے ہیں۔ ان کے دوست ڈاکٹر عرفان اشرف، ڈاکٹر عبد العلیم صدیقی ان کے انتقال پر بڑے غم زدہ تھے۔ میں نے ڈاکٹر عبد العلیم صدیقی کو ان کی قبر سے لپٹ کر روتے دیکھا ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر احمد شریف کو ایک آئیکون کی حیثیت حاصل تھی ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا آج ہم جو کچھ بھی ہیں وہ اپنے مرشد ڈاکٹر احمد شریف کے مرہون منت ہی ہیں۔ اللہ پاک اپنے بندوں کی خدمت کرنے والے اپنے اس عظیم بندے کا جنت میں شایان شان استقبال کریں گے اور غریبوں کے مسیحا کو اس کی تمام خطاؤں کو درگزر کرتے ہوئے اسے شہداء اور صالحین کا قرب عطا فرمائے گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر احمد شریف نے ڈاکٹر صاحب کرتے تھے انہوں نے کے ساتھ تھے اور کی خدمت تھی اور اور وہ کے لیے
پڑھیں:
حافظ نعیم الرحمان کا شہباز شریف سے مشتاق احمد کی بازیابی کیلئے کوششیں تیز کرنے پر زور
وزیراعظم سے ٹیلیفونک گفتگو میں امیر جماعت اسلامی کی جانب سےامریک صدر کے 20 نکاتی غزہ پروگرام پر قوم کی جانب سے سخت تحفظات کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ پاکستان کو صرف آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبہ پر قائم رہنا چاہئے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا وزیراعظم شہباز شریف سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا، حافظ نعیم نے وزیراعظم سے سینیٹر مشتاق احمد خان کی رہائی اور بازیابی کے لیے کوششوں کو تیز کرنے پر زور دیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے امیر جماعت اسلامی کو کہا کہ اس سلسلے میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی ذمے داری لگا دی گئی ہے۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ یہ جماعت اسلامی کا معاملہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کے حوالے سے اس کی اہمیت ہے، گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ اور گرفتاریاں سخت قابل مذمت ہیں۔
امیر جماعت اسلامی کی جانب سے ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ پروگرام پر قوم کی جانب سے سخت تحفظات کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ پاکستان کو صرف آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبہ پر قائم رہنا چاہئے۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ کسی ایسے پلان کی حمایت نہیں کرنی چاہئے جو بالآخر اسرائیل ہی کو طاقت فراہم کرے۔
انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کی تشویشناک صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ احتیاط کا برتاؤ کیا جائے، حکومت ذمہ داری کے ساتھ اس معاملے کا بات چیت کے ذریعے حل نکالے۔ حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی بیانیہ جو صرف چند لوگ کے زیر اثر ہے اسے تمام کشمیریوں کا مؤقف نہ سمجھا جائے۔