Islam Times:
2025-10-04@13:54:06 GMT

اہل یمن کا اپنے محسن سید حسن نصر اللہ شہید کو خراج تحسین

اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT

اہل یمن کا اپنے محسن سید حسن نصر اللہ شہید کو خراج تحسین

اسلام ٹائمز: انصار اللہ کے قائدین میں سے ایک خالد المدنی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ سید حسن نصر اللہ یمنی عوام کی حمایت میں اٹھنے والی ایک طاقتور آواز تھے،انہوں نے ہمیشہ یمنی عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے بارے میں بات کی اور یمن کے خلاف امریکہ، صیہونی حکومت، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی مشترکہ جارحیت پر سخت موقف اختیار کیا، وہ پوری قوت کے ساتھ ہماری حمایت کے لئے موجود تھے۔ خصوصی رپورٹ:

یمن کے شہر صنعاء میں لبنان کی اسلامی مزاحمت حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی شہادت کی پہلی برسی کے موقع پر یمنی عوام نے رہبر مقاومت کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور یمنی حکومت اور عوام کے لیے ان کی غیر متزلزل حمایت کو سراہا ہے۔ اگرچہ سید حسن نصر اللہ لبنان میں شہید ہوئے، لیکن یمن کے مظلوم اور مزاحمتی عوام نے بھی ان کی شہادت پر سوگ منایا اور ماتمی لباس زیب تن کیے۔ یمن کی حکومت اور عوام 2015 میں سعودی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد کے حملے کے آغاز سے لے کر اب تک یمن کے عوام کے لیے حزب اللہ اور سید حسن نصر اللہ کی مسلسل حمایت اور صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کے تسلسل کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کو فرنٹ لائن اور ایک ناقابل تسخیر رکاوٹ سمجھتے ہیں۔

صنعاء کے مبارز اور مجاہد عوام اسلامی ممالک کے خلاف دشمنوں کی جارحیت کے دائرہ کار میں توسیع کو اس دانشمند اور دلیر لیڈر کی عدم موجودگی کا ایک نتیجہ سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں یمن کے میڈیا کے قائم مقام وزیر توفیق الحمیری نے خبررساں ادارےتسنیم کے ساتھ انٹرویو میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ یہ امت کے عظیم رہنما کی شہادت کی پہلی برسی ہے، سید حسن وہ پہلا مورچہ تھے جو صہیونیوں کے خلاف رکاوٹ بنا،جس نے "نئے مشرق وسطیٰ" نامی منصوبے کو آگے بڑھانے سے انہیں روکا، ہم یمنی قوم کے سید حسن نصر اللہ کے ساتھ تعلق سے پوری طرح واقف ہیں، شہید صیہونیوں کے خلاف ہماری لڑائی میں بھی حصہ دار تھے۔
نوجوان اور کھیل کے قائم مقام وزیر علی حسین حزبان نے بھی ایک مختصرگفتگو میں خطے میں امریکی صہیونی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قائد مزاحمت کی انتھک کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ سید حسن نصر اللہ کی شہادت نے قوم کو اپنی ناقابل تسخیر سایہ سے محروم کر دیا اور شام میں اسرائیل اور امریکی سازشوں کیخلاف مقاومت کو بھی نقصان پہنچا۔
ان کی شہادت کے بعد خطے میں ہونے والی پیش رفت نے ثابت کر دیا کہ سید حسن نصر اللہ امریکہ، اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے نئے منصوبوں کے سامنے ایک ناقابل تسخیر رکاوٹ اور ایک مضبوط قلعہ تھے۔ یمن میں اس سانحہ کو بہت بڑا نقصان سمجھا جاتا ہے۔ یمنی عوام کی سید حسن نصر اللہ سے پہلے بھی عقیدت تھی لیکن جب یمنی عوام 2015 میں اس ملک پر بین الاقوامی اتحاد کے حملے کے سامنے تنہارہ گئے تھے، تو شہید حسن نصر اللہ جارحیت شروع ہونے کے ایک رات بعد ایرانی اسلامی مزاحمتی مجاہدین کی مدد سے یمنی عوام کی مدد کے لیے وارد ہو گئے تھے۔ ان دنوں جب کہ یمنی عوام کی اکثریت آپ کی شہادت پر سوگ منا رہی ہے، اس عظیم دکھ کی تسکین سید عبدالملک الحوثی کی موجودگی ہے، جو اس ملک میں مزاحمت کا پرچم تھامے ہوئے، ملت اسلامیہ کا دفاع کر رہے ہیں۔
یمن کی عبوری کونسل کے رکن کرنل یحییٰ المہدی نے حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کی شہادت پر یمنیوں کے غم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ  یمن میں ہمارا مزاج لبنان میں اپنے بھائیوں جیسا ہے، ہم شہید انسانیت و شہید  اسلام سید حسن اللہ کے نقصان پر ان سے بھی زیادہ غمزدہ اور غمگین  ہیں،وہ  یمن پر جارحیت کے دوران یمنیوں کےمددگار، حامی اور سرپرست تھے۔

سید حسن نصر اللہ کو یمنی عوام میں ایک عام آدمی نہیں سمجھا جاتا ہے، بلکہ ایک ایسی سوچ سمجھا جاتا ہے جس کی پیروی کی جانی چاہیے۔ ان دنوں قطر کے شہر دوحہ پر صیہونی حکومت کے  حملے کے بعد عرب دنیا کے حکمرانوں میں سے شہید مقاومت کے دشمن بھی ان کی جدائی اور نقصان کو ان کے حامیوں سے زیادہ محسوس کر رہے ہیں اور وہ اپنی سرزمینوں کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت کو سید حسن نصرا للہ کی شہادت کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔

 انصار اللہ کے قائدین میں سے ایک خالد المدنی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ سید حسن نصر اللہ یمنی عوام کی حمایت میں اٹھنے والی ایک طاقتور آواز تھے،انہوں نے ہمیشہ یمنی عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے بارے میں بات کی اور یمن کے خلاف امریکہ، صیہونی حکومت، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی مشترکہ جارحیت پر سخت موقف اختیار کیا، وہ  پوری قوت کے ساتھ ہماری حمایت کے لئے موجود تھے۔

یمنی عوام سید حسن نصر اللہ کی فلسطینی عوام کی حمایت کو کبھی فراموش نہیں کریں گے جو بالآخر اس مقصد میں ان کی شہادت پر منتج ہوئی۔ صیہونی دشمن کے ساتھ مقابلے میں شاید سب سے بڑا نقصان اور سب سے بڑی قربانی سید حسن نصر اللہ کی شہادت تھی۔ سید حسن نصر اللہ کی شہادت کی برسی کے موقع پر یمنی اپنے عہد وفاپر قائم ہیں اور مظلوموں کی حمایت اور عالمی استکبار کا مقابلہ کرنے کے لیے "سید وفا" کے ساتھ اپنا راستہ جاری رکھنے کی تجدید عہد کرتے ہیں۔
 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سید حسن نصر اللہ کی شہادت کہ سید حسن نصر اللہ صیہونی حکومت یمنی عوام کی کی شہادت پر کی حمایت حزب اللہ اللہ کے کے خلاف کے ساتھ یمن کے کے لیے

پڑھیں:

وحدتِ کشمیر سازشوں کی زد میں

آزاد کشمیر، وہ سرزمین جو قدرتی حسن، بہتے جھرنوں، سرسبز وادیوں، خوشبودار قدرتی گل و برگ، پھلوں، جنگلوں، سبزہ زاروں، تن بدن کو جگا دینے والی لہراتی میٹھی ہواؤں، چمکتے آسمانوں، خوبصورت انسانوں سے مزین انتہائی پرامن خطہ تھا، آج اپنے ہی باسیوں کے لہو سے رنگین ہو چکا ہے۔

جہاں کبھی امن کی ہوائیں بہتی تھیں، آج وہاں نفرت، تقسیم اور اضطراب کی لہر دوڑ رہی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ’عوامی ایکشن کمیٹی‘ کا پلیٹ فارم کیوں بنا؟ احتجاج کیوں ہوا؟، بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ پرامن احتجاج کیسے شوریدہ ہوا؟ کس نے اس ’سوہنی دھرتی ‘ کو نفرت کی داغدار چادر تھما دی، اس کا فائدہ کس کو ہوا، مزید کون فائدہ اٹھائے گا؟

خطہ آزاد کشمیر میں جاری ’تحریک‘ نے ایک مرتبہ پھر ہمیں آئینہ دکھایا ہے کہ دشمن صرف سرحد کے اُس پار نہیں، بلکہ ہمارے اندر گھس کر سازشیں کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

جب بھارتی وزیر دفاع ’راجناتھ سنگھ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ’ہمیں آزاد کشمیر کو فوج کے ذریعے فتح کرنے کی ضرورت نہیں، یہ خود ہی پاکستان کا حصہ نہیں رہے گا‘، تو یہ محض ایک بیان نہیں، بلکہ ایک منصوبہ ہے، ایک ایسا منصوبہ جو برسوں سے کشمیر کی وحدت کو ہمیشہ کے لیے بگاڑنے، عوام کو باہم الجھانے اور پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے۔

بدقسمتی سے، ہم نے خود دشمن کو یہ موقع فراہم کیا۔ مہاجرین کی نشستوں کا معاملہ ہو یا اشرافیہ کی مراعات، یہ وہ سوالات ہیں جن پر بات ہونی چاہیے، لیکن اس کی تکمیل بندوقوں اور لاشوں کی گواہی پر نہیں، بلکہ دلیل، ووٹ اور آئینی راستے سے ہونی چاہیے۔

اشرافیہ کی بات کی جائے تو یہ بالکل درست ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام اپنے چندے پر سڑکیں بنا رہے ہیں، اپنی مدد آپ ’پیادہ‘ راستے بنا رہے ہیں، سرکاری اسکولوں کی عمارتیں نا گفتہ بہ ہیں، اسپتالوں میں علاج کی سہولتیں نا پید ہیں، جعلی ادویات کی بھرمار ہے، تھانہ، کچہری، محکمہ مال کرپشن اور رشوت ستانی کے گڑھ ہیں، ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہے۔

یہ سب وہ ساختی برائیاں اور مسائل ہیں جو ہماری حکمران اشرافیہ کے پیدا کردہ ہیں، ان کا احتساب یقیناً ضروری ہے لیکن اس کے لیے بھی قصور وار یہی عوام ہے کہ وہ ایسے نمائندوں کو بار بار اسمبلی میں کیوں بھیجتی ہے جو ان کے حقوق کے تحفظ کے بجائے، ان کے حقوق پر ’غاصب‘ بن جائیں، یہ تبدیلی بھی جمہوری طریقوں اور ووٹ سے لائی جا سکتی ہے۔

اگر آزاد کشمیر کے عوام واقعی ’مرعات یافتہ اشرافیہ‘ سے چھٹکارا چاہتے ہیں، تو انہیں سب سے پہلے اپنے سیاسی شعور کو بیدار کرنا ہوگا۔ وہ نمائندے جو عوامی مسائل کو نظر انداز کر کے صرف مراعات اور اقتدار کی سیاست کرتے ہیں، ان کا احتساب صرف اور صرف ووٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

خود اسمبلیوں میں پہنچانے والوں کو ہٹانے کا فیصلہ سڑکوں پر قطعاً ممکن نہیں، اس کے لیے عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ صرف لسانی، قبائلی یا جذباتی بنیادوں پر ووٹ نہیں دیں گے بلکہ کارکردگی، امانت و دیانت کی بنیاد پر اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔

دشمن یقیناً طاق میں تھا، ایسا لگتا ہے کہ ایک جانب ہمارا دشمن مقبوضہ کشمیر کی ’ڈیموگرافی‘ تبدیل کرتے ہوئے اکثریت کو اقلیت میں بدلنے میں کامیاب ہونے جا رہا ہے، تو دوسری جانب ہمارے ’اندر‘ نفرتوں کی آگ لگانے میں بھی کامیاب ٹھہرا۔

کشمیر ایک ’وحدت‘ ہے، جس کی، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، جموں کشمیر اور لداخ، 4 اکائیاں ہیں۔ جب تک یہ چاروں اکائیاں باہم ایک نہیں ہوتیں تکمیلِ ’ریاست جموں کشمیر‘ خواب ادھورا رہے گا، ’عوامی ایکشن کمیٹی‘ کی جانب سے مہاجرین کی سیٹوں کے خاتمے کا مطالبہ تبھی پورا ہو سکتا ہے جب ’ریاست جموں کشمیر‘ کی چاروں اکائیوں کے ساتھ تکمیل ریاست کے لیے بھرپور جدوجہد کی جائے گی‘۔

عوامی ایکشن کمیٹی کا مہاجرین کی سیٹوں کے خاتمے کا مطالبہ یقیناً ’تکمیل ریاست جموں کمشیر‘ کا ایجنڈا نہیں ہو سکتا، یہ چاروں اکائیاں ریاست جموں کشمیر کا وجود ہیں، جن کے لیے ’خطہ آزاد کشمیر‘ کو ان کا ’بیس کیمپ‘ قرار دیا گیا، ان چاروں اکائیوں کی نمائندگی ہمارے ’مہاجر‘ بھائی ہی کرتے ہیں، ان مہاجر بھائیوں کو اپنے وجود سے الگ کرنے کا مطلب چاروں اکائیوں کو الگ کرنے کے مترادف ہے اور ہمارا دشمن بھی یہی چاہتا ہے، مہاجرین کی سیٹوں کی تعداد میں کمی کی بات تو کی جا سکتی ہے لیکن ان کا خاتمہ ’وحدت کشمیر‘ کے خاتمے سے کم نہیں تصور ہوگا۔

مہاجرین وہی لوگ ہیں جو ریاستِ جموں کشمیر کی دیگراکائیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی نشستوں کا خاتمہ دراصل کشمیر کی چاروں اکائیوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔

مہاجرین کی نمائندگی کا تحفظ، اشرافیہ کے احتساب کا مطالبہ اور عوامی مسائل کا حل سب ضروری ہیں، لیکن یہ سب تبھی ممکن ہیں، جب ہم عقل، شعور اور جمہوری اقدار کے ساتھ اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔ خونریزی، انتشار اور نفرت کا راستہ نہ صرف مسئلہ کشمیر کو کمزور کرے گا بلکہ دشمن کے بیانیے کو بھی تقویت فراہم کرے گا۔

یقیناً جہاں عوام کو پانی، بجلی، تعلیم، علاج اور انصاف جیسی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے، وہاں غصہ اور اضطراب فطری ہے۔ لیکن اس اضطراب کو استعمال کرنے والے عناصر کون ہیں؟ جب پولیس اور مظاہرین کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا گیا، جب تھوڑ پھوڑ ہو رہی ہے، جب اسلحہ کھلے عام استعمال ہو رہا ہے، تو یہ واضح ہو گیا کہ معاملہ صرف مہنگائی یا مہاجرین کی نشستوں تک محدود نہیں ہے۔

یہ سب ایک منظم منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد ریاست کو کمزور کرنا، عوام کو اشتعال دلانا اور بیرونی پروپیگنڈے کو ’انسانی لاشوں‘ کے ذریعے خوراک مہیا کرنا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش پر سب سے زیادہ چیخ و پکار ہوئی، کیوں؟ کیونکہ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کو ایک مخصوص بیانیہ دکھایا جانا مقصود تھا۔

یہی بیانیہ بھارت کے مفاد میں استعمال ہو رہا ہے جو دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ ’آزاد‘ کشمیر بھی کسی قید سے کم نہیں۔ اس ماحول میں بیرون ملک بیٹھے اپنے ہی خطے کے لوگوں نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے زہر اُگلا، ریاست کو بدنام کیا اور احتجاج کو تحریکِ آزادی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی، آزاد کشمیر کو پاکستان کا ’مقبوضہ کشمیر‘ قرار دے کر کشمیریوں کی پاکستان کے ساتھ وابستگی کو کمزور کیا گیا۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ احتجاج کرنا ایک جمہوری حق ہے، لیکن ریاست پر حملہ، عوامی و قومی اداروں کو تباہ کرنا، اپنے ہی بھائیوں پر گولیاں برسانا اور نفرت کی بنیاد پر بیانیہ بنانا دشمن کا ایجنڈا ہی ہو سکتا ہے۔

پولیس، ایف سی، رینجرز پر حملہ صرف اداروں پر نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کی نظریاتی وابستگی اور ریاست جموں کشمیر کی بنیادوں پر حملہ ہے اور اگر دشمن کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو پھر یہ ضرور جانچنا ہوگا کہ ہم کہیں دانستہ یا نادانستہ طور پر اس کے ایجنڈے کو مکمل تو نہیں کر رہے؟

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ’عوامی محرومیوں کا حل بندوق نہیں، بیلٹ ہے۔ بدعنوان اشرافیہ کا محاسبہ نفرت سے نہیں بلکہ آئینی اصلاحات سے بھی ممکن ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں موجود اُن عناصر کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا جو سچے عوامی مطالبات کو اپنے خفیہ ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اب بھی وقت ہے کہ ہم لاشوں کے پیچھے چھپی سازشوں کو سمجھیں، اپنی ریاستی وحدت کو مضبوط کریں اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک پرامن، خوشحال اور متحد کشمیر کا خواب بچا سکیں۔ ہمیں اس دھرتی کو پھر سے وہی امن، محبت، اور بھائی چارے کی زمیں بنانا ہوگا جہاں خون نہیں، علم اور شعور اگتا ہو۔

آزاد کشمیر کے عوام کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ ’کشمیر ایک وحدت ہے اور اس کی کسی ایک ’اکائی‘ میں کسی بھی قسم کا ’انتشار‘ قابل قبول نہیں، عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ’سوہنی دھرتی‘ کے رنگ کو اپنے لہو سے رنگنے دیں گے یا اس کو امید، ترقی اور اتحاد کے رنگ سے سجا کر دشمن کو یہ پیغام دیں گے کہ ’کشمیر ایک ہے، کشمیر زندہ ہے اور کشمیر آزاد ہو کر رہے گا‘۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد اقبال

آزاد کشمیر کشمیر مہاجرین

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلی مریم نواز کا خضدار میں فتنہ الہندوستان کے خلاف کامیاب آپریشن پر خراج تحسین
  • قائم مقام صدر سردار ایاز صادق نے — خضدار میں 14 دہشت گرد ہلاک کرنے پر سیکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین
  • آزاد کشمیر میں کامیاب مذاکرات، وزیراعظم کا خراج تحسین اور خیرمقدم
  • اہل عراق کا اپنے محسن شہید سید حسن نصر اللہ سے تجدید عہد
  • صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کیخلاف آئی ایس او کراچی کی احتجاجی ریلی
  • وحدتِ کشمیر سازشوں کی زد میں
  • جب اپنا بوجھ اتار پھینکا جائے
  • حزب اللہ کے شہید کمانڈر الحاج جہاد کی تصاویر
  • بھارتی سپانسرڈ دہشتگردوں کیخلاف کامیاب آپریشنز ، محسن نقوی کا سکیورٹی فورسز  کو خراجِ تحسین