Jasarat News:
2025-11-19@08:37:39 GMT

سیّدنا عبدالرحمن بن عوفؓ

اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT

سیّدنا عبدالرحمن بن عوفؓ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بدر کا میدان ہے، آج مسلمانوں کی مختصر سی تعداد، مشرکین کے لشکر جرار کے سامنے صف آرا ہے۔ ایسے موقع پر ایک سپاہی کی طبعی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے دائیں بائیں مرد میدان ہوں، لیکن اس کے برعکس، سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ دیکھتے ہیں کہ ان کے یمین ویسار میں دو انصاری نوجوان معوذ اور معاذ کھڑے ہیں، طبیعت گھبرائی، مگر اچانک وہی نوجوان پوچھتے ہیں، عم محترم! وہ ابوجہل بدبخت کون سا ہے، جو ہمارے نبی پاکؐ سے عداوت رکھتا ہے؟ سیدنا عبدالرحمنؓ نے اشارہ کیا کہ وہ جو صفیں درست کرتا پھر رہا ہے، یہی ابوجہل ہے۔ بس اشارہ ہونا تھا کہ دونوں باز کی طرح اس لعنتی پر جھپٹے اور آن کی آن میں وہ بدبخت پیوند خاک تھا۔ ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے بڑھ کر پیچھے سے معاذ پر وار کیا۔ ان کا بازو کٹ کر لٹک گیا، پھر بھی لڑتے رہے۔ لٹکتا ہوا بازو، لڑنے میں رکاوٹ بن رہا تھا ،انہوں نے اسے پاؤں کے نیچے دبا کر الگ کردیا۔ یوں اس نوجوان نے بہادری کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا۔

سیدنا عبدالرحمنؓ قریش کے خاندان بنوزہرہ میں سے تھے۔ دعوت اسلام کے آغاز میں لبیک کہنے والوں میں سے تھے۔ ہجرتین کا ثواب حاصل کیا۔ مدینہ منورہ میں مواخات کا سلسلہ شروع ہوا تو انہیں سیدنا سعد بن ربیع انصاریؓ کا بھائی بنایا گیا۔ وہ فراخ دست ہونے کے ساتھ فیاض طبع بھی تھے۔ انہوں نے گھر پہنچ کر اپنے تمام مال واسباب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور عبدالرحمنؓ سے کہا کہ ایک حصہ چن لیں۔ یہ بھی کہا کہ میری دو بیویاں ہیں، قرعہ انداز ی کر لیتے ہیں، جو آپ کے حصے میں آئے، میں اسے طلاق دیتا ہوں، عدت کے بعد اس سے نکاح کرلیں۔ عبدالرحمنؓ نے کہا: آپ اپنا مال بھی رکھیں اور بیویاں بھی۔ بس مجھے کوئی مناسب جگہ بتا دیں، جہاں میں بیٹھ کر کاروبار شروع کرسکوں۔ چنانچہ کھجور، گھی اور پنیر وغیرہ سے کام شروع کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں ذی حیثیت بن گئے۔

سیدنا عبدالرحمنؓ میں بھی قریشی خون تھا، اس لیے کسی لڑائی میں دوسرے نامور مجاہدین سے پیچھے نہیں رہتے تھے۔ غزوہ احد میں ان کے بدن پر اکیس زخم آئے تھے۔ ایک زخم پاؤں میں تھا، جس سے لنگڑانے لگے تھے۔
2ھ میں رسولؐ نے انہیں ایک دستہ دے کر دومۃ الجندل کی مہم پر روانہ فرمایا۔ اسی موقع پر حضورؐ نے ان کے سر پر اپنے مبارک ہاتھوں سے دستار باندھی تھی (ابوداؤد)۔ (حضورؐ کا سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ کے علاوہ بعض اور صحابہ کو بھی دستار باندھنا ثابت ہے۔ یہ روایات دستار فضیلت بندھوانے میں اصل ہیں، و الله تعالیٰ اعلم)
سیدنا عبدالرحمنؓ نے وہاں پہنچ کر شرعی اصول (الإسلام وإلا فالجزیہ وإلا فالحرب) کے مطابق اسلام کی تبلیغ فرمائی تو بہت سے لوگ مشرف باسلام ہوگئے۔ باقیوں نے جزیہ دینا منظور کیا۔
سیدنا عبدالرحمنؓ تجارت کے معاملے میں بڑے خوش نصیب تھے، گویا وہ پتھر بھی ہٹاتے، تو نیچے سے سونا نکل آتا۔ ایک مرتبہ ان کا تجارتی قافلہ، مدینہ آیا تو سات سو اونٹوں پر صرف خوردنی سامان تھا۔ تجارت کے علاوہ زراعت بھی ان کا ذریعہ آمدن تھا۔ (حلال اور جائز ذرائع سے روزی کمانا شرعاً جائز ہی نہیں، بلکہ دینی فرائض کے بعد، ایک شرعی فرض ہے، بالخصوص تجارت، جس میں شرعی احکام کی پوری پوری پابندی کی جائے، شریعت مقدسہ نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے)۔
آنحضرتؐ کا فرمان ہے: وہ تاجر جو سچ بولنے والا اور دیانت دار ہو، وہ پیغمبروں، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہو گا۔

عبدالله بن ہشامؓ بچے تھے کہ ان کی والدہ انہیں بارگاہ اقدس میں لے گئیں۔ آپؐ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے حق میں برکت کی دعا فرمائی، جس کا اثر یہ ہوا کہ بڑے ہو کر انہوں نے تجارت شروع کی تو اس میں بڑی برکت ہوئی۔ بعض اوقات راہ چلتے، صحابہ انہیں مل جاتے تو ان سے درخواست کرتے کہ وہ کاروبار میں انہیں شریک کر لیں (صحیح بخاری)۔ امام بن عبدالبرؒ لکھتے ہیں کہ جرف کے مقام پر انہوں نے بیس اونٹ کھیتوں کی آبیاری کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ پھر جس قدر آمدنی ہوتی تھی، اسی قدر الله کے راستے میں خرچ کرتے تھے۔ ہزاروں اشرفیاں نقد اور سینکڑوں اونٹ گھوڑے، جہاد کے سلسلے میں چندے کے طور پر دے دیتے تھے۔ امہات المومنین کی کفالت بڑی فراخ دلی سے کرتے تھے، ہزارہا روپے نقد ان کی خدمت میں پیش کرتے۔ ایک باغ ان پر وقف کیا جو چار لاکھ میں فروخت ہوا، انہوں نے خود بھی کئی شادیاں کی تھیں، اولاد بھی بہت سی تھی۔
سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ کی ایک منقبت یہ بھی ہے کہ رسولؐ نے دوران سفر ایک نماز ان کی اقتدا میں ادا فرمائی تھی۔
اسی طرح جب ابو لوٴلوٴ مجوسی نے سیدنا عمرؓ کو خنجر سے زخمی کر دیا تھا، اس وقت عمرؓ نے بھی انہی کو نماز پوری کرانے کے لیے آگے کر دیا تھا۔
سیدنا عبدالرحمنؓ کا علمی پایہ بہت اونچا تھا، بسا اوقات حضرات خلفائے راشدین بھی ان سے علمی استفادہ کرتے، نہایت صائب الرائے تھے، خلافت جیسے اہم مسائل میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔
سیدنا عبدالرحمنؓ کے یہی علمی اور عملی کمالات تھے، جن کی وجہ سے وہ جنت کی بشارت کے مستحق بنے۔ حدیث عشرہ میں رسولؐ نے ارشاد فرمایا: عبدالرحمن بن عوف جنت میں جائیں گے۔

مولانا محمد عبداللهؒ

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عبدالرحمن بن عوف سیدنا عبدالرحمن انہوں نے کر دیا

پڑھیں:

استثنیٰ کسی کے لیے نہیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251118-03-3
قانون سب کے لیے برابر ہے اسلام ایک ایسا کامل نظامِ حیات ہے جو عدل، انصاف اور مساوات کی بنیاد پر قائم ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’تم سے پہلی امتیں اسی لیے ہلاک ہوئیں کہ جب ان میں کوئی شریف جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے، اور جب کوئی کمزور کرتا تو اس پر حد قائم کرتے‘‘۔ (بخاری)
یہ فرمانِ نبویؐ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اسلامی معاشرہ تبھی سلامت رہ سکتا ہے جب احتساب سب کے لیے یکساں ہو، خواہ وہ حاکم ِ وقت ہو یا عام شہری۔سیدنا عمرؓ کا عدل اور قانون کی بالادستی اسلامی تاریخ کا روشن باب سیدنا عمر فاروقؓ کا دورِ خلافت ہے۔ وہ خلیفہ ہونے کے باوجود خود کو قانون سے بالا نہیں سمجھتے تھے۔ ایک موقع پر جب اْن سے بیت المال کے کپڑے کے اضافی حصے کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ کو گواہ بنا کر وضاحت پیش کی۔ یہی وہ طرزِ حکمرانی تھا جس نے اسلامی نظام کو دنیا کے سامنے عدل و انصاف کی مثال بنا دیا۔ اہل ِ بیت اطہار بھی قانون کے تابع اسی اصول کی سب سے عظیم مثال سیدنا علیؓ کے دورِ خلافت میں اس وقت سامنے آئی جب ایک یہودی کے ساتھ مقدمہ پیش ہوا۔ خلیفہ ٔ وقت ہونے کے باوجود سیدنا علیؓ قاضی کے سامنے مدعی کے طور پر کھڑے ہوئے، اور جب قاضی نے گواہی ناکافی ہونے پر فیصلہ اْن کے خلاف دیا، تو انہوں نے اس فیصلے کو تسلیم کر لیا۔
اسی طرح نبیؐ کی چہیتی بیٹی سیدہ فاطمہؓ کے بارے میں بھی رسولِ اکرمؐ نے فرمایا تھا ’’اگر فاطمہ بنت ِ محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا‘‘۔ (بخاری) یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اسلام میں کوئی مقدس گائے (Sacred Cow) نہیں، شریعت کے دائرے میں سب برابر ہیں۔ آج ملک کی سلامتی کے اداروں، عدلیہ پارلیمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے تمام کے لیے پیغام ہے کہ ہمارے معاشرے کی اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب تمام ادارے، سیاسی، عدالتی، عسکری یا مذہبی قرآن و سنت کے پابند بنیں۔ خلافِ شریعت کوئی فیصلہ نہ کیا جائے، اور احتساب کا نظام بلا امتیاز نافذ کیا جائے۔ بدقسمتی سے آج قانون کمزور کے لیے تلوار اور طاقتور کے لیے ڈھال بن چکا ہے۔ یہ روش اسلامی اصولوں سے انحراف ہے اور قوموں کی بربادی کی علامت ہے قرآن کہتا ہے ’’اِنَّ اللَّہَ اَمْرْ بِالعَدلِ وَالاِحسَان‘‘ (النحل: 90) یعنی اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ امت ِ مسلمہ کے لیے یہی پیغامِ ہے کہ عدل قائم کیجیے، احتساب سب کا کیجیے، اور قانون کو ہر درجہ پر مقدم رکھیے۔ یہی اسلامی نظام کی روح اور حقیقی عدلِ عمرؓ کا تسلسل ہے۔

شرافت حسین اثری سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • استثنیٰ کسی کے لیے نہیں