سیّدنا عبدالرحمن بن عوفؓ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بدر کا میدان ہے، آج مسلمانوں کی مختصر سی تعداد، مشرکین کے لشکر جرار کے سامنے صف آرا ہے۔ ایسے موقع پر ایک سپاہی کی طبعی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے دائیں بائیں مرد میدان ہوں، لیکن اس کے برعکس، سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ دیکھتے ہیں کہ ان کے یمین ویسار میں دو انصاری نوجوان معوذ اور معاذ کھڑے ہیں، طبیعت گھبرائی، مگر اچانک وہی نوجوان پوچھتے ہیں، عم محترم! وہ ابوجہل بدبخت کون سا ہے، جو ہمارے نبی پاکؐ سے عداوت رکھتا ہے؟ سیدنا عبدالرحمنؓ نے اشارہ کیا کہ وہ جو صفیں درست کرتا پھر رہا ہے، یہی ابوجہل ہے۔ بس اشارہ ہونا تھا کہ دونوں باز کی طرح اس لعنتی پر جھپٹے اور آن کی آن میں وہ بدبخت پیوند خاک تھا۔ ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے بڑھ کر پیچھے سے معاذ پر وار کیا۔ ان کا بازو کٹ کر لٹک گیا، پھر بھی لڑتے رہے۔ لٹکتا ہوا بازو، لڑنے میں رکاوٹ بن رہا تھا ،انہوں نے اسے پاؤں کے نیچے دبا کر الگ کردیا۔ یوں اس نوجوان نے بہادری کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا۔
سیدنا عبدالرحمنؓ قریش کے خاندان بنوزہرہ میں سے تھے۔ دعوت اسلام کے آغاز میں لبیک کہنے والوں میں سے تھے۔ ہجرتین کا ثواب حاصل کیا۔ مدینہ منورہ میں مواخات کا سلسلہ شروع ہوا تو انہیں سیدنا سعد بن ربیع انصاریؓ کا بھائی بنایا گیا۔ وہ فراخ دست ہونے کے ساتھ فیاض طبع بھی تھے۔ انہوں نے گھر پہنچ کر اپنے تمام مال واسباب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور عبدالرحمنؓ سے کہا کہ ایک حصہ چن لیں۔ یہ بھی کہا کہ میری دو بیویاں ہیں، قرعہ انداز ی کر لیتے ہیں، جو آپ کے حصے میں آئے، میں اسے طلاق دیتا ہوں، عدت کے بعد اس سے نکاح کرلیں۔ عبدالرحمنؓ نے کہا: آپ اپنا مال بھی رکھیں اور بیویاں بھی۔ بس مجھے کوئی مناسب جگہ بتا دیں، جہاں میں بیٹھ کر کاروبار شروع کرسکوں۔ چنانچہ کھجور، گھی اور پنیر وغیرہ سے کام شروع کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں ذی حیثیت بن گئے۔
سیدنا عبدالرحمنؓ میں بھی قریشی خون تھا، اس لیے کسی لڑائی میں دوسرے نامور مجاہدین سے پیچھے نہیں رہتے تھے۔ غزوہ احد میں ان کے بدن پر اکیس زخم آئے تھے۔ ایک زخم پاؤں میں تھا، جس سے لنگڑانے لگے تھے۔
2ھ میں رسولؐ نے انہیں ایک دستہ دے کر دومۃ الجندل کی مہم پر روانہ فرمایا۔ اسی موقع پر حضورؐ نے ان کے سر پر اپنے مبارک ہاتھوں سے دستار باندھی تھی (ابوداؤد)۔ (حضورؐ کا سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ کے علاوہ بعض اور صحابہ کو بھی دستار باندھنا ثابت ہے۔ یہ روایات دستار فضیلت بندھوانے میں اصل ہیں، و الله تعالیٰ اعلم)
سیدنا عبدالرحمنؓ نے وہاں پہنچ کر شرعی اصول (الإسلام وإلا فالجزیہ وإلا فالحرب) کے مطابق اسلام کی تبلیغ فرمائی تو بہت سے لوگ مشرف باسلام ہوگئے۔ باقیوں نے جزیہ دینا منظور کیا۔
سیدنا عبدالرحمنؓ تجارت کے معاملے میں بڑے خوش نصیب تھے، گویا وہ پتھر بھی ہٹاتے، تو نیچے سے سونا نکل آتا۔ ایک مرتبہ ان کا تجارتی قافلہ، مدینہ آیا تو سات سو اونٹوں پر صرف خوردنی سامان تھا۔ تجارت کے علاوہ زراعت بھی ان کا ذریعہ آمدن تھا۔ (حلال اور جائز ذرائع سے روزی کمانا شرعاً جائز ہی نہیں، بلکہ دینی فرائض کے بعد، ایک شرعی فرض ہے، بالخصوص تجارت، جس میں شرعی احکام کی پوری پوری پابندی کی جائے، شریعت مقدسہ نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے)۔
آنحضرتؐ کا فرمان ہے: وہ تاجر جو سچ بولنے والا اور دیانت دار ہو، وہ پیغمبروں، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہو گا۔
عبدالله بن ہشامؓ بچے تھے کہ ان کی والدہ انہیں بارگاہ اقدس میں لے گئیں۔ آپؐ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے حق میں برکت کی دعا فرمائی، جس کا اثر یہ ہوا کہ بڑے ہو کر انہوں نے تجارت شروع کی تو اس میں بڑی برکت ہوئی۔ بعض اوقات راہ چلتے، صحابہ انہیں مل جاتے تو ان سے درخواست کرتے کہ وہ کاروبار میں انہیں شریک کر لیں (صحیح بخاری)۔ امام بن عبدالبرؒ لکھتے ہیں کہ جرف کے مقام پر انہوں نے بیس اونٹ کھیتوں کی آبیاری کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ پھر جس قدر آمدنی ہوتی تھی، اسی قدر الله کے راستے میں خرچ کرتے تھے۔ ہزاروں اشرفیاں نقد اور سینکڑوں اونٹ گھوڑے، جہاد کے سلسلے میں چندے کے طور پر دے دیتے تھے۔ امہات المومنین کی کفالت بڑی فراخ دلی سے کرتے تھے، ہزارہا روپے نقد ان کی خدمت میں پیش کرتے۔ ایک باغ ان پر وقف کیا جو چار لاکھ میں فروخت ہوا، انہوں نے خود بھی کئی شادیاں کی تھیں، اولاد بھی بہت سی تھی۔
سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ کی ایک منقبت یہ بھی ہے کہ رسولؐ نے دوران سفر ایک نماز ان کی اقتدا میں ادا فرمائی تھی۔
اسی طرح جب ابو لوٴلوٴ مجوسی نے سیدنا عمرؓ کو خنجر سے زخمی کر دیا تھا، اس وقت عمرؓ نے بھی انہی کو نماز پوری کرانے کے لیے آگے کر دیا تھا۔
سیدنا عبدالرحمنؓ کا علمی پایہ بہت اونچا تھا، بسا اوقات حضرات خلفائے راشدین بھی ان سے علمی استفادہ کرتے، نہایت صائب الرائے تھے، خلافت جیسے اہم مسائل میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔
سیدنا عبدالرحمنؓ کے یہی علمی اور عملی کمالات تھے، جن کی وجہ سے وہ جنت کی بشارت کے مستحق بنے۔ حدیث عشرہ میں رسولؐ نے ارشاد فرمایا: عبدالرحمن بن عوف جنت میں جائیں گے۔
مولانا محمد عبداللهؒ
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عبدالرحمن بن عوف سیدنا عبدالرحمن انہوں نے کر دیا
پڑھیں:
حفاظتِ نظر کا انعام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جہاں ہر طرف بے پردگی، بے حجابی، عریانی اور فحاشی کا بازار گرم ہے، ایسے میں اپنی نگاہوں کو بچانا مشکل نظر آتا ہے۔ یہ ایک کڑوا گھونٹ ہے جس کو پینا نہایت دشوار کام ہے، مگر جن اللہ کے نیک بندوں کو ایمان کی حلاوت حاصل کرنا مقصود ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت منظور ہوتی ہے اور جن کو باطن کی صفائی، تزکیہ اور طہارت مدنظر ہوتی ہے وہ اس کڑوے گھونٹ کو ہمت کرکے پی جاتے ہیں اور جب ان کو عادت ہوجاتی ہے تو وہ لوگ اس کی حلاوت محسوس کرتے ہیں اور چین و سکون سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر بے انتہا انعامات کی بارش فرماتے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ بہت سے ایسے لوگ گزرے ہیں کہ جنھوں نے اس کڑوے گھونٹ کو پیا تو ان کے مرنے تک ان کے جسم سے مشک و عنبر کی خوشبوئیں آتی رہیں۔
سیدنا ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:
پہلی بار دیکھنا غلطی ہے، دوسری بار دیکھنا جان کر گناہ کرنا ہے اور تیسری بار دیکھنا ہلاکت ہے، انسان کا عورت کے جسمانی محاسن دیکھنا ابلیس کے تیروں میں سے ایک زہر آلود تیر ہے جس مسلمان نے اس کو اللہ کے خوف سے اور اللہ کے پاس موجود انعامات کے حاصل کرنے کی امید میں چھوڑ دیا تو اللہ اس کی وجہ سے اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائیں گے، جو اس کو اپنی عبادت اور نظر کی پاکیزگی کا مزہ نصیب کرے گی۔
سیدنا مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیا کو نہ دیکھنے سے اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے۔
سیدنا ابراہیم بن مہلبؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ثعلبہ اور خزیمہ کے درمیان ایک جوان کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا، جو لوگوں سے الگ تھلگ تھا اس کے پاس اخلاص و توحید کی دولت تھی اور اسے معرفتِ خداوندی حاصل تھی، اور اللہ پر مضبوط توکل رکھتا تھا یقیناً اس کا درجہ اور مقام بہت بلند تھا۔ میں نے اس جوان سے معلوم کیا کہ تم کو یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا تو اس جوان نے جواب دیا کہ ہر حرام چیز سے اپنی آنکھوں کی حفاظت کرکے اور ہر منکر اور گناہ سے اجتناب کرکے مجھے یہ انعام حاصل ہوا۔ معلوم ہوا کہ نظر کی حفاظت بے شمار انعامات کے حصول کا سبب ہے۔
گناہ سے بچنے والوں کا ثواب
گزشتہ تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ بدنظری کتنا سخت گناہ ہے اور اس میں انسان اللہ تعالیٰ کے غضب کا مستحق ہوجاتا ہے، مگر جو لوگ اللہ کے خوف سے گناہ سے رک جاتے ہیں اور اپنی خواہشات کا صرف اللہ کی وجہ سے گلا گھونٹ دیتے ہیں تو رب العالمین ایسے لوگوں کو بے شمار انعامات اور ثواب سے سرفراز فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے رب کے سامنے پیش ہونے سے خوفزدہ ہوگیا اس کے لیے دو جنتیں ہوں گی۔ اس آیت کی تفسیر میں مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ یہ دو جنتیں اس شخص کو عطا فرمائی جائیں گی جس نے گناہ کا ارادہ کیا پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے کے خوف سے گناہ کرنے سے رک گیا۔ (معارف القرآن)
سیدنا ابن عباسؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے اپنی وفات سے پہلے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے کسی عورت یا لونڈی پر گناہ کی قدرت پائی اور اس کو خدا کے خوف سے چھوڑدیا، تو اللہ تعالیٰ اس کو بڑی گھبراہٹ کے دن میں امن نصیب کریں گے، اور دوزخ اس پر حرام کریں گے اور جنت میں داخل فرمائیں گے (ذم الہوی)۔
سیدنا میمونؒ فرماتے ہیں کہ ذکر کی دو قسمیں ہیں: ایک، اللہ تعالیٰ کا ذکر زبان سے کرنا تو خوب ہے مگر دوم، اس سے افضل ذکر یہ ہے کہ انسان اس وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرکے گناہ سے رک جائے جب وہ گناہ میں مبتلا ہونے لگا ہو۔
سعید الظفر