Jasarat News:
2025-10-04@16:44:20 GMT

اشارے بازیاں، لاٹھی اور بھینس

اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہمارے ملک میں لوگوں کو جہاں اور بہت ساری شکایتیں ہیں اس میں سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں انصاف نہیں ملتا ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام قائم ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اپنے ارد گرد کی دنیا پر نظر ڈالیں تو وہ بھی ظلم سے بھری ہوئی نظر آئے گی۔

ویسے تو ہندوستان پاکستان کو رسوا کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ہے لیکن حالیہ جنگ کی ہمارے ہاتھوں اپنی رسوائی کے بعد ان کی یہ خواہش دو چند ہوگئی ہے۔ کھیل کھیل ہے اور سیاست سیاست لیکن ہندوستان جب بہت زیادہ کھسیانا ہو جاتا ہے تو کھیل میں بھی سیاست کو گھسیٹ لاتا ہے۔ ایشیا کپ میں اور کچھ نہ سوجھا تو ہندوستانی کپتان نے پاکستانی کپتان اور پھر ٹیم سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا۔ میچ ختم ہوتے ہی پوری ہندوستانی ٹیم نے خود کو ڈریسنگ روم میں قلعہ بند کر لیا۔ پاکستان نے جب ہاتھ نہ ملانے کے معاملے پر اسٹینڈ لیا تو میچ ریفری کو بادل ناخواستہ پاکستانی کپتان سے معافی مانگنی پڑ گئی جس کی وجہ سے ہندوستان کا حال وہی ہو گیا جو کھمبا نوچتی ہوئی بلی کا ہوتا ہے۔ ہندوستانی بورڈ کو اور کچھ نہ سوجھا تو بے چارے حارث رؤف کی بے وجہ آئی سی سی سے شکایت کر دی کہ یہ آدمی میدان میں تماشائیوں کو غلط سلط اشارے کر رہا تھا جس سے نقص امن کا خطرہ ہے۔

ایسے واقعات میدان میں ہوتے رہتے ہیں اور یہ معاملہ زیادہ تر کھلاڑیوں اور شائقین کے درمیان ہی رہتا ہے لیکن بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ ہندوستان کو تو ایسے مواقع خدا دے جھٹ آئی سی سی کو عرضی دے دی کہ اس کھلاڑی کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے کہ کرکٹ کی اسپرٹ کے خلاف حرکات و سکنات میں مبتلا پایا گیا ہے۔

ہندوستانی ایسے کام جان بوجھ کر کرتے ہیں اور اس معاملے میں ان کا سازشی ذہن ہر وقت ادھیڑ بن میں لگا رہتا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان کی براہ راست سامنے آنے کی کبھی بھی ہمت نہیں ہوتی ہے اور وہ یہ کام اقلیتوں کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ سیف علی خان نے ان کے اشاروں پر چلتے ہوئے فلم میں گھس کر مارنے کی کوشش کی تھی لیکن بری طرح منہ کی کھائی تھی۔ اس مرتبہ ان کی صاحب زادی سارہ علی خان کو را نے استعمال کیا۔ اس بیچاری نے نہ جانے شائقین کی گیلری سے باؤنڈری لائن پر کھڑے ہوئے حارث رؤف سے کیا باتیں کیں کہ حارث نے بھی ہاتھ سے اوپر سے نیچے آنے کا اشارہ کر دیا اور چھے صفر کا نشان بھی ہاتھ سے بنا دیا۔ سارہ علی خان ان کے اشارے سے خدا جانے کیا سمجھیں کہ بری طرح جھینپ گئیں اور ان کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔ حارث رؤف کی آئی سی سی کے سامنے پیشی ہوئی تو ان کے اور میچ ریفری کے درمیان جو مکالمہ ہوا وہ کچھ یوں تھا۔

ریفری: ’’ہاتھ کو اوپر سے نیچے لاکر آپ نے کیا اشارہ کیا تھا؟ آس سے آپ کی کیا مراد تھی؟‘‘

حارث: ’’مجھے اس کی بات سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اس لیے میں نے اس سے کہا کہ نیچے آ کر بات کرو‘‘۔

ریفری: ’’لیکن بی سی سی آئی نے اس پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟‘‘

حارث: ’’یہ تو آپ اُن سے پوچھیں کہ اس میں ناراضی کی کیا بات ہے؟‘‘

ریفری: ’’وہ نہیں بتا رہے ہیں۔ آپ بتا دیں‘‘۔

حارث: ’’پوری دنیا جانتی ہے کہ ہم انہیں اچھی طرح بتا چکے ہیں۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘‘۔

ریفری: ’’اچھا یہ بتائیں کہ آپ نے دونوں ہاتھ سے چھے صفر کا اشارہ کیوں کیا تھا۔ آپ کہنا کیا چاہتے تھے آخر؟‘‘

حارث: ’’میں نے تو ہندوستانیوں کو مخاطب کر کے چھکے کا اشارہ کیا تھا اور یہ دونوں ہاتھوں سے ہی ممکن ہے‘‘۔

ریفری: ’’ہندوستانیوں نے تو اس کا بہت برا منایا ہے‘‘۔

حارث: ’’کیا کریں؟ میری ساس اور ہندوستانی ہر وقت برا ہی مناتے رہتے ہیں حالانکہ سب ان ہی کا کیا دھرا ہوتا ہے۔ مجھے بتایا جائے کہ انہوں نے اس کا کیوں برا منایا ہے؟‘‘

ریفری: ’’یہ تو معلوم نہیں ہے‘‘۔

حارث: ’’جب انہیں معلوم نہیں ہے تو پھر برا کیوں منایا؟ بعض اوقات انسان کو درد تو شدید ہو رہا ہوتا ہے لیکن انسان چاہتے ہوئے بھی یہ نہیں بتا پاتا ہے کہ کہاں درد ہو رہا ہے؟‘‘

اگرچہ زیب داستان کے لیے کچھ اضافی بھی لکھ دیا گیا ہے لیکن کم و بیش اسی قسم کا مکالمہ حارث اور ریفری کے درمیان ہوا۔

حارث رؤف کے ساتھ ساتھ صاحبزادہ فرحان کی بھی پیشی ہوئی تھی۔ انہوں نے کلاشنکوف چلانے کے انداز میں بیٹ کو استعمال کرکے میدان میں اپنی نصف سنچری کا جشن منایا تھا۔ ان سے وضاحت طلب کی گئی تو انہوں نے بہت سیدھا سادھا جواب دیا کہ: ’’دبئی ہے اس لیے اس طرح جشن منایا۔ اپنا ملک ہوتا تو اصلی کلاشنکوف سے جشن مناتا کہ ہمارے ملک میں روایت تو یہی ہے‘‘۔

ان دونوں کا معاملہ تو ایسا تھا کہ نظر انداز کرنا ہی زیادہ بہتر تھا۔ سنجیدہ معاملہ تو ہندوستانی کپتان کی پریس کانفرنس کا تھا جس میں کھل کر انہوں نے پہل گام واقعے پر نہ صرف تبصرہ کیا تھا بلکہ اپنی جیت کو اپنے ملک کی فوج کے نام بھی کردیا تھا۔ کھیل میں سیاست کو براہ راست گھسیٹنا لیول فور کی خلاف ورزی تھی اور اس پر ہندوستانی کپتان پابندیوں کے حق دار تھے۔

اس سے پہلے عثمان خواجہ پر فلسطین کی حمایت میں بازو پر کالی پٹی باندھ کر کھیلنے پر آئی سی سی لیول ون کی پینالٹی لگا چکا ہے۔ معین علی کو بھی فلسطین میں جاری ظلم پر آرم بینڈ لگانے پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن ہندوستانی ٹیم کے کپتان پر ریفری نے ہلکا ہاتھ رکھا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ آئی سی سی کو ہندوستان نے دولت کی ریل پیل کی بناء پر گھر کی لونڈی بنا کر رکھا ہوا ہے۔ ہندوستانی کپتان پر بھی وہی جرمانہ عائد کیا گیا جو حارث رؤف پر کیا گیا تھا جو کہ سراسر دہرے معیار کی عکاس ہے۔ اس پر خواجہ آصف نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا کہ تیس فی صد جرمانہ حارث رؤف پر اور تیس فی صد سوریا کمار پر تو کل جرمانہ ہوگیا ساٹھ فی صد۔ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ آئی سی سی نے بھی تو چھے صفر کا نشان بنا دیا ہے۔ تو کیا اب آئی سی سی پر بھی جرمانہ عائد کیا جائے گا؟

یہ ہے انصاف کا وہ کھوکھلا معیار جس کا دنیا اس وقت بری طرح سے شکار ہے۔ اسرائیل کے بڑے بڑے جرم پر اگر اقوام متحدہ کوئی قدم اٹھانا چاہتا ہے تو امریکا اسے بڑی بے شرمی کے ساتھ ویٹو کر دیتا ہے اور اسرائیل بھی پوری ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنی چیرہ دستیاں جاری رکھتا ہے۔ اس مرتبہ تو پاکستان نے ہندوستان کی بلاجواز جارحیت پر بہت اچھے طریقے سے انہیں سبق سکھا دیا ہے جس کا زخم وہ برسوں چاٹتے رہیں گے لیکن حقیقت یہی ہے کہ دنیا جس کی لاٹھی اس کی بھینس پر چل رہی ہے تاوقتیکہ اوپر والے کی بے آواز لاٹھی نہ چل جائے۔

 

اقبال ہاشمی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہندوستانی کپتان تو ہندوستان انہوں نے یہ ہے کہ ہے لیکن ہاتھ سے کیا تھا ان کے ا ہے اور

پڑھیں:

حکومت سے ماضی میں جیسے علیحدہ ہوئے وہ ہمیں یاد ہے بھولے نہیں‘کائرہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251002-08-31
لاہور (نمائندہ جسارت) پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ ہم ماضی میں حکومت سے جیسے علیحدہ ہوئے وہ ہمیں یاد ہے بھولے نہیں، ملکی حالات کے پیش نظر ہم خرابی نہیں چاہتے تھے۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے نیک نیتی سے حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی تمام شقوں پر عمل درآمد نہیں ہوا،ہم نے وزارتیں لیے بغیر حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا لیکن اس کا مطلب کوئی بلینک چیک دینا نہیں تھا کہ حکومت جو چاہے کرتی رہے۔قمر زمان کائرہ نے کہا کہ کچھ دنوں سے پیپلز پارٹی اور پنجاب حکومت کے درمیان مکالمہ شروع ہوا، ن لیگ کے دوستوں سے درخواست ہے کہ اس طرح کا لہجہ اور لفظ استعمال نہ کریں جس سے مسائل پیدا ہوں، بلاول بہت تحمل سے چیزوں کو لے کر آگے چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بار خوفناک سیلاب آیا اور بہت نقصان ہوا ہے، پنجاب اور سندھ حکومت نے اچھا کام کیا، ہم نے تعریف کی لیکن جہاں خامی ہوگی اس پر بھی رائے دیں گے۔ ہماری رائے پر وزیر اعلیٰ کہتی ہیں کہ میں انگلی توڑ دوں گی اور بات نہیں کرنے دوں گی۔

نمائندہ جسارت سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • حارث رؤف کا ماضی کیسا رہا؟ فاسٹ بولر کے استاد اور قریبی دوستوں نے اہم رازوں سے پردہ اٹھا دیا
  • یہ کووڈ نہیں، پریشان نہ ہوں بس علامات کا فرق جانیں
  • بھارت چہیتے میچ ریفری پائی کرافٹ کو سر آنکھوں پر بٹھانے لگا
  • کراچی میں پارکنگ تنازع؛ حکومت کریں لیکن کام تو کسی قانون کے تحت کریں، سندھ ہائیکورٹ
  • ویمنز ورلڈکپ: بی سی سی آئی نے پاک بھارت کھلاڑیوں کے مصافحے سے راہِ فرار اختیار کرلی
  • ویمنز ورلڈکپ: پاکستانی ٹیم سے ہاتھ ملانے سے متعلق بی سی سی آئی کا موقف سامنے آگیا
  • حکومت سے ماضی میں جیسے علیحدہ ہوئے وہ ہمیں یاد ہے بھولے نہیں‘کائرہ
  • زبان بند، ہاتھ توڑ دوں گی والا لہجہ مناسب نہیں، قمر زمان کائرہ، مریم نواز پر برس پڑے
  • زبان بند، ہاتھ توڑدوں گی والا لہجہ مناسب نہیں: قمرزمان کائرہ وزیراعلیٰ پر برس پڑے