کسی کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، عدالت میں کوئی تقسیم نہیں: جسٹس محسن اختر
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹس کے ججوں سے منسوب بیان پر ایمان مزاری ایڈووکیٹ کے خلاف توہین عدالت کاروائی کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ یہ کسی کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، اس عدالت میں کوئی تقسیم نہیں ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ٹرائل کورٹس کے ججوں سے منسوب بیان پر ایمان مزاری ایڈووکیٹ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست پر سماعت کی، اس دوران درخواست گزار حافظ احتشام ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ پہلے دیکھیں گے درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں، ججوں کو بتانا چاہیے کہ ان کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے، کوئی اور آکر بتائے گا کہ ججوں کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے تو تاثر کچھ اور جائے گا۔ درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ فریق نے ججوں کے حوالے سے ایک تاثر دیا ہے کہ ججوں میں تقسیم ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کون سے ججوں کی بات کر رہے ہیں؟ درخواست گزار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سر ! ان 5 ججوں میں آپ بھی شامل ہیں، جس کے بعد جسٹس محسن اختر کیانی درخواست گزار احتشام احمد پر برہم ہو گئے اور ریمارکس دیے کہ یہیں پر رک جائیں، آگے ایک لفظ بھی نہ بولیے گا۔ فاضل جج نے کہا کہ یہ کسی کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، اس عدالت میں کوئی تقسیم نہیں ہے، صرف اپنے کیس کی حد تک رہیں، ہم اس عدالت میں تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ عدالت نے درخواست گزار کے دلائل سننے کے بعد درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جسٹس محسن اختر کیانی نے درخواست گزار تقسیم نہیں عدالت میں
پڑھیں:
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کر دیا
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ۔
جمعرات کو جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کا 25 ستمبر کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے کیس میں فریق بننے کی درخواست خارج کی، متاثرہ فریق کو سنے بغیر یکطرفہ فیصلہ خلاف قانون ہے۔ سندھ ہائیکورٹ نے درخواست قابل سماعت ہونے کا معاملہ بھی نظرانداز کیا۔
درخواست میں سندھ ایجوکیشن کمیشن، کراچی یونیورسٹی، پیمرا سمیت 10 ادارواں کو فریق بنایا گیا ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ میں درخواست گزار کو فریق نہیں بنایا گیا۔ سندھ ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے سے پہلے درخواست گزار کو فریق بننے اور وکیل کرنے کی مہلت نہیں دی گئی۔ درخواست گزار کی ڈگری کا معاملہ آئینی بینچ میں مقرر نہیں ہو سکتا تھا۔
عدالت سے استدعا میں مزید کہا گیاہ ے کہ درخواست گزار موجودہ جج ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بار کے عہدوں پر بھی فائز رہا ہے۔ درخواستگزار کی ڈگری منسوخی بدنیتی اور غیر قانونی عمل پر مبنی ہے۔