آزاد کشمیر کی 12 نشستوں کا معاملہ آئینی ، جذبات نہیں سمجھداری سے بات ہونی چاہیے، اعظم نذیر تارڑ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر کی 12 نشستوں سے متعلق معاملہ محض سیاسی نہیں، بلکہ آئینی پیچیدگیوں کا حامل ہے، جس پر جذباتیت سے نہیں بلکہ بالغ نظری اور سنجیدگی سے بات ہونی چاہیے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ “جب آئین اور قانون کی بات ہو، تو سیاست دانوں کو ذمہ داری کے ساتھ گفتگو کرنی چاہیے۔ اس مسئلے کا حل بھی اسی سنجیدگی سے تلاش کیا جانا چاہیے۔”
یہ ووٹرز کشمیری شناخت رکھتے ہیں
اعظم نذیر تارڑ نے ان نشستوں پر ووٹ دینے والے افراد کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ کشمیری ہیں جو بھارتی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ “یہ لوگ پاکستان میں مہمان کے طور پر آباد کیے گئے، لیکن ان کا رشتہ کشمیر سے ختم نہیں ہو جاتا۔”
حل کے لیے آئینی ترمیم اور قومی اتفاق رائے ضروری
وزیر قانون نے اس بات پر زور دیا کہ اگر ان نشستوں سے متعلق کوئی تبدیلی کرنی ہے تو اس کے لیے محض نعرے یا تحریکیں کافی نہیں، بلکہ بڑے پیمانے پر آئینی ترمیم درکار ہوگی، جس کے لیے سیاسی ہم آہنگی اور قومی سطح پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا لازمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جو فوری یا یکطرفہ فیصلے سے حل ہو سکے۔ اس پر وسیع تر مشاورت، آئینی پیکیج اور سیاسی اتفاق ضروری ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ججز کے استعفوں پر جشن نہیں بلکہ نظام مضبوط کرنا ضروری ہے، سعد رفیق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے 27ویں آئینی ترمیم کے بعد یکے بعد دیگرے ججز کے مستعفی ہونے پر گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری اپنے مفصل بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ استعفے پاکستان میں آئین، قانون، انصاف اور جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک بڑا لمحۂ فکریہ ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس منصور علی شاہ کے سپریم کورٹ سے استعفیٰ دینے کے بعد اب لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا بھی اس سلسلے میں شامل ہو گئے ہیں، اور یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے تینوں ججز کی دیانتداری، انصاف پسندی اور پیشہ ورانہ کارکردگی کی کھل کر تعریف کرتے ہوئے کہا کہ
جسٹس اطہر من اللّٰہ ججز بحالی تحریک کے دوران فرنٹ لائن کے رفیق تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ کی قابلیت، جرات اور پیشہ ورانہ آزادی سب پر واضح ہے۔
جسٹس شمس محمود مرزا کا شمار بھی بہترین شہرت رکھنے والے ججز میں ہوتا ہے۔
انہوں نے جسٹس شمس محمود مرزا پر رشتہ داری کے الزام کو بے بنیاد اور “طفلانہ حرکت” قرار دیا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا تھا کہ ان ججز کے فیصلوں سے اختلاف اپنی جگہ، مگر ان کی شرافت، اہلیت اور نیک نیتی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کے استعفے عدلیہ کے لیے نقصان دہ ہیں اور ادارہ جاتی توازن کو کمزور کرتے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ استعفوں کو سیاسی دھڑے بندی کی نظر سے دیکھیں تو شاید کچھ لوگوں کو یہ اچھا لگے، لیکن حقیقت میں یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ان کے مطابق یہ سلسلہ رکنے والا نہیں اور “یہ عدلیہ سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ تک جائے گا”۔
انہوں نے زور دیا کہ ہر مخالف کو پکڑ لینا یا ملک دشمن قرار دینا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک ذمہ دار ریاست ماحول کو ٹھنڈا رکھتی ہے، تنازعات بڑھاتی نہیں۔ پاکستان جیسے حساس اور نیوکلیئر ملک کے لیے اندرونی محاذ آرائی انتہائی نقصان دہ ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ خوشی کے ڈھول پیٹنے کے بجائے پیدا ہوتی فالٹ لائنز کو پُر کرنے کی کوشش کرنا ہی دانشمندی ہے۔