آرچ بشپ آف اینگلیکن چرچ امریکا ڈاکٹر فولی بیچ کی لاہور آمد، پاکستانیوں کی رواداری کی تعریف
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
امریکا میں اینگلیکن چرچ کے آرچ بشپ ڈاکٹر فولی بیچ نے صدر چرچ آف پاکستان بشپ آزاد مارشل کے ہمراہ گرینڈ جامع مسجد بحریہ ٹاؤن لاہور کا دورہ کیا جہاں ان کا پرتپاک استقبال چیئرمین پاکستان علماء کونسل و کوارڈینیٹر قومی پیغامِ امن کمیٹی حکومتِ پاکستان حافظ محمد طاہر محمود اشرفی اور دیگر علمائے کرام و مشائخ نے کیا۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم سربراہان کے اصرار پر غزہ مسئلے کا حل نکلا، پورے معاملے میں سعودی عرب اور پاکستان کا کردار کلیدی تھا، حافظ طاہر اشرفی
اس موقعے پر ہونے والی بین المذاہب ملاقات کے بعد جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’تمام آسمانی مذاہب امن، محبت اور رواداری کا درس دیتے ہیں۔ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات بھی انسانیت، امن اور باہمی احترام پر مبنی ہیں۔ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو دنیا میں امن کے قیام کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا‘۔
قائدین نے اس بات پر زور دیا کہ دہشتگردی اور انتہا پسندی کا کوئی مذہب سے تعلق نہیں۔ ایسے عناصر صرف دہشت گرد اور انتہا پسند ہیں اور کسی مذہب کی نمائندگی نہیں کرتے۔
اعلامیے میں فلسطین میں جاری صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا گیا اور عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ امن کے قیام کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔
پاکستان خوبصورت لوگوں کا خوبصورت ملک ہے، آرچ بشپ ڈاکٹر فولی بیچآرچ بشپ ڈاکٹر فولی بیچ نے مسجد کے دورے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک خوبصورت اور محبت کرنے والے لوگوں کا ملک ہے اور مجھے خوشی ہے کہ یہاں ‘پیغام امن کمیٹی’ جیسے اقدامات کے ذریعے مکالمے، رواداری اور باہمی احترام کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیے: افغانستان نے دہشتگردوں کو نہ روکا تو کل خود بھی اسی آگ میں جلنا ہوگا، علامہ طاہر اشرفی
انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ان کوششوں سے معاشرے میں مزید مثبت تبدیلی آئے گی۔
ہم دنیا بھر کے مظلوموں کے ساتھ ہیں، حافظ طاہر اشرفیاس موقعے پر حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ ہم دنیا کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم فلسطین، کشمیر اور دنیا بھر کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں اور عالمی امن کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مختلف مذاہب و مسالک کے لوگ بستے ہیں اور ‘پیغامِ پاکستان’ دراصل ہماری اجتماعی سوچ اور وحدت کا عکاس ہے۔
تمام مذاہب کے مقدسات محترم ہیں، بشپ آزاد مارشلصدر چرچ آف پاکستان بشپ آزاد مارشل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تمام مذاہب کے مقدسات قابل احترام ہیں اور دہشتگردی و انتہا پسندی کو کسی مذہب سے نہیں جوڑا جا سکتا۔
مزید پڑھیں: مذہبی اور مسلکی رواداری کے فروغ کے لیے علما کی جانب سے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے، علامہ طاہر اشرفی
انہوں نے کہا کہ ہم حکومت پاکستان کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اس بار ‘پیغامِ امن کمیٹی’ میں غیر مسلم نمائندوں کو بھی شامل کیا جو ایک مثبت اور تاریخی قدم ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرچ بشپ ڈاکٹر فولی بیچ حافظ طاہر اشرفی صدر چرچ آف پاکستان بشپ آزاد مارشل لاہور.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: حافظ طاہر اشرفی صدر چرچ آف پاکستان بشپ آزاد مارشل لاہور حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ ہیں اور کے لیے
پڑھیں:
فوجی آمریت کا آئینی تحفظ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251117-03-7
(1)
جاوید انور
پاکستان کے آئین میں جو 27 ویں ترمیم ہوئی ہے، اسے تاریخی، فوجی، عالمی اور علاقائی جیو پالیٹکس کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ ڈونلڈ ٹرمپ امن کے راستے کی باتیں تو کرتے ہیں، مگر دراصل وہ جنگ کی راہ پر مسلسل گامزن ہیں۔ انہوں نے اپنے محکمہ دفاع کا نام بدل کر محکمہ جنگ قرار دے دیا، تاکہ کسی کو ان کے مقاصد پر شک کی خلش ہی نہ ہو۔ اسرائیل کو فلسطین میں نسل کشی کی کھلی چھوٹ مل جائے گی، اور اسے مسلسل ہتھیاروں کی فراہمی جاری رہے گی۔ یوکرین میں لڑائی کا شعلہ بھڑکتا رہے گا، اور تیسرا محاذ انڈیا، پاکستان اور افغانستان کا کھلا ہے۔ مگر اصل میں یہ صرف افغانستان کا محاذ ہے۔ انڈیا اور پاکستان کی فضائی سرکس تو محض عوامی تفریح ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام کی خوشی کے لیے۔ دونوں طرف کے حکمرانوں کی یہ ’’خوش قسمتی‘‘ ہے کہ ان کے عوام فوجی اور ریاستی جنگی بیانیوں پر اندھا بھروسا کرتے ہیں، سو فی صد یقین کے ساتھ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں کوئی بھی جنگ ایسی نہیں ہوئی جس میں امریکا براہ راست یا بالواسطہ ملوث نہ ہو۔ جب بھی امریکا کو پاکستان کی مدد کی ضرورت پڑی، پاکستان نے آگے بڑھ کر اس کی خدمت کی۔ یہ خدمت گزاری 1947 سے شروع نہیں ہوئی، یہ تو انیسویں صدی سے چلی آ رہی ہے، جب پاکستانی فوج برطانوی سامراج کی وفادار سپاہی تھی۔ امریکا کو ہر نازک موقع پر پاکستان کی فوجی قیادت کی ضرورت پڑی ہے۔ ایسے مواقع پر سویلین حکومتیں اسے پسند نہیں آتیں، اور انہیں گھر کی راہ دکھا دی جاتی ہے۔
سوویت یونین کی افغانستان آمد فوجی جارحیت کی صورت میں ہوئی، مگر امریکا کو پہلے سے خبر تھی کہ یہ طوفان آنے والا ہے۔ روس کے مقابلے میں امریکی مدد سے پاکستان کو جہاد کے لیے تیار کرنا تھا۔ ایک نمازی، مذہبی جنرل محمد ضیا الحق کو آرمی چیف کا عہدہ دلایا گیا۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی سویلین حکومت تھی، جو امریکا کو بالکل ناپسند تھی۔ ان کے خلاف عوامی تحریک کا طوفان برپا ہوا۔ میرے مرحوم چچا فرماتے تھے کہ جب یہاں امریکا کسی سے ناراض ہوتا ہے اور اسے ہٹانا چاہتا ہے، تو بچوں سے لے کر بڑوں تک سب چھے فٹ اچھلنے لگتے ہیں۔
جنرل ضیا الحق نے سویلین حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ انہیں یہ خدشہ تھا کہ بھٹو زندہ رہے تو بدلے کی آگ میں جل جائیں گے۔ وہ سوچنے لگے کہ ایک قبر تیار ہے۔ اس میں سے بھٹو یا ضیا الحق، کسی ایک کو تو لیٹنا ہی پڑے گا۔ بھٹو کو پھانسی دے کر وہ قبر بھر دی گئی۔ اب بے خوف جنرل ضیا الحق کی قیادت میں پاکستانی انٹیلی جنس اور افغان مجاہدین کے تعاون سے امریکا نے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی۔ کامیابی کے بعد افغانستان میں امریکا کو جس طرح کی حکومت چاہیے تھی، افغان مجاہد تنظیمیں تیار نہ ہوئیں۔ البتہ جنرل ضیا الحق مجاہد تنظیموں کے محبوب قائد بن چکے تھے۔اسی لیے وہ امریکا کے غیر محبوب بن گئے۔
1989میں جنرل ضیا الحق کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا، اور ان کے ساتھ ان کی بڑی ٹیم بھی شہید ہو گئی۔ جنرل اسلم بیگ نئے آرمی چیف بنے۔ انہوں نے فوری الیکشن کروائے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو نئی منتخب وزیراعظم بنیں۔ صدر غلام اسحاق خان کو منتخب حکومت برخواست کرنے کا اختیار تھا۔ انہوں نے بے نظیر کی مدت پوری نہ ہونے دی، پھر نواز شریف کی حکومت بنی، اسے بھی ختم کر دیا گیا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔ بے نظیر اور نواز دونوں سویلین حکمران ’’ان فٹ‘‘ تھے، کیونکہ افغانستان میں امریکا کی پسندیدہ رجیم بنانے میں وہ بے بس تھے۔
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ان کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر جو فوج میں خدمات دے چکے تھے، نے پاکستان کے مدارس میں پڑھنے والے افغان طلبہ کو تیار کیا۔ انہیں حکم دیا گیا کہ خانہ جنگی زدہ افغانستان جا کر حکومت سنبھال لو۔ انہیں اسلحہ، تربیت دی گئی، اور مسلح ہو کر افغانستان میں داخل کر دیا گیا۔ خانہ جنگی کے وار لارڈز ان کا مقابلہ نہ کر سکے، اور معمولی جھڑپوں کے بعد انہوں نے کابل کی حکومت قبضے میں لے لی۔
سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے افغان مجاہدین کے برعکس، طالبان کا امریکی انتخاب غالباً اس لیے تھا کہ مجاہدین گلوبل اسلام کے پرچم بردار تھے، جبکہ طالبان مقامی، محدود اسلام کے۔ امریکا کا خیال تھا کہ ان کا اسلام ڈاڑھی، ٹوپی، پاجامہ، تسبیح اور اذکار تک محصور رہے گا اور وہ عالمی تجارت، فوج اور سامراجی مفادات کا آلہ کار بن جائیں گے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ طالبان کو گلوبل اسلام اور جیو پالیٹکس کی گہرائیاں جلد سمجھ میں آ گئیں۔ وہ امریکی مفادات کے سامنے نہ جھکے، بلکہ سود سے پاک معیشت قائم کی اور شریعت نافذ کر دی۔ سود، ڈالر اور سرمایہ دارانہ مغربی نظام کا سرغنہ امریکا اس پر آگ بگولہ ہو گیا، اور سزا دینے کی تیاری شروع کر دی۔
جنرل پرویز مشرف جن کے امریکا اور اسرائیل دونوں سے گہرے رابطے تھے، کو نچلے رینک سے تیزی سے اوپر چڑھایا گیا۔ جب وہ آرمی چیف بنے، تو انہیں قومی ہیرو بنانے کے لیے کشمیر میں کارگل کی چڑھائی کا حکم دیا گیا۔ امریکا پاکستان کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں برسوں سے الجھائے رکھا تھا۔ مقصد بھارت کو سوویت؍ روس کیمپ سے نکال کر امریکی کیمپ میں لانا، اور امریکی کمپنیوں کے لیے بھارتی دروازے کھولنا۔ اندازہ یہی ہے کہ یہ مقاصد جنرل مشرف کے کارگل ایڈونچر کے بعد پورے ہو گئے۔ 2019 میں جب پاکستان کا سیاسی و فوجی وفد امریکا گیا، تو اس کے بعد بھارت نے دستور ہند کی دفعہ 370 ہٹا دی، جو کشمیر کی خصوصی حیثیت تھی۔ کشمیر کی جہادی تنظیمیں سب غیر قانونی قرار پائیں اور ان کے قائدین جیلوں میں مجاہد کمانڈرز سے قیدی بن گئے۔
پاکستان کی مقتدرہ عوام کو جو بھی بتاتی رہے، حقیقت یہ ہے کہ کنٹرول لائن ہی اب بارڈر لائن بن چکی ہے۔ پاکستان سے کہہ دیا گیا: ’’مشرقی سرحد پر تمہاری ضرورت ختم، اب مغربی بارڈر پر افغانستان فوکس کرو اور ہماری خدمت جاری رکھو‘‘۔ مقصد اب صرف امریکی اتحادی فوج کے ساتھ مل کر افغانستان میں طالبان کا خاتمہ تھا اور پاکستان کے شمال مغرب میں طالبان کے حامی پٹھانوں کی نسل کشی۔ عمران خان اس نسل کشی میں امریکا کی مطلوب حد تک نہ جانا چاہتے تھے، اس لیے ان کی ’’چھٹی‘‘ کر دی گئی۔ اور اب میاں شہباز شریف امریکا کو سیلوٹ مارنے میں نہیں تھکتے۔
جنرل پرویز مشرف ایک لبرل تھے، اسرائیل اور امریکا کے دیرینہ دوست، کمال اتا ترک کے پرستار۔ وہ فطری طور پر اسلامی طالبان کے مخالف تھے۔ امریکا نے جب افغانستان سے طالبان (اور عراق سے صدام حسین) کو صاف کرنے کا ارادہ کیا، تو پاکستان میں دو تہائی اکثریت والی سویلین حکومت ِ مسلم لیگ (ن) کو ہٹایا گیا۔ کارگل کے ’’فاتح‘‘ مشرف کو قومی ہیرو بنا دیا گیا تھا پروپیگنڈے کی طاقت نے ایک زیرو کو ہیرو، دشمن کو دوست بنا دیا۔ فوجی کو سے جنرل مشرف پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ امریکا میں 11 ستمبر کا سانحہ کروا کر افغانستان اور عراق پر حملے کا منصوبہ بنایا گیا۔ افغانستان پر پہلے بمباری ہوئی۔ مشرف نے افغانستان کے پاکستان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو امریکا کے حوالہ کر کے سفارتی تاریخ کا بدترین باب لکھ دیا۔ ہزاروں پاکستانیوں اور پٹھانوں کو گرفتار کر کے امریکا کو سونپ دیا، جن سے گوانتانامو بے کے تشدد خانے سجے، اور ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا عالمی ڈھول پیٹا گیا۔
جنرل مشرف نے بلوچستان اور وزیرستان میں پاکستانی مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اسلام آباد کی لال مسجد اور مدرسہ حفصہ پر بمباری کر کے سیکڑوں طالبات اور اساتذہ کو شہید کر دیا جن میں سے اکثر وزیرستان اور شمال مغرب سے تھیں۔ مشرف امریکا کے ’’دین ِ اسلام‘‘ (مذہبِ اسلام نہیں، دین تو زندگی کا نظام ہے، مذہب مسجد تک محدود) کے خلاف اس جنگ کے لیے بہترین جنرل تھے جسے دہشت گردی کا لیبل لگا دیا گیا۔ اسرائیل اور امریکا کے ہر دل عزیز چہیتے۔ مشرف اور ان کے بعد کے تمام جنرلز اسی ’’وار آن ٹیرر‘‘ میں لڑتے رہے۔ اب اسی مشن کے لیے ایک ’’حافظ‘‘ کو منتخب کیا گیا ہے، اور ستائیسویں ترمیم سے اسے ناقابل ِ تسخیر طاقت دے دی گئی ہے۔ یہ سب کچھ افغانستان پر حملے کی تیاری کا حصہ ہے۔