شمع جونیجو: وزارت خارجہ کٹہرے میں؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف کے حالیہ دورہ امریکا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران وفد کے ساتھ اسرائیل کی حمایتی خاتون شمع جونیجو کی شمولیت نے پاکستان کی سیاست میں ایک نیا تہلکہ مچا دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر پر سیاسی حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ یہ سب کس کے اشارے پر ہوا ہے؟ ایک ایسے نازک موقع پر جب فلسطین کے حق میں دنیا بھر میں آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں پاکستانی وفد میں اسرائیل کی حمایتی خاتون کا وزیر داخلہ کے انتہائی قریب موجود ہونا ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ اس واقعہ نے پاکستان کی حکومت بالخصوص وزارت خارجہ کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ پاکستان کے عوام یہ بات بھی جاننا چاہتے ہیں کہ یہ واقعہ محض انتظامی غلطی تھی یا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے نئے رخ کا عندیہ؟ متنازع شہرت کی حامل شمع جونیجو جو کہ اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے لیے بے چین رہتی تھی۔ 19 اگست 2022 کو شمع جونیجو کا ٹویٹ موجود ہے جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ اگر وہ اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہوگئی تو ان کے ساتھ اپنی تصویر میں اپنی ڈی پی میں لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں کروں گی اور یہ میرے لیے ایک اعزاز ہوگا۔ شمع جونیجو جو اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کا اعزاز تو نہیں مل سکا لیکن پاکستانی وفد میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا اعزاز انہیں ضرور مل گیا ہے۔ لوگوں نے جب شمع جونیجو کے ٹویٹر اکاؤنٹ کی تحقیق کی تو علم ہوا کہ اس کے اسرائیل سے اتنے گہرے تعلقات ہیں کہ اسرائیلی وزارت خارجہ کا آفیشل ہیڈل جو بڑے بڑے امریکی سینیٹرکو بھی لفٹ نہیں کراتا وہ شمع جونیجو کی صحت یابی پر اسے مبارک باد دے رہا ہے۔
شمع جونیجو نہ صرف اسرائیل کی لابنگ کرتی رہی ہیں بلکہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد بھی وہ اسرائیل کی حمایت کررہی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کیسے پہنچیں؟ وزیر دفاع کے بالکل پیچھے نشست کا اہتمام کس نے کیا تھا؟ شمع جونیجو اگر صحافی کی حیثیت اور کالم کی اشاعت کے لیے اجلاس میں شریک ہوئی تھیں تو انہیں مخصوص پریس گیلری میں نشست فراہم کرنا چاہیے تھی۔ شمع جونیجو جو انتہائی طاقتور خاتون سمجھی جاتی ہیں وہ وزیر اعظم کے خصوصی طیارے میں سفر کرتی ہیں۔ وزیر اعظم سیکرٹریٹ تک ان کی رسائی ہے اور طاقت ور حکمرانوں کے قریب سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن خواجہ آصف نے صحافیوں کے سوال پر یکدم انہیں پہچاننے سے ہی انکار کردیا۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کا نام اگر شمع جونیجو کے ساتھ جڑ جائے گا تو وہ ساری زندگی اس داغ کو دھو نہیں سکیں گے۔ خواجہ آصف کی جانب سے شمع جونیجو کے بارے میں ہونے والی گھبراہٹ نے کی شمع جونیجو اسکینڈل کا پردہ فاش کیا ہے۔ شمع جونیجو کے بقول وہ پچھلے کئی مہینوں سے پاکستان کے وزیراعظم کے لیے کام کررہی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے خود انہیں بطور ایڈوائزر اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کا حصہ بنایا تھا اور انہیں اپنی تقریر لکھنے کا ٹاسک دیا تھا۔ تاہم سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں شمع جونیجو کی شرکت سے ایک سفارتی تنازع پیدا ہوگیا ہے اور شمع جونیجو شہباز شریف حکومت کے لیے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ وزارت خارجہ نے بھی صاف انکار کردیا ہے کہ شمع جونیجو کی شرکت سرکاری سطح پر ہوئی ہے۔ 24 ستمبر کو اقوام متحدہ کے 80 ویں سلامتی کونسل کے اجلاس میں مصنوعی ذہانت اور عالمی سلامتی کے خطرات کے موضوع پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کو تقریر کرنا تھا لیکن وہ اپنی دیگر اہم مصروفیات کے باعث اس سیشن میں شریک نہ ہوسکے اور ان کی جگہ یہ تقریر پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی۔ ان کی بالکل پچھلی نشست پر شمع جونیجو کی موجودگی نے سوشل میڈیا پر ایک بھونچال پیدا کردیا ہے کیونکہ شمع جونیجو نہ پاکستان مشن کی رکن تھیں اور نہ کوئی منتخب عہدیدار ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی صحافیوں کے سوال کرنے پر شمع جونیجو سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ کون خاتون ہے اور ہمارے وفد میں کیوں ہیں۔ جبکہ خارجہ امور کے ذمے داران کا کہنا ہے کہ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی منظورکردہ آفیشل لیٹر کی فہرست میں شمع جونیجو کا نام شامل نہیں تھا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو بھی وفد پاکستان سے جاتا ہے تو اس کی سمری دفتر خارجہ تیار کرتی ہے اور بعد میں وزیراعظم کی منظوری کے بعد وزارت خارجہ یہ نام اقوام متحدہ کو بھیجتی ہے اس کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے ان افراد کے نام سے پاس کیے جاتے ہیں۔ لیکن شمع جونیجو کا نام جب امور خارجہ کی جانب سے دی گئی فہرست میں ہی نہیں تھا تو اس خاتون کی شرکت کیسے ہوگئی ہے۔
بلاشبہ اسرائیل اور اس کے ایجنٹوں نے دنیا بھر کے اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں اس کی تازہ مثال شمع جونیجو کی ہے جس کے صدر آصف زرداری، وزیراعظم میاں شہباز شریف، میاں محمد نواز شریف، اسحاق ڈار، خواجہ آصف ودیگر اہم وزراء کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے اور اسرائیل کے ایجنٹوں سے ہوشیار اور دور رہنا چاہیے۔ اسرائیل کے ایجنٹوں کی موجودگی میں اب ہماری سلامتی غیر محفوظ ہوگئی ہے اور عوام میں اضطراب اور بے چینی پھیلتی جا رہی ہے۔ حکمراں جتنا جلد ہوسکے شمع جونیجو جیسی عورتوں سے دور رہے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوگا ورنہ عوام کا اضطراب اور غصہ انہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا اور تاریخ میں وہ نشان عبرت بن جائیں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی شمع جونیجو کے شمع جونیجو کی کے اجلاس میں جنرل اسمبلی اسرائیل کی شہباز شریف پاکستان کے خواجہ ا صف کے ساتھ کے لیے ہیں کہ ہے اور
پڑھیں:
جی7 ممالک کی جانب سے ایران پر پابندیوں کی بحالی کا مطالبہ، ایرانی وزارتِ خارجہ کا شدید ردعمل
ایران نے جی7 کے بیان کو گمراہ کن اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے مترادف قرار دے دیا۔
ترجمان ایرانی وزارتِ خارجہ اسمائیل بقائی نے کہا کہ جی7 ممالک کی جانب سے 3 یورپی ممالک اور امریکا کے اُس غیر قانونی اور بلاجواز اقدام کا خیرمقدم، جس کے تحت سلامتی کونسل کی منسوخ شدہ قراردادوں کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی گئی، بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جی7 کا یہ موقف کسی طور بھی اس اقدام کی غیر قانونی اور بلاجواز نوعیت کو تبدیل نہیں کرسکتا۔
یہ بھی پڑھیے: جی7 اجلاس میں صدر ٹرمپ کا غیر متوقع قدم، جنگ بندی کی کوشش یا نئی کشیدگی؟
یہ ردعمل جی7 ممالک کے اس بیان کے جواب میں سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے ایران پراقوام متحدہ کی ماضی کی پابندیوں کو دوبارہ لاگو کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ترجمان نے یاد دلایا کہ مذاکرات کے دوران اسرائیلی حکومت نے امریکا کی ہم آہنگی اور شراکت سے ایران پر فوجی جارحیت کی اور بعد ازاں امریکا نے براہِ راست ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا۔ اس پس منظر میں جی7 کا یہ دعویٰ کہ یورپی ممالک اور امریکا نے بارہا نیک نیتی سے سفارتی حل تجویز کیے، سراسر غلط ہے۔
اسمائیل بقائی نے زور دے کر کہا کہ دراصل امریکا ہی موجودہ بحران کا ذمہ دار ہے کیونکہ اُس نے 2018 میں یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے سے غیر قانونی انخلا کیا اور مسلسل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے معاہدے پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ ڈالی۔
یہ بھی پڑھیے: ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر اقوام متحدہ کی پابندیاں بحال ہوگئیں
انہوں نے کہا کہ 3 یورپی ممالک نے واشنگٹن کی پیروی کرتے ہوئے نہ صرف اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں بلکہ امریکا اور اسرائیل کی ایران کی پُرامن جوہری تنصیبات پر جارحیت میں حمایت بھی کی۔
ایرانی ترجمان نے جی7 ممالک کی اسرائیلی ایٹمی ہتھیاروں پر خاموشی کو دوغلاپن قرار دیا اور کہا کہ ان کا عدم پھیلاؤ کے بارے میں مؤقف منافقت پر مبنی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ بین الاقوامی قوانین اور امن و سلامتی کے حوالے سے ان 7 ممالک کے دوہرے اور غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث وہ کسی دوسرے ملک کو نصیحت کرنے کا اخلاقی اختیار نہیں رکھتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ ایران پابندی جی7 ممالک نیوکلیئر طاقت