سول سوسائٹی ارکان کی مودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے پر پابندیوں کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
ضلع بارہمولہ کے اساتذہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے سے گریز کریں ورنہ انہیں ملازمت سے برطرفی سمیت سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں قابض حکام نے لوگوں کے جمہوری حقوق کو سلب کرنے کا ایک اور اقدام کرتے ہوئے ضلع بارہمولہ کے اساتذہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے سے گریز کریں ورنہ انہیں ملازمت سے برطرفی سمیت سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ذرائع کے مطابق چیف ایجوکیشن آفیسر بارہمولہ کی طرف سے جاری کردہ ایک حکم نامے میں تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے غلط استعمال کو پالیسی معاملات میں مداخلت اور 2023ء میں جاری کردہ حکومتی ہدایات کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات پر تادیبی کارروائی کی جائے گی جس میں سرزنش یا جرمانے سے لے کر سروس سے متعلق تادیبی اقدامات شامل ہیں۔
حکم نامے میں تمام عہدیداروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ کسی بھی خلاف ورزی کی اطلاع اعلیٰ حکام کو دیں اور ملازمین کو خبردار کیا گیا کہ وہ آن لائن غیر ضروری بحثوں یا نامناسب مواد کو شیئر کرنے سے گریز کریں۔ سیاسی اور سول سوسائٹی کے رہنمائوں نے اس اقدام پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے لوگوں کی آوازوں کو دبانے اور آزادی اظہار کے بنیادی حق کو سلب کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما وحید پرا نے کہا کہ یہ ہدایت علاقے میں اختلاف رائے کو دبانے کے لئے حکومت کے ظالمانہ اقدامات کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جموں و کشمیر میں اساتذہ کو آواز اٹھانے پر دھمکیاں دینا انتہائی تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو بااختیار بنانے کے وعدے پر برسراقتدار آنے والی حکومت اب باقی بچے ہوئے لوگوں کو خاموش کر رہی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
یورپ میں تحریک خالصتان
ریاض احمدچودھری
خالصتان کا پہلا باضابطہ مطالبہ 29 اپریل 1986 کو عسکریت پسند تنظیموں کی یونائیٹڈ فرنٹ پنتھک کمیٹی نے کیا تھا۔اس کا سیاسی مقصد یوں بیان کیا گیا: ‘اس خاص دن پرمقدس اکال تخت صاحب سے، ہم تمام ممالک اور حکومتوں کے سامنے اعلان کر رہے ہیں کہ آج سے ‘خالصتان’ خالصہ پنتھ کا الگ گھر ہو گا۔ خالصہ اصولوں کے مطابق تمام لوگ خوشی اور مسرت سے زندگی گزاریں گے۔”ایسے سکھوں کو حکومت چلانے کے لیے اعلیٰ عہدوں کی ذمہ داری دی جائے گی، جو سب کی بھلائی کے لیے کام کریں گے اور اپنی زندگی پاکیزگی کے ساتھ گزاریں گے۔’اب خالصتان کا مطالبہ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہنے والے بہت سے سکھوں کی طرف سے اٹھایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ان ممالک میں رہنے والے سکھوں کی بہت سی تنظیمیں جو اس مسئلے کو مسلسل اٹھا رہی ہیں، لیکن پنجاب میں انھیں زیادہ حمایت حاصل نہیں ہے۔سکھس فار جسٹس امریکہ میں مقیم ایک گروپ ہے۔ بھارتی حکومت نے 10 جولائی 2019 کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت اس پر یہ کہتے ہوئے پابندی لگا دی تھی کہ اس تنظیم کا علیحدگی پسند ایجنڈا ہے۔اس کے ایک سال بعد 2020 میں بھارتی حکومت نے خالصتانی گروپوں سے وابستہ نو افراد کو دہشت گرد قرار دیا اور تقریباً 40 خالصتان نواز ویب سائٹس بند کر دیں۔سکھس فار جسٹس کے مطابق ان کا مقصد سکھوں کے لیے ایک خود مختار ملک بنانا ہے، جس کے لیے گروپ سکھ برادری کے لوگوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔سکھس فار جسٹس کا قیام سال 2007 میں امریکہ میں عمل میں آیا۔ اس گروپ کا مرکزی چہرہ گروپتونت سنگھ پنوں ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس وقت ہی کیوں خالصہ تحریک دوبارہ زور پکڑ رہی ہے۔ تو جواب بڑا سیدھا سا ہے کہ ہندوستان میں ایک بہت بڑی اور منظم تحریک ہے جو ہندوستان کی ریاست کو مذہبی انتہا پسندانہ پیرائے میں چلانا چاہتی ہے۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس نے کشمیر کو دھونس کے ذریعے ہندوستان میں شامل کر کے جنوبی ایشیاء کے امن کو تباہ کیا اور یہی سوچ اور تحریک ہے جس کے نتیجے میں سکھوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہندوستان میں رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔حد تو یہ ہے کہ وہ شخص جو ہزاروں مسلمانوں کے قتل کا ذمہ دار گردانا گیا، اْسے انتخابات میں تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
مودی حکومت کی فسطائیت اور ہندوتوا نظریات نے نہ صرف بھارت کے سیکولر تشخص کو داغدار کیا بلکہ اقلیتوں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز کردیا ہے۔ فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے سکھ برادری کے خلاف جابرانہ ہتھکنڈوں کے استعمال اور دبا ئوکے باوجود خالصتان تحریک مزید زور پکڑ رہی ہے۔سکھز فار جسٹس کے کوآرڈینیٹر اندرجیت سنگھ گوسل نے اعلان کیا ہے کہ اگلا خالصتان ریفرنڈم کینیڈا کے شہر اوٹاوا میں 23نومبر 2025کو ہوگا۔ وہ سکھز فار جسٹس کے جنرل کونسلر گرپتونت سنگھ پنوں کی مکمل حمایت کررہے ہیں اور بھارت کو کھلے عام للکار رہے ہیں۔
گرپتونت سنگھ پنوں نے بھی مودی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا تے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت اندرجیت سنگھ کو ہتھیاروں کے جھوٹے کیس میں پھنسانے کی کوشش کر رہی ہے۔ 23نومبر کو اوٹاوا میں خالصتان ریفرنڈم بھرپور طریقے سے منعقد ہوگا جہاں ووٹ ڈالے جائیں گے۔انہوں نے مودی حکومت کو للکارتے ہوئے کہا کہ اگر ہمت ہے تو کینیڈا، امریکہ یا یورپ میں آ کر گرفتاری کر کے دکھائے۔ اجیت ڈوول! تمہارا سمن تیار ہے اور میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔سکھ رہنمائوں نے کہا کہ مودی حکومت بیرون ملک سکھوں کو نشانہ بنانے کے لیے خفیہ ایجنسی” را ”کے نیٹ ورکس استعمال کر رہی ہے، لیکن اب بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے مقابلے میں خالصتان کا قیام ہر سکھ کی آواز بن چکا ہے۔سکھوں کی عالمی سطح پر ٹارگٹ کلنگ میں ملوث بھارت کی مودی سرکار کا بین الاقوامی دہشتگرد نیٹ ورک بے نقاب ہوگیاہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہندوتوا نظریے کے تحت سرحد پار دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں۔ انتہا پسند مودی حکومت کی سرپرستی میں بیرون ملک سکھوں کے قتل عام کی مذموم سازش ناکام اور بے نقاب ہوئی ہے۔
عالمی جریدے دی گارڈین کے مطابق کینیڈا نے ہائی پروفائل ٹارگٹ کلنگ میں ملوث بھارتی گروہ بشنوئی گینگ کو دہشت گرد قرار دیاہے۔ لارنس بشنوئی کا مجرمانہ نیٹ ورک بیرون ِملک ہائی پروفائل ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔برطانوی جریدے کی رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ کینیڈین حکومت کے مطابق بشنوئی گینگ معروف سکھ کارکن ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھی ملوث ہے۔ بشنوئی گینگ تارکین وطن سے بھتہ خوری ، انہیں ڈرانے دھمکانے اور قتل میں ملوث ہے اور اسکے بھارتی حکومت سے مبینہ روابط ہیں۔کینیڈین حکام کا کہناہے کہ بھارت نے بشنوئی گینگ کی مدد سے نجر کے قتل کی منصوبہ بندی کی۔دی انڈین ایکسپریس کے مطابق پبلک سیفٹی کے وزیر گیری آنند سنگھری نے کہاہے کہ دہشت گرد تنظیم کی نامزدگی سے اثاثے ضبط کرنے اور جرائم کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔
واضح رہے کہ بشنوئی گینگ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے اور بھتہ خوری پر بات کرنے پرایک ریڈیو اسٹیشن پر بھی حملہ کیاگیاہے۔ پنجابی، ہندی ریڈیو اسٹیشن پر 29ستمبر کی درمیانی شب مسلح افراد نے فائرنگ کی ہے۔کینیڈین پولیس کا کہنا ہے کہ فائرنگ سمیت دیگر وارداتوں کے کیسز مبینہ طور پر لارنس بشنوئی گینگ سے جڑے ہیں۔مودی حکومت اپنی آمرانہ طرز حکمرانی برقرار رکھنے کے لیے بیرون ملک بھی سکھوں سمیت اقلیتوں کی آواز خاموش کرنے میں مصروف ہے۔ مودی حکومت امن کے بجائے عالمی سطح پر ریاستی دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے۔
٭٭٭