Jasarat News:
2025-11-21@16:27:56 GMT

پی پی — ن لیگ مناظرہ کب ہوگا؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251007-03-6

 

احمد حسن

 

 

۔8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے نتائج تبدیل کر کے جب مسلم لیگ نون کو پنجاب، پیپلز پارٹی کو سندھ، تحریک انصاف کو خیبر پختون خوا سونپ دیا گیا، بلوچستان کو ہمیشہ کی طرح اپنے پاس رکھ لیا گیا (ویسے دکھاوے کے طور پر بلوچستان بھی پیپلز پارٹی کے پاس ہے) اسی وقت پاکستان سے محبت کرنے والے رہنماؤں، دانشوروں اور صحافیوں نے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ اس اقدام کے ملک کے مستقبل پر بہت خطرناک اثرات مرتب ہوں گے اس سے صوبائی عصبیت میں اضافہ ہوگا، اب یہ خدشات پورے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ جس طرح نواز شریف نے مشکل حالات میں سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ’’جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘ کا نعرہ لگایا تھا اسی طرح مریم نواز شریف نے بھی پنجاب میں کسی طرح بھی عمران خان کی مقبولیت کم نہ ہونے پر پنجابی عصبیت کا نعرہ بلند کر دیا ہے، پیپلز پارٹی تو پہلے ہی سندھ تک محدود ہے اور اس پر خوش ہے، سندھی عصبیت کے آسان راستے سے وہ سیاست میں زندہ رہنا چاہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کے عہدے داروں کے ساتھ ساتھ جب ضرورت پڑتی ہے بلاول زرداری بھی ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ کا نعرہ بلند کر دیتے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ڈیٹا استعمال کرنے کا بار بار مطالبہ کیا تھا یہ مطالبہ یقینا نامعقول تھا، سیلاب زدگان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو سیلاب آنے سے پہلے خوشحال تھے لہٰذا وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شامل ہی نہیں ہوں گے اور جو لوگ اس پروگرام میں شامل ہیں ممکن ہے کہ وہ سیلاب سے متاثر ہی نہ ہوئے ہوں تو پھر کیا ہوگا؟، حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی یہ چال تھی کہ سارے امدادی پروگرام کا کریڈٹ بے نظیر مرحومہ کے توسط سے اسے مل جائے اس پروگرام پر پہلے ہی متعدد اعتراضات ہیں۔ مستقل خیرات غربت ختم نہیں کرتی، بڑھاتی ہے، غربت ختم کرنے کے لیے روزگار کے مواقع میں اضافہ کرنا ضروری ہے روزگار کے مواقع بڑھانے کا مطلب سرکاری ملازمتوں میں اضافہ ہرگز نہیں، نجی شعبے کے کاروبار کی ترقی ہے اور یہ ترقی سازگار ماحول سے مشروط ہے، پاکستان میں اس کے بالکل برعکس پالیسیوں پر عمل کیا جا رہا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ مقامی لوگوں کے لیے تو ملک میں کاروبار کرنا دشوار تھا ہی، اب دیو ہیکل بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ فلپ اینڈ مورس اس کی تازہ ترین مثال ہے اسٹاک ایکسچینج میں فلپ اینڈ مورس پاکستان لمیٹڈ کے شیئرز کی رضاکارانہ ڈی لسٹنگ کی منظوری دے دی ہے، اس سے پہلے متعدد بڑی نیشنل کمپنیاں پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹ کر جا چکی ہیں ان میں پروکٹر اینڈ گیمبل، شیل، مائیکروسافٹ، اوبر، کریم، یاماہا، وارد، ٹیلی نار وغیرہ شامل ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے بہت بڑے ادارے گل احمد ٹیکسٹائلز نے بھی اپنا برآمدی شعبہ بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے، کسی بھی ملک میں بیرونی سرمایہ کار تب ہی آتے ہیں جب انہیں یقین ہو کہ کسی بھی تنازع کی صورت میں وہاں کی عدالتوں سے انہیں انصاف مل جائے گا، بدقسمتی سے پاکستان میں آج کل جج خود انصاف کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں اور دنیا یہ سارے مناظر دیکھ رہی ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے اس پہلو پر بھی غور کیا جانا چاہیے کہ بے نظیر شہید سے محبت کا دم بھرنے والوں میں ارب پتیوں کی تعداد کم نہیں ہے، اور ان کے شوہر آصف زرداری تو کھرب پتی ہیں، وہ خود اپنی دولت میں سے کچھ حصہ نکال کر بے نظیر کے نام سے کوئی خیراتی، فلاحی پروگرام کا آغاز کیوں نہیں کرتے، دوسری جانب یہی حال مسلم لیگ نون کا ہے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے فیصل آباد میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میری تصویریں زیادہ آنے پر تنقید کی جاتی ہے جب کام کرو گے تو تصویر تو آئے گی، کوئی پوچھے کیوں بھئی آپ کی اور آپ کے والد گرامی نواز شریف کی تصویر کیوں آئے گی، عوام پر بھاری بھرکم ٹیکس لاد کر حاصل کیا گیا پیسہ استعمال ہو رہا ہے تو آپ کی تصویر کیوں؟ اگر آپ کو اپنی یا میاں نواز شریف کی تصویریں چھاپنے کا شوق ہے تو آپ کے پاس اربوں روپے نہیں، اربوں ڈالر پڑے ہیں ان سے عوام کی مدد کریں اور ہر امدادی تھیلے کیا، تھیلے میں رکھی گئی ہر شے پر اپنی اور اپنے پورے خاندان کی تصویریں لگا دیں۔

اوہ! لیکن میں بھول گیا اسی موقع پر مریم نواز صاحبہ نے یہ بھی کہا تھا کہ میرا پانی، میرا پیسہ آپ کو کیا تکلیف ہے، وہ سرکاری یعنی عوام کے پیسے کو اپنا پیسہ سمجھتی ہیں، اسی لیے وہ اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا جائز سمجھتی ہیں، وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ ہمیں مشورے نہ دو، پنجاب پر بات کرو گے تو مریم نواز آپ کو چھوڑے گی نہیں، ہمیں اس موقع پر الطاف حسین یاد آگئے وہ بھی اپنی ہر تقریر میں 10، 12 دفعہ اپنا قصیدہ آپ پڑھا کرتے تھے، ویسے مریم نواز صاحبہ سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا کسی بھی صوبے میں صرف حکمران جماعت کو ہی بات کرنے کا حق ہوتا ہے، باقی تمام پارٹیوں اور رہنماؤں کا بات کرنا غیر قانونی ہوتا ہے؟ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ نون سندھ کے حوالے سے بات نہیں کرتی، سندھ کے امور پر نون لیگ کا بات نہ کرنا اچھی نہیں، بری بات ہے، مسلم لیگی رہنماؤں کو اگر سندھ سے محبت ہے تو انہیں یہاں ہونے والی ہر زیادتی، ہر ظلم پر آواز اٹھانی چاہیے، یہاں ہونے والی لوٹ مار سے آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں، بصورت دیگر یہی سمجھا جائے گا کہ آپ نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ سندھ پیپلز پارٹی کی ملکیت ہے، وہ جو چاہے کرے۔

بہرحال پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی اس زبانی جنگ میں شرجیل انعام میمن اور عظمیٰ بخاری نے ایک دوسرے کو مناظرے کا چیلنج دے دیا ہے اور دونوں نے ہی قبول بھی کر لیا ہے، ہم امید کرتے ہیں دونوں لیڈر اپنے کہے کا پاس رکھیں گے اور یہ مناظرہ جلد منعقد ہوگا ہمارے خیال میں مناظرہ غیر جانبدار مقام پر ہونا چاہیے اور اسے براہ راست نشر کیا جانا چاہیے، کیا خیال ہے یہ مناظرہ پشاور میں کیسا رہے گا، علی امین گنڈا پور اچھے میزبان ہیں۔

احمد حسن.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی نواز شریف مریم نواز شامل ہی کے لیے

پڑھیں:

ایم کیو ایم کے غبار ے سے ہوا نکل چکی ہے سینیٹر وقار مہدی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (اسٹاف رپورٹر)پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری سینیٹر وقار مہدی نے ایم کیو ایم کے رہنمائوں کی گورنر ہاؤس میں منعقدہ پریس کانفرنس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایم کی ایم کے غبار ے سے ہوا نکل چکی ہے، اب وہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف بے ڈھنگی اداکاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ کے عوام کے اصلی ووٹوں اور ان کی تائید سے صوبے میں حکومت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضہ اور چائنا کٹنگ ایم کیو ایم کا طرہ امتیاز ہے۔ ایم کی ایم ہمیشہ ٹھپے اور ووٹ چوری اور دھاندلی کے ذریعے ہر حکومت کے ساتھ شریک اقتدار رہی ہے مگر اس نے 40 سالہ پارلیمانی سیاست کے باوجود کراچی کے شہریوں کو ان کے حقوق دلوانے کے بجائے خود ہڑپ کیے۔ سینیٹر وقار مہدی نے کہا کہ پیپلز پارٹی 1970ع سے اب تک جب بھی اقتدار میں آئی ہے تو اس نے کراچی کے مسائل کو اہمیت دی اور اُس کی ترقی میں پیش پیش رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسری جانب ایم کیو ایم کے 1987 سے اب تک کراچی کے تین میئر ز آئے لیکن کراچی کے لیے ان کی کارکردگی زیرو ہی رہی۔

اسٹاف رپورٹر گلزار

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی لاہور آفس کو 8لاکھ 74ہزار کا نوٹس جاری
  • ایم کیو ایم کے غبار ے سے ہوا نکل چکی ہے سینیٹر وقار مہدی
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی سے متعلق کوئی بات زیر غور نہیں: سلیم کھوسہ
  • پیپلز پارٹی صرف سیاسی جماعت نہیں بلکہ جمہوری جدوجہد کی تحریک ہے، وقار مہدی
  • پیپلز پارٹی حکومت کا ماسٹر پلان کراچی کی تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں‘ منعم ظفر خان
  • گورنر ہاؤس پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کیلئے استعمال ہو رہا ہے، حفیظ الرحمن
  • ایم کیو ایم کا نئے صوبوں کا مطالبہ سندھ کی وحدت پر حملہ ہے، محمد اسماعیل راہو
  • مصطفیٰ کمال نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو نشانے پر لے لیا
  • یومِ تاسیس کے موقع پر شاندار جلسہ عام کب اور کہاں ہوگا؟ پیپلز پارٹی نے اعلان کردیا
  • آزاد کشمیر کی حکومت بند کمروں میں بیٹھ کر نہیں چلائیں گے، بلاول بھٹو