اسرائیلی جارحیت کے 2 سال، غزہ کی 3 فیصد آبادی شہید، 90 فیصد مکانات تباہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
اسرائیلی جارحیت کے 2 سال، غزہ کی 3 فیصد آبادی شہید، 90 فیصد مکانات تباہ Smoke rises as a residential building collapses after an Israeli air strike, in Gaza City, September 8, 2025. REUTERS/Dawoud Abu Alkas REFILE - CORRECTING INFORMATION FROM ''SMOKE AND FLAMES RISE'' TO ''SMOKE RISES''. WhatsAppFacebookTwitter 0 7 October, 2025 سب نیوز
غزہ(آئی پی ایس )غزہ میں 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی آج 2 سال بعد بھی جاری ہے۔اسرائیلی جارحیت کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت ہوا جب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز اور دیگر فلسطینی گروہوں نے جنوبی اسرائیل پر حملے کیے جن میں 1100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور تقریبا 240 افراد کو گرفتار کر کے غزہ لے جایا گیا۔
اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری شروع کی اور اپنے طویل عرصے سے جاری محاصرے کو مزید سخت کرتے ہوئے 16 سالہ ناکہ بندی کو مکمل گھیرا میں بدل دیا۔2 سال سے جاری اسرائیلی حملوں میں کم از کم 67 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جنگ سے قبل غزہ کی آبادی کا تقریبا 3 فیصد، یعنی ہر 33 میں سے ایک شخص شہید ہو چکا ہے۔
شہید ہونے والوں میں کم از کم 20 ہزار بچے بھی شامل ہیں، یعنی گزشتہ 24 مہینوں کے دوران اسرائیل نے اوسطا ہر گھنٹے میں ایک بچے کو شہید کیا۔فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق یہ اعداد و شمار صرف ان افراد پر مشتمل ہیں جن کی لاشیں اسپتالوں میں لائی گئیں یا جن کی اموات سرکاری طور پر درج ہوئیں۔شہدا کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ ان اعداد و شمار میں وہ لوگ شامل نہیں جو لاپتا ہیں یا جن کی لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرافغانستان میں فوجی انفرا اسٹرکچر کی کوششیں ناقابلِ قبول: ماسکو فارمیٹ کا مشترکہ اعلامیہ افغانستان میں فوجی انفرا اسٹرکچر کی کوششیں ناقابلِ قبول: ماسکو فارمیٹ کا مشترکہ اعلامیہ پاکستان دنیا کا واحد ملک جہاں سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو رہا ہے، سلمان اکرم راجا عنبرین جان،شاہیرہ شاہد یا توقیر شاہ ،کون بنے گا چیئرمین پیمرا؟ کچھ لوگ پنجاب کی ترقی سے جلتے ہیں، ان کے خلاف بات کرتی رہوں گی: مریم نواز شامی فوج اور کرد جنگجوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد جنگ بندی طے پاگئی پاکستانی اسپن جال سے بچنے کیلئے جنوبی افریقا نے اسپن کھیلنے پر فوکس کرلیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اسرائیلی جارحیت
پڑھیں:
اسرائیل اور ریپ کا ہتھیار
جنگی ہتھیاروں میں ریپ بھی شامل ہے۔ ریپ یا اس کی دھمکی کے ذریعے دشمن سے معلومات اگلوانے کی کوشش ہوتی ہے ، محکوم کی عزتِ نفس تار تار کر کے نفسیاتی طور پر ختم کرنا اور یہ باور کرانا مقصود ہوتا ہے کہ تم کتنے بے بس ہو ، تمہارے ساتھ ہم جب چاہیں کچھ بھی کرنے پر قادر ہیں۔
ریپ بطور ہتھیار کوئی اتفاقی یا اضطراری عمل نہیں بلکہ صدیوں سے سوچی سمجھی عسکری حکمتِ عملی کا اہم جزو ہے۔’’ مہذب دور ‘‘ میں روانڈا، سابق یوگو سلاویہ اور اب سوڈان میں ریپ کا بطور ہتھیار وسیع استعمال سامنے کی مثالیں ہیں۔ فلسطین بھی اس ہتھیار کی زد سے باہر نہیں۔اس کا سب سے اہم گواہ خود اقوامِ متحدہ ہے۔
دو ہزار اکیس میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مقبوضہ فلسطین میں ریپ کے اسٹرٹیجک استعمال کے الزامات کی جانچ کے لیے ماہرین کا ایک تین رکنی آزاد کمیشن تشکیل دیا۔کمیشن کی رپورٹ اس سال مارچ میں منظرِ عام پر آئی۔اس میں صاف صاف لکھا گیا کہ فلسطین میں اسرائیلی سیکیورٹی دستوں کی جانب سے عام لوگوں کو برسرِ عام ننگا کرنا اور ریپ یا ریپ کی دھمکی ایک عمومی رویہ ہے۔اس رویے میں فلسطینیوں کے حساس اعضا کو بزورِ تشدد ناکارہ بنانا بھی شامل ہے۔ اس جنسی تشدد کو اسرائیلی سرکاروں اور فوج کی اعلیٰ ترین قیادت تک تائید اور حوصلہ افزائی حاصل ہے۔
توقع کہ عین مطابق اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی سفیر نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دعوی کیا کہ فوجی ضوابط اور اندرونی احتساب کے ڈھانچے میں جنسی تشدد کی شکایات کے تدارک کے لیے ایک فعال اور موثر طریقہِ کار تندہی سے کام کرتا ہے۔ وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کو لغو بتاتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کونسل دراصل اسرائیل دشمن سرکس ہے۔
مگر پھر ایک دن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ گھر کے بھیدی نے ہی لنکا ڈھا دی ، اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔اسرائیلی فوج کی ایڈووکیٹ جنرل میجر جنرل یفات تومر یروشلامی کو تین ہفتے پہلے جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا۔پھر خبر آئی کہ انھیں حراست میں لے لیا گیا۔پھر خبر آئی کہ میجر جنرل یفات نے اعتراف کر لیا ہے کہ انھوں نے ہی وہ وڈیو لیک کی ہے جس میں جنوبی اسرائیل کے سدی تمان فوجی کیمپ میں اسرائیلی فوجی ایک فلسطینی قیدی کو فوجی ڈھالوں کے سائے میں دھاتی ڈنڈوں سے ریپ کر رہے ہیں۔ یہ ایسی وحشیانہ واردات تھی کہ اب تک اس قیدی کی بیس سرجریز ہو چکی ہیں۔اس کا دماغی توازن بگڑ گیا۔اس قیدی کو بعد ازاں رہا کر دیا گیا۔
وڈیو کے منظرِ عام پر آنے کے بعد پانچ فوجیوں کو بادلِ ناخواستہ حراست میں لے کر تفتیش شروع کر دی گئی۔مگر انتہاپسند اسرائیلیوں نے ریپسٹ فوجیوں کی گرفتاری کے خلاف سدی تمان کیمپ کے گیٹ پر احتجاجی دھرنا دیا۔ان فوجیوں کو ٹی وی چینلز پر ہیرو قرار دیا گیا۔ارکانِ پارلیمان نے ان کی گرفتاری پر نکتہ چینی کی۔جس قیدی کا ریپ ہوا الٹا اسے موردِ الزام ٹھہرایا گیا کہ وہ حماس کا ایک خطرناک جنگجو ہے۔تاہم چھان پھٹک کے بعد معلوم ہوا کہ وہ تو کوئی عام شہری ہے۔
کچھ ہفتے بعد ریپسٹ فوجیوں کو اسرائیل فوج کے چیف رباعی نے معاف کر دیا۔ان مجرموں کی وڈیو لیک کرنے والی اسرائیلی فوج کی ایڈووکیٹ جنرل میجر جنرل یفات غدار قرار پائیں۔وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے بھی میجر جنرل یفات کی اس حرکت کو اسرائیلی ریاست اور فوج کو بدنام کرنے کی ملکی تاریخ کی سب سے مذموم کوشش قرار دیا۔
آٹھ دہائی تک یہ تصویر بنائی جاتی رہی کہ اسرائیل خطے کا سب سے مہذب اور جمہوری ملک ہے۔ اسرائیلی شہریوں کو قانون کا مکمل یکساں تحفظ حاصل ہے۔اسرائیلی فوج دنیا کی سب سے بااخلاق اور اصول پسند فوج ہے۔اس کا اندرونی احتسابی نظام آہنی ہے وغیرہ وغیرہ۔
مگر اقوامِ متحدہ کی یہ رپورٹ کہ اسرائیلی فوج ریپ کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے اور ٹارچر کے دوران فلسطینیوں کے جنسی اعضا کو بھی ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔اس بابت اسرائیلی فوج کی ایڈوکیٹ جنرل کی گواہی نے اسی برس سے جاری خودساختہ مثبت تاثر اڑا کے رکھ دیا۔
ان حالات و واقعات پر اس لیے بھی حیرت نہیں ہونا چاہیے کہ خود اسرائیلی سماج کے اندر بھی ریپ اور جنسی ہراسگی ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس سے سنجیدگی سے نپٹنے کے بجائے درگزر کی روائیت مستحکم ہے۔
مثلاً ایک اسرائیلی این جی او ایسوسی ایشن آف ریپ کرائسس سینٹرز ان اسرائیل ( اے آر سی سی آئی ) کا اندازہ ہے کہ ہر تین میں سے ایک عورت کم ازکم ایک بار جنسی حملے کا نشانہ بنی ہے۔رپورٹ کے مطابق اسرائیلی سماج میں جنسی تشدد کی شرح یورپ کے مقابلے میں دس فیصد زائد ہے۔
جنسی ہراسانی کے قانون کے تحت مجرم کو چار برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ سب سے مشہور کیس سابق اسرائیلی صدر موشے کستاف کا ہے۔انھوں نے ایک خاتون کے اس الزام کے بعد دو ہزار سات میں اپنے عہدے سے استعفی دے دیا کہ جب موصوف نوے کی دہائی میں وزیرِ سیاحت تھے تو مذکورہ خاتون ان کے اسٹاف میں شامل تھی اور اسے دو بار ریپ کیا گیا۔موشے کستاف کے صدر بننے کے بعد بھی دو ہزار تین اور پانچ میں جنسی ہراسگی کے الزامات سامنے آئے۔دو ہزار گیارہ میں ایک عدالت نے موشے کستاف کو سات برس کے لیے جیل بھیج دیا۔
دسمبر دو ہزار پندرہ میں نائب وزیرِ اعظم سلوان شالوم نے جنسی ہراسانی کے الزامات کے سبب استعفی دے دیا۔ان کے پاس وزارتِ داخلہ و خارجہ کا قلمدان بھی رہ چکا تھا۔
اسرائیلی شہریوں کو تو پھر بھی کچھ نہ کچھ انصاف میسر ہے مگر لاکھوں فلسطینی اس نظام سے بالکل باہر ہیں اور اسرائیل میں کام کرنے والے غیر ملکی ورکرز سب سے زیادہ تنہا ہیں۔
امیگریشن امور کے دو اسرائیلی ماہرین ڈاکٹر یاہل کرلینڈر اور ڈاکٹر شاہار شوہام کی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ زراعت کے شعبے میں سب سے زیادہ غیر ملکی کارکن تھائی لینڈ سے منگوائے جاتے ہیں۔دونوں امیگریشن ماہرین نے چھ سو چون تھائی مزدور خواتین سے انٹرویو کیا۔سب نے بتایا کہ ان کا جنسی استحصال بھی ہوتا ہے اور قانونی چارہ جوئی کی کوشش کا مطلب نوکری سے برخاستگی اور اسرائیل بدری ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)