پنجاب کسی کی جاگیر نہیں، ہمار ایشو معافی نہیں عوام کو ریلیف دلانا، ندیم افضل چن
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کوئی صوبہ کسی کی جاگیر نہیں ہے، ہمارا معافی کا ایشو نہیں متاثرین کو ریلیف دیں، پنجاب میں لوکل باڈی سسٹم ہونا چاہیے، صوبے پر رحم کریں بلدیاتی نظام کو بحال کیا جائے، عدم اعتماد لانے تک ابھی ہماری بات نہیں گئی۔ اسلام ٹائمز۔ پیپلز پارٹی کے سینئر راہنما ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ پنجاب کسی کی جاگیر نہیں، ہمارا ایشو معافی نہیں عوام کو ریلیف دلانا ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ ہم چیف منسٹر سے سوال کرتے ہیں تو انگلیاں توڑنے کی بات کی جاتی ہے، ہمارا بھی کیپٹل اُن کی وجہ سے جا رہا ہے، پنجاب میں لوکل باڈی انتخابات کرائے جائیں۔ اُنہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کی زراعت کے حوالے سے پالیسیاں ٹھیک نہیں،سیلاب زدگان کو ایک ماہ ہوگیا کوئی ریلیف نہیں مل رہا، ڈپٹی کمشنر کی ڈائری اور سوشل میڈیا پر سیلاب زدگان مہمان ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سینئر راہنما کا کہنا تھا کہ راول ڈیم کے ساتھ ریسٹ ہاؤس پر ایک ارب لگا دیا گیا، 6 ماہ میں 9 ارب روپے صرف اشتہارات کی مد میں لگا دیے، پنجاب کے حوالے سے بڑے سیریس ایشوز ہیں، اس بات پر رانا ثنا اللہ سے بحث نہیں کروں گا، ابھی ہماری پارٹی کی میٹنگ نہیں ہوئی۔ ندیم افضل چن نے کہا کہ کوئی صوبہ کسی کی جاگیر نہیں ہے، ہمارا معافی کا ایشو نہیں متاثرین کو ریلیف دیں، پنجاب میں لوکل باڈی سسٹم ہونا چاہیے، صوبے پر رحم کریں بلدیاتی نظام کو بحال کیا جائے، عدم اعتماد لانے تک ابھی ہماری بات نہیں گئی۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ یہ اپنا رویہ جمہوری کرلیں طعنے نہ دیں، یہ پنجاب میں خادم بنیں مالک نہ بنیں، ہم عوام کو ریلیف دلوا کے رہیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کسی کی جاگیر نہیں ندیم افضل چن کہنا تھا کہ کو ریلیف
پڑھیں:
جمہوریت: سَراب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251122-03-5
مفتی منیب الرحمن
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور کافروں کے اعمال چٹیل میدان میں چمکتی ہوئی ریت کی مانند ہیں جس کو پیاسا (دور سے) پانی گمان کرتا ہے‘ یہاں تک کے جب وہ اس کے قریب پہنچتا ہے تو وہاں کچھ نہیں پاتا اور وہ اللہ کو اپنے قریب پاتا ہے جو اس کا پورا حساب چکا دیتا ہے اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے‘‘۔ (النور: 39) الغرض تپتی دھوپ اور سورج کی تیز روشنی میں جب آدمی کو پیاس ستاتی ہے اور وہ پانی کی تلاش میں رہتا ہے تو صحرا میں دور سے چمکتی ہوئی ریت اْسے پانی نظر آتی ہے‘ مگر جب وہ اس کے قریب پہنچتا ہے تو وہ ریت کے چمکتے ہوئے ذرات ہوتے ہیں‘ پانی نہیں ہوتا‘ اسے ’’سَراب‘‘ کہتے ہیں۔ گویا یہ ایک دھوکا اور فریب ِ نظر ہے۔ کافر کے اعمال بھی اسی طرح دھوکا ہیں‘ جن پر وہ اتراتا ہے‘ مگر آخرت میں کچھ بھی نہیں پاتا اور عذابِ الٰہی اس کا منتظر رہتا ہے۔ اس لیے دھوکے اور فریب میں مبتلا کرنے والی ہر چیز کو ’’سراب‘‘ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ جدید انسانی تاریخ میں جمہوریت بھی ایک سَراب ہے‘ دھوکا ہے‘ فریب ہے اور اس کی آڑ میں جمہور یعنی عوام کو دھوکے میں رکھا جاتا ہے۔ تاثّر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ عوام کی حکومت ہے‘ اس لیے اس کی تعریف یوں کی گئی ہے: ’’Govt. of the People, for the People, by the People‘‘۔ یعنی ’’عوام کی حکومت‘ عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے‘‘۔ مگر یہ ایک فریب ہے۔ اس لیے کسی دل جلے نے اسے یوں تعبیر کیا: ’’Govt. off the People, far the People, buy the People‘‘ یعنی ’’ایسی حکومت جس میں عوام کو الگ تھلگ اور اقتدار سے دور رکھا جائے اور ہو سکے تو عوام کو خرید لیا جائے‘‘۔ آج کل نام نہاد جمہوری حکومتیں اسی دوسری تعریف کا مصداق ہیں۔
یہ خیال اس لیے آیا کہ نجم سیٹھی نے اپنے ایک پروگرام میں بتایا: ’’عوام جمہوریت سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں‘‘۔ سروے کے تین عالمی اداروں یورپین سوشل‘ پیو ریسرچ سینٹر اور ایپسوس نے جمہوریت پر عوام کے اعتماد کے حوالے سے امریکا سمیت یورپ کے آٹھ نمایاں ممالک میں سروے کیا۔ اس میں صرف سویڈن کے 65 فی صد عوام نے جمہوریت پر اعتماد کا اظہار کیا‘ جبکہ باقی ممالک کے لوگ جمہوریت سے مایوس ہیں اور جمہوریت پر ان کا اعتماد بتدریج ختم ہوتا جا رہا ہے‘ حالانکہ یہ وہ ممالک ہیں جن کی جمہوریت کو ہمارے ہاں مثالی نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جہاں تک جمہوری انتخابات کے معتبر ہونے کا سوال ہے‘ تو صدر ٹرمپ خود امریکی نظامِ انتخاب کو جعلی قرار دے چکے ہیں‘ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے انتخابات کو بھی وہاں کی حزبِ اختلاف نے کبھی اطمینان بخش قرار نہیں دیا۔ بہار کے حالیہ ریاستی انتخاب کے موقع پر خواتین میں پاکستانی کرنسی کے مطابق تقریباً تیس ہزار روپے فی کس تقسیم کیے گئے اور اسی سبب ڈالے جانے والے ووٹوں میں خواتین کی ووٹنگ کی شرح مردوں کی بہ نسبت نو فی صد زیادہ ہو گئی۔ مغرب میں بھی تارکین ِ وطن کے خلاف نفرت موجود ہے اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں اس نفرت کو ہر انتخاب میں ابھارتی رہتی ہیں۔ برطانیہ میں انتہائی دائیں بازو کی نسل پرست جماعت ’’ریفارم یو کے‘‘ کے رہنما نائیجل فراج ہیں۔ ان کی جماعت نے گزشتہ انتخابات میں پارلیمنٹ میں پانچ نشستیں جیتی ہیں‘ ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد 28 ملین میں سے چار ملین (14.3 فی صد) ہے اور یہ اب دو بڑی پارٹیوں لیبر اور کنزرویٹو کے لیے چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ بھی تارکین ِ وطن کے شدید مخالف ہیں اور سفید فام عصبیت کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں‘ فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک میں بھی تارکین ِ وطن کے خلاف عصبیت کی لہر اٹھ رہی ہے۔
ہمارے پاس بھی عملی دنیا میں کوئی متبادل نظام نہیں ہے کہ جسے ہم ایک مثالی طرزِ حکومت کے طور پر پیش کر سکیں‘ وقتاً فوقتاً ’’اِحیائے خلافت‘‘ کی تحریکیں چلتی رہتی ہیں‘ لیکن ان تحریکوں کو بھی عوامی پذیرائی یا قبولِ عام نہیں مل سکا۔ لے دے کے ایک جمہوریت ہی رہ جاتی ہے‘ جو دنیا کے بیشتر ممالک میں رائج ہے۔ اگرچہ ایسی جمہوریت دنیا میں ناپید ہے‘ جہاں حقیقی معنوں میں جمہور کا راج ہو۔ مثلاً: کوئی بھی منتخب حکومت اپنے ملک کے تمام عوام کی نمائندہ نہیں ہوتی‘ کیونکہ رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد اپنا حق رائے دہی استعمال ہی نہیں کرتی۔ فرض کریں: ایک حلقہ ٔ انتخاب میں ایک لاکھ ووٹرز ہیں‘ اْن میں سے پچاس فی صد ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں اور انتخاب میں شریک پانچ دس امیدواروں میں سے ایک امیدوار کْل نہیں‘ بلکہ ڈالے گئے ووٹوں کا بیس فی صد لے کر اکثریت حاصل کرتا ہے اور وہ منتخب قرار پاتا ہے۔ حالانکہ وہ کل ووٹروں کا نمائندہ ہے اور نہ انتخابات میں حصہ لینے والے ووٹروں کی اکثریت کا نمائندہ‘ بلکہ درحقیقت وہ اقلیت کا نمائندہ ہے‘جس پر جمہوریت کا غلاف چڑھا کر اسے جمہور کا نمائندہ بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بھی اس صورت میں ہے کہ ہم فرض کر لیں کہ انتخابات ہر قسم کی دھاندلی سے پاک اور شفاف ہوئے ہیں‘ حالانکہ درحقیقت ایسا نہیں ہوتا۔
سیٹھی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ تقریباً سارے نظاموں سے عوام مایوس ہوتے جا رہے ہیں‘ کیونکہ حکمرانی فیض رسانی کا نام ہے اور فیض رسانی کے سوتے خشک ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے بعض ممالک میں ’’جین زی‘‘ کی تحریکیں بے چینی کی علامت بن کر نمودار ہو رہی ہیں۔ جین زی سے مراد وہ نسل ہے جو 1995ء کے بعد وجود میں آئی ہے یعنی یہ ’’کمپیوٹر دور‘‘ میں پروان چڑھنے والی نسل ہے۔ جو ممالک جی ڈی پی یعنی مجموعی قومی پیداوار کے اعتبار سے سرفہرست ہیں‘ وہاں بھی دولت چند بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں مرکوز ہے‘ نچلی سطح تک تقسیم ِ دولت کا نظام منصفانہ نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ کا تو ایجنڈا یہی ہے کہ بڑے سرمایہ داروں کو ٹیکس میں زیادہ سے زیادہ چھوٹ دی جائے‘ کیونکہ وہ خود اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ امریکا اور تمام مغربی ممالک سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردار ہیں‘ البتہ اس نظام میں رہتے ہوئے امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی اور برطانیہ میں لیبر پارٹی یا دیگر ممالک میں ایسی جماعتیں کوشش کرتی ہیں کہ دولت کی کچھ نہ کچھ فیض رسانی نچلے طبقات تک پہنچے‘ مگر ان کی پالیسیوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہوتا۔
ماضی قریب میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے مشاہروں‘ مراعات بشمول پنشن پیکیج میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا ہے‘ یہ اوسطاً بھارت کے عدالت عظمیٰ و عدالت عالیہ کے ججوں کے مقابلے میں تقریباً تین گنا تک ہے۔ حالانکہ بھارت کے زرِ مبادلہ کے ذخائر چھے سو ارب ڈالر بتائے جاتے ہیں‘ جبکہ پاکستانی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں سے دوست ممالک کے بار بار تجدید کیے جانے والے قرض زرِ مبادلہ کو نکال دیا جائے تو خالص پاکستانی وسائل سے قابل ِ استعمال زرِ مبادلہ کے ذخائر پانچ ارب ڈالر سے بھی کم ہیں‘ اگر ہمارا اندازہ غلط ہو تو کوئی صاحب ِ علم تصحیح فرما سکتے ہیں۔ اسی طرح حال ہی میں چیئرمین سینیٹ‘ اسپیکر قومی اسمبلی‘ پارلیمانی ارکان اور وزرا کے مشاہروں و مراعات میں بھی غیر معمولی اضافہ کیا گیا‘ یہ ایک غریب قوم کے ساتھ مذاق سے کم نہیں ہے۔
پارلیمانی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں تاکہ وہ قانونی مسودوں کی تفصیلی جانچ پڑتال کریں‘ پھر پارلیمنٹ میں ان پر بحث کی جائے‘ ضرورت محسوس ہو تو ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ قوانین دیرپا اور جامع ہوں‘ وقتی اور شخصی مفادات کے تابع نہ ہوں۔ مگر جس پارلیمان میں اٹھارہویں ترمیم کے موقع پر ایک دن میں ایک سو ایک آئینی ترمیمات‘ ایف اے ٹی ایف کے مطالبے پر 33 قوانین اور حال ہی میں چھبیسویں اور ستائیسویں ترامیم ایک دن میں منظور ہو گئیں تو عجلت میں منظورکیے ہوئے قوانین دیرپا کیسے ثابت ہو سکتے ہیں۔ تقریباً 240 سال میں امریکی دستور میں کل 27 ترامیم ہوئی ہیں‘ جبکہ 52 سال میں پاکستانی دستور میں اب تک 27 ترامیم ہو چکی ہیں اور اٹھائیسویں پائپ لائن میں ہے۔