Jasarat News:
2025-11-16@08:11:16 GMT

’’آئینی‘‘ ججوں کا استعفا

اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251116-03-2

 

پاکستان کی آئینی اور عدالتی تاریخ ایک نئے دوراہے پر کھڑی ہے۔ صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے عدالت عظمیٰ کے دو معزز جج صاحبان، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ، کے استعفے منظور کر لیے ہیں۔ یہ استعفے محض دو افراد کے ذاتی فیصلے نہیں، بلکہ ملکی تاریخ میں ایک اور سیاہ نشان ہیں۔ ان استعفوں نے ریاست کے تین بنیادی ستونوں، خصوصاً عدلیہ کی آزادی اور آئینی بالادستی کے حوالے سے نہ صرف تشویش کی نئی لہر پیدا کی ہے بلکہ 27 ویں آئینی ترمیم کے سنگین نتائج کو بھی پوری شدت کے ساتھ بے نقاب کیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کا شمار اْن ججوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نسبتاً آئین اور قانون کے لیے مضبوط مؤقف اختیار کیا۔ ان کا استعفا، جسے صدر مملکت نے منظور کر لیا ہے، اس بات کا کھلا اعلان ہے کہ عدلیہ کے اندرونی ماحول میں وہ گھٹن بڑھ چکی تھی جس کے ساتھ کام کرنا اب ایک آئینی جج کے لیے ممکن نہیں رہا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے 13 صفحات پر مشتمل اپنے استعفے میں واضح لکھا کہ 27 ویں آئینی ترمیم آئین ِ پاکستان پر ’’سنگین حملہ‘‘ ہے۔ اْن کے مطابق اس ترمیم نے عدلیہ کو حکومت کے ماتحت کر دیا، عدالت عظمیٰ کو تقسیم کر دیا، اور عدلیہ کی آزادی پر کاری ضرب لگائی۔ اسی طرح جسٹس اطہر من اللہ نے بھی اپنے استعفے میں کہا کہ جس آئین کے تحفظ کا انہوں نے حلف اٹھایا تھا، وہ اب اپنی اصل شکل میں باقی نہیں رہا۔ یہ دو ججوں کا کہنا نہیں ہے بلکہ ہر محبت وطن کی آواز اور آئینی زوال کا اعلان ہیں۔ اس بحران کی بنیاد وہ متنازع 27 ویں آئینی ترمیم ہے، جس کے ذریعے عدالت عظمیٰ کے اوپر ایک نئی وفاقی آئینی عدالت قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس ترمیم نے نہ صرف ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے آئینی اختیارات محدود کیے بلکہ عدلیہ کے پورے ڈھانچے کو ایک نئے نظم کا پابند بنا دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق یہ نئی عدالت دراصل ’’سیاسی مصلحت کے تحت وجود میں لائی گئی ہے‘‘۔ انہوں نے اسے عدلیہ کے لیے خطرناک ترین تنزلی قرار دیتے ہوئے واضح لکھا کہ یہ کوئی اصلاح نہیں بلکہ آئینی ڈھانچے کو بگاڑنے کا عمل ہے۔ ان کے مطابق پہلے 26 ویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کمزور کی گئی، اور اب 27 ویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو تقسیم کر کے حکومتی کنٹرول مضبوط کیا جا رہا ہے۔ عدلیہ کی آزادی وہ بنیاد ہے جس پر جمہوری معاشرہ قائم رہتا ہے۔ اگر سب سے بڑی عدالت کے اختیارات کسی نئی عدالت کو منتقل کر دیے جائیں، جس کی تشکیل اور حدود کا تعین سیاسی بنیادوں پر کیا جائے، تو یہ طاقت کی توازن کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اسی صورتحال کا سامنا پاکستان اس وقت کر رہا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے استعفے میں اہم الزام عائد کیا کہ عدالت عظمیٰ کی قیادت نے ادارے کے دفاع کے بجائے اپنے عہدے کو ترجیح دی۔ یہ جملہ مورخین کے لیے ایک سوال چھوڑ جاتا ہے کہ آیا عدلیہ کے سربراہ نے واقعی ادارے کو متحد رکھا یا فیصلوں میں خاموشی اختیار کی۔ انہوں نے لکھا کہ حکومت اور ’’متنازع عدالتی قیادت‘‘ نے ترمیم کو قبول کیا۔ اس کے نتیجے میں عدلیہ اندرونی طور پر منقسم ہو کر رہ گئی۔ تاریخ بھی یہی سکھاتی ہے کہ جب کسی ادارے کے اندر اختلاف بڑھ جائے تو بیرونی دباؤ مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ کر واضح کیا تھا کہ اگر عدلیہ متحد نہ ہوئی تو اس کی آزادی اور فیصلے شدید متاثر ہوں گے۔ انہوں نے ایگزیکٹو کے ساتھ مشاورت کا مطالبہ بھی کیا، مگر اب حالات ظاہر کرتے ہیں کہ یہ تجاویز نہ صرف نظر انداز کی گئیں بلکہ حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ دو سینئر ججوں کو استعفا دینا پڑا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اپنی قانونی زندگی کے ہر منصب پر ایک ہی وعدہ کیا، آئین ِ پاکستان سے وفاداری۔ لیکن ان کے مطابق اب وہ آئین اپنی اصل شکل میں موجود ہی نہیں رہا۔ یہ ایک انتہائی سخت اور تشویشناک بات ہے۔ انہوں نے لکھا کہ جو کچھ آئین کے نام پر باقی رہ گیا ہے، وہ صرف ایک سایہ ہے، جو آئینی روح سے خالی ہے۔ ان کے استعفے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے کہا: ’’یہ لباس محض زیبائش نہیں، بلکہ ایک مقدس امانت ہے، اسے پہنے رہنا جبکہ آئین کا تحفظ ممکن نہ ہو، حلف سے بے وفائی کے مترادف ہوتا‘‘۔ عدلیہ کے کردار، اس کے وقار اور اس کی آئینی حیثیت کے بارے میں اس سے زیادہ دردناک تنقید شاید ہی ہو سکتی ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ مؤقف پیش کیا جا رہا ہے کہ نئی آئینی عدالت کے قیام سے زیر ِ التوا مقدمات کا بوجھ کم ہوگا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے درست نشاندہی کی کہ زیر التوا مقدمات زیادہ تر ضلعی عدالتوں میں ہیں، نہ کہ عدالت عظمیٰ میں۔ اس لیے یہ دلیل حقیقت سے زیادہ سیاسی لگتی ہے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایسے کئی اقدامات کیے گئے جو اصلاحات کے نام پر لائے گئے، مگر وقت نے انہیں ٹوٹ پھوٹ، خلفشار اور اداروں کی کمزوری کا سبب ثابت کیا۔ یہ ترمیم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی نظر آتی ہے۔ ان استعفوں نے کئی سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ کیا پاکستان میں عدلیہ کی آزادی برقرار رہے گی؟ کیا حکومتی اثر و رسوخ بڑھانے کا سلسلہ مزید آگے بڑھے گا؟ کیا عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر اب نئی عدالت کا سایہ پڑے گا؟ کیا یہ اقدامات ملک کے اندرونی امن، سیاسی استحکام اور جمہوری روایت کو مزید شدید نقصان پہنچائیں گے؟ بدقسمتی سے یہ سوالات محض خدشات نہیں رہے، بلکہ زمینی حقیقت بن رہے ہیں۔ یہ بحران صرف ججوں یا حکومت کا مسئلہ نہیں۔ یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ آئین اور عدلیہ معاشرے کے ستون ہیں۔ ان کے بغیر نہ انصاف قائم رہ سکتا ہے، نہ معاشی استحکام، نہ سیاسی ٹھیراؤ اور نہ عوام کا اعتماد۔ اگر عدلیہ تقسیم ہو جائے، اس پر سیاسی اثر بڑھ جائے، اور حکومتیں آئینی بدنظمی کو معمول بنا لیں، تو پھر نظامِ عدل محض کاغذی بن جاتا ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں ریاستیں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ یہ استعفے پاکستان کی آئینی تاریخ کے سب سے اہم واقعات میں شمار ہوں گے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں اصول، حلف اور آئین کے درمیان ایک فیصلہ کن جدوجہد جاری ہے۔ عدلیہ کی آزادی کی جنگ اب صرف ججوں کی ذمے داری نہیں رہی، یہ قوم، پارلیمان، میڈیا اور سول سوسائٹی سب کا فرض بن چکی ہے۔ تاریخ نے ہمیشہ ایسے ہی موڑوں پر قوموں کی اصل سمت کا تعین کیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھا: ’’تاریخ خاموش رہنے والوں کو نہیں، آئین کی سربلندی کے لیے کھڑے ہونے والوں کو یاد رکھتی ہے‘‘۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان اس تاریخی امتحان میں کس صف میں کھڑا ہوگا، خاموشی کی صف میں یا آئین کی سربلندی کے قافلے میں اور ہماری سیاسی جماعتیں مستقبل میں کس مقام اور سوال کے ساتھ کھڑی ہوں گی؟

اداریہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس اطہر من اللہ عدلیہ کی ا زادی عدالت عظمی کے مطابق انہوں نے عدلیہ کے لکھا کہ کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

وفاقی آئینی عدالت کے 3ججز نے حلف اٹھا لیا

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وفاقی آئینی عدالت کے 3ججز نے حلف اٹھا لیا۔

نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق آئینی عدالت کے ججز میں جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عامر فاروق شامل ہیں،جسٹس علی باقر نجفی نے بھی بطور آئینی عدالت حج حلف اٹھالیا،چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت امین الدین خان نے ججز سے حلف لیا۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • آصف زرداری پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نہیں ہیں، شازیہ مری
  • آئینی عدالت: چیف جسٹس، 3 ججوں نے حلف اُٹھا لیا، 3 جلد اُٹھائیں گے
  • وفاقی آئینی عدالت کے ججوں کی تعداد 13کیے جانے کا امکان
  • وفاقی آئینی عدالت کے 3ججز نے حلف اٹھا لیا
  • آئینی عدالت: ججوں کی تعداد 13 کرنے کے اقدامات زیر غور
  • آئینی عدالت اور عدلیہ کی آزادی
  • لااینڈ جسٹس کمیشن کے رکن مخدوم علی خان عہدے سے مستعفی
  • سپریم کورٹ کے ججوں کے استعفے کا تحریک انصاف کا خیر مقدم،حکومت پر شدید تنقید
  • پارلیمان اور عدلیہ کے اختیارات پر نئی بحث: ’ججز کے استعفے علامتی حیثیت رکھتے ہیں‘