اترپردیش میں مسلم رہنماؤں کی املاک پر بلڈوزر کارروائی، مودی حکومت کا مسلم دشمن چہرہ بے نقاب
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
اترپردیش کے شہر بریلی میں مودی حکومت کے زیر اثر ہندوتوا نظریے کی انتہا نے ایک بار پھر مسلم دشمنی کو بے نقاب کر دیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق، کانپور سے شروع ہونے والے “آئی لو یو محمد” احتجاج کے بعد ریاستی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے حکم پر احتجاج روکنے کی آڑ میں اتحادِ ملت کونسل کے رہنماؤں اور دیگر مسلمانوں کی املاک کو بلڈوزر سے مسمار کر دیا گیا۔ متعدد گھروں کو سیل کر دیا گیا ہے اور بریلی سمیت کئی علاقوں میں پولیس کا محاصرہ جاری ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق، انٹرنیٹ اور براڈ بینڈ سروسز معطل کر دی گئی ہیں، جس کے بعد شہری شدید خوف و بے چینی میں مبتلا ہیں۔ حکام نے اب تک 83 افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ 2000 سے زائد افراد کے خلاف ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ بلڈوزر کارروائی کے بعد مسلم آبادی میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں انتقامی بنیادوں پر کی جا رہی ہیں، جن کا مقصد مسلمانوں کو دبانا اور خوفزدہ کرنا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، مودی حکومت کے ہندوتوا نظریے نے بھارت کو نفرت، خوف اور انتقام کی آگ میں جھونک دیا ہے، جہاں جمہوریت کے لبادے میں آمریت نے جنم لے لیا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے لیے زندگی گزارنا دن بدن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سول سوسائٹی ارکان کی مودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے پر پابندیوں کی مذمت
ضلع بارہمولہ کے اساتذہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے سے گریز کریں ورنہ انہیں ملازمت سے برطرفی سمیت سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں قابض حکام نے لوگوں کے جمہوری حقوق کو سلب کرنے کا ایک اور اقدام کرتے ہوئے ضلع بارہمولہ کے اساتذہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے سے گریز کریں ورنہ انہیں ملازمت سے برطرفی سمیت سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ذرائع کے مطابق چیف ایجوکیشن آفیسر بارہمولہ کی طرف سے جاری کردہ ایک حکم نامے میں تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے غلط استعمال کو پالیسی معاملات میں مداخلت اور 2023ء میں جاری کردہ حکومتی ہدایات کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات پر تادیبی کارروائی کی جائے گی جس میں سرزنش یا جرمانے سے لے کر سروس سے متعلق تادیبی اقدامات شامل ہیں۔
حکم نامے میں تمام عہدیداروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ کسی بھی خلاف ورزی کی اطلاع اعلیٰ حکام کو دیں اور ملازمین کو خبردار کیا گیا کہ وہ آن لائن غیر ضروری بحثوں یا نامناسب مواد کو شیئر کرنے سے گریز کریں۔ سیاسی اور سول سوسائٹی کے رہنمائوں نے اس اقدام پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے لوگوں کی آوازوں کو دبانے اور آزادی اظہار کے بنیادی حق کو سلب کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما وحید پرا نے کہا کہ یہ ہدایت علاقے میں اختلاف رائے کو دبانے کے لئے حکومت کے ظالمانہ اقدامات کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جموں و کشمیر میں اساتذہ کو آواز اٹھانے پر دھمکیاں دینا انتہائی تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو بااختیار بنانے کے وعدے پر برسراقتدار آنے والی حکومت اب باقی بچے ہوئے لوگوں کو خاموش کر رہی ہے۔