کشمیر: جنت نظیر سے ارضِ تنازع تک
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
محمد مطاہر خان
کشمیر، جو کبھی اپنی قدرتی خوبصورتی، شفاف جھیلوں، سرسبز وادیوں اور برف پوش پہاڑوں کے باعث ’’جنت نظیر‘‘ کہلاتا تھا، آج مسلسل تنازعات، انسانی حقوق کی پامالی اور عسکری کشیدگی کی علامت بن چکا ہے۔ اس خطے کی تاریخ صرف جغرافیائی نہیں بلکہ ایک ایسی داستان ہے جو ظلم، جدوجہد اور امید کے سنگم پر کھڑی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا، جب 1947ء میں بھارت نے ریاست پر ناجائز قبضہ کر کے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کر دیا۔ اس کے بعد سے وادی میں آزادی کی تحریک مسلسل جاری ہے، جس میں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دی جا چکی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال ایک نئے موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ اگست 2019ء میں بھارتی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کر کے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ اس اقدام کے بعد بھارت نے ہزاروں اضافی فوجی تعینات کر دیے، انٹرنیٹ اور مواصلاتی نظام بند کر دیا، اور پوری وادی کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا، لیکن بھارت نے کسی بھی عالمی دباؤ کو خاطر میں نہ لایا۔
2025ء میں حالات مزید سنگین ہو چکے ہیں۔ رواں سال اکتوبر میں آزاد جموں و کشمیر کے مختلف شہروں، خصوصاً مظفرآباد، باغ، راولاکوٹ، حویلی اور نیلم میں عوامی احتجاج نے شدت اختیار کر لی۔ یہ احتجاج ’’جموں اینڈ کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی (JAAC)‘‘ کی اپیل پر شروع ہوئے، جن کا بنیادی مطالبہ ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم بند کیے جائیں، لائن آف کنٹرول کے پار کشمیریوں کو انصاف دیا جائے، اور مقامی سطح پر اقتصادی و سماجی حقوق کی ضمانت فراہم کی جائے۔ احتجاجی تحریک کے دوران پولیس اور عوام کے درمیان جھڑپوں میں کئی افراد زخمی ہوئے، جبکہ متعدد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ تاہم مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد تصادم نہیں بلکہ پرامن طریقے سے اپنے حقوق کا مطالبہ ہے۔ ان احتجاجوں نے ایک بار پھر کشمیر کے مسئلے کو عالمی میڈیا میں اُجاگر کر دیا ہے۔ پاکستان نے اس صورتحال پر اپنے مؤقف کو دوٹوک انداز میں دہرایا ہے۔ دفتر ِ خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ مسئلہ کشمیر صرف بات چیت اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے، کسی فوجی طاقت یا یکطرفہ اقدام سے نہیں۔
دوسری جانب بھارت نے حسب ِ معمول احتجاج کو پاکستان کے ’’اشتعال انگیز کردار‘‘ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، لیکن خود بھارتی میڈیا میں بھی آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ کشمیر میں عوامی بے چینی اب قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ نئی دہلی حکومت داخلی سطح پر بڑھتے ہوئے عوامی غصے، معیشت کی سست روی اور عالمی دباؤ سے بھی نبرد آزما ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق، موجودہ حالات میں کشمیر جنوبی ایشیا کی سلامتی کے لیے ایک ’’فلیش پوائنٹ‘‘ بن چکا ہے۔ کسی بھی غلط فیصلے یا اشتعال انگیزی سے پورا خطہ تصادم کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں کنٹرول لائن پر فائرنگ کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن سے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ عالمی سطح پر اگرچہ اقوامِ متحدہ، او آئی سی، اور دیگر ادارے کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش ظاہر کر چکے ہیں، مگر کوئی مؤثر اقدام تاحال سامنے نہیں آیا۔ عالمی طاقتوں کی دوغلی پالیسی اور معاشی مفادات نے مسئلہ کشمیر کو محض ایک بیانیہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ مغربی ممالک خصوصاً امریکا اور یورپ، بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کے باعث کھل کر موقف اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ کشمیری عوام البتہ آج بھی عزم و استقلال کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نوجوان، طلبہ، خواتین، حتیٰ کہ بزرگ شہری بھی اس تحریک کا حصہ ہیں۔ کشمیر کی گلیوں میں آج بھی وہی نعرے گونجتے ہیں جو کئی دہائیوں سے لبوں پر ہیں ’’ہم کیا چاہتے؟ آزادی!‘‘
اس تنازعے نے نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی اور سماجی اثرات بھی مرتب کیے ہیں۔ مقبوضہ وادی کی معیشت تباہ ہو چکی ہے، سیاحت کا شعبہ جو کبھی کشمیر کی شناخت تھا، مکمل طور پر منجمد ہے۔ تعلیمی ادارے مسلسل بندشوں کا شکار ہیں، اور ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کی گمشدگیوں کے غم میں مبتلا ہیں۔ آزاد کشمیر میں بھی حالات مکمل طور پر پرامن نہیں۔ JAAC کی تحریک نے حکومت کو مجبور کیا ہے کہ وہ عوامی مطالبات پر توجہ دے۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق وہ احتجاج کے سیاسی حل کے خواہاں ہیں، مگر مظاہرین کا کہنا ہے کہ وعدوں کے بجائے عملی اقدامات کیے جائیں۔ بین الاقوامی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر جنوبی ایشیا کو پائیدار امن درکار ہے تو مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ کشمیری عوام کو حق ِ خودارادیت دینا اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ان کا بنیادی حق ہے۔ کشمیر کی کہانی محض ایک خطے کے تنازعے کی نہیں بلکہ انسانیت کی بقاء کی کہانی ہے۔ یہ ایک ایسی جدوجہد ہے جو ظلم کے اندھیروں میں امید کی شمع جلائے ہوئے ہے۔ اگر عالمی برادری نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی امن بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ کشمیر کے عوام آج بھی اپنی زمین، شناخت اور آزادی کے لیے پرعزم ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی قوم کی روح بیدار ہو جائے، تو کوئی طاقت اسے غلام نہیں رکھ سکتی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کشمیر کے بھارت نے کشمیر کی حقوق کی کر دیا
پڑھیں:
بھارت کے ساتھ تنازع کا خطرہ برقرار ہے: وزیر دفاع
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بار پھر بھارت کے ساتھ کشیدگی اور ممکنہ جنگ کے خطرے پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں امن ابھی مکمل طور پر قائم نہیں ہوا ہے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے واضح کیا کہ بھارت کے ساتھ حالیہ تاریخ میں پیدا ہونے والی کشیدگی محض اتفاقی نہیں، بلکہ یہ ایک دیرینہ پراکسی وار کا تسلسل ہے جو دہائیوں سے جاری ہے اور جدید جنگی حکمت عملی کا ایک اہم آلہ بن چکی ہے۔
خواجہ آصف کے مطابق پراکسی وار میں حالیہ برسوں میں شدت آئی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ یہ پراکسی وار 1980 کی دہائی میں شروع ہوئی، جس کے دوران لاہور اور راولپنڈی میں کئی دھماکے ہوئے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ایک اور جنگ کا خطرہ مئی کی جنگ کے فوراً بعد بھی موجود تھا اور آج بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ بھارت کے خلاف پاکستان کی حالیہ کامیابی کی تصدیق بین الاقوامی سطح پر بھی ہوئی ہے، اور امریکہ نے اس دوران مداخلت کر کے بڑے تصادم کو ٹالنے میں کردار ادا کیا۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ مئی میں ہونے والے معرکہ حق میں پاک فضائیہ نے بھارت کو سخت ہزیمت سے دوچار کیا، جس میں رافیل سمیت سات بھارتی طیارے تباہ کیے گئے اور ایس 400 دفاعی نظام کو بھی ناکارہ بنایا گیا۔
خواجہ آصف کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں امن کی صورت حال ابھی نازک ہے اور بھارت کے ساتھ کشیدگی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی، اس لیے حکام مسلسل چوکس رہنے اور دفاعی تیاریوں کو مضبوط رکھنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔