کراچی میں بھتہ خوری کے پیچھے کون ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
پاکستان کا معاشی حب کراچی ہے، اور کراچی کا معاشی مرکز اولڈ سٹی ایریا — ایک ایسا تجارتی علاقہ جو کئی دہائیوں سے کاروبار کا سمندر اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ علاقہ چلتا ہے تو کراچی چلتا ہے، اور یہ رکتا ہے تو شہر کا پہیہ بھی رک جاتا ہے۔
یوں تو ’اولڈ سٹی ایریا‘ کا نام ہی پرانے شہر کی جھلک پیش کرتا ہے، مگر یہاں ہر نوعیت کا کاروبار ملتا ہے۔ سستی اشیا سے لے کر قیمتی سامان تک، ہر چیز کا مرکز یہی علاقہ ہے۔ انہی بازاروں میں میمن مسجد کے قریب واقع عالم کلاتھ مارکیٹ ملک بھر میں کپڑے کے سب سے بڑے کاروباری مراکز میں سے ایک ہے۔
ایک وقت تھا جب اس علاقے کے تاجر کم کماتے اور بھتہ زیادہ دیتے تھے۔ بعد ازاں شہر میں امن و امان کی بحالی کے لیے ایک بڑا آپریشن ہوا جس کے نتیجے میں بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ عناصر کو پسپا ہونا پڑا۔ تاجروں اور شہریوں نے سکون کا سانس لیا اور یہ امید کی کہ اب کاروبار امن سے چلے گا۔ مگر ایسا زیادہ دیر تک نہ ہو سکا۔
بھتے کی پرچیاں اور نئی دھمکیاںگزشتہ چند ہفتوں کے دوران عالم کلاتھ مارکیٹ کے متعدد تاجروں کو دوبارہ بھتے کی پرچیاں اور گولیوں کے ساتھ دھمکی آمیز پیغامات ملنے لگے۔ اولڈ سٹی ایریا تاجر اتحاد کے صدر ایس ایم عالم کے مطابق ’یہ سلسلہ 2 ہفتے قبل شروع ہوا، مختلف تاجروں کو واٹس ایپ پر 10 سے 20 لاکھ روپے تک کے بھتے کے مطالبے موصول ہوئے اور انکار کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے شکایات کے ساتھ تھانہ کھارادر سے رابطہ کیا، پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا ہے۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق بیرونِ ملک کی سم کے ذریعے پیغامات بھیجے جا رہے تھے، جسے ٹریس کر کے زخمی حالت میں پکڑا گیا‘۔
ایس ایم عالم نے یاد دلایا کہ ’2013 میں بھتہ نہ دینے پر مجھ پر دستی بم پھینکا گیا تھا، اس وقت یہاں لاشیں گرتی تھیں۔ اگر اب بھی بروقت کارروائی نہ کی گئی تو حالات دوبارہ بگڑ سکتے ہیں‘۔
پولیس کا مؤقفایس ایچ او کھارادر پہنور کمار کے مطابق ’ہم اولڈ سٹی ایریا کے تاجروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے اور تاجروں سے کہا گیا ہے کہ اپنے ملازمین کا مکمل ڈیٹا فراہم کریں کیونکہ غالب امکان ہے کہ بھتہ خوروں کو معلومات اندرونی ذرائع سے مل رہی ہیں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ کوئی منظم گینگ وار نہیں بلکہ ناتجربہ کار افراد کا نیا گروہ ہے۔ ایک گرفتاری ہو چکی ہے اور مزید گرفتاریاں جلد ہوں گی۔ تاجروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا‘۔
رینجرز کے اختیارات بحال کرنے کا مطالبہتاجر رہنما عتیق میر نے مطالبہ کیا کہ رینجرز کو دوبارہ فعال کردار دیا جائے۔ ان کے مطابق اس شہر سے بھتہ خوری کا خاتمہ رینجرز نے کیا تھا، اور اب یہی ادارہ دوبارہ اس سلسلے کو روک سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں گینگ وار گروہ بھتہ خوروں کی سرپرستی کرتے تھے۔ اب کچھ لوگ بیرونِ ملک بیٹھ کر مقامی افراد کو استعمال کر رہے ہیں جو مارکیٹوں میں کام کرتے یا قریب کے علاقوں میں رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ کون سا تاجر زیادہ رقم دے سکتا ہے، کس سے دھمکی کا اثر ہوگا، اور کس وقت کال کرنی ہے۔ کئی بار بھتہ خور تاجر کو یہ تک بتاتے ہیں کہ وہ اس وقت اپنے بچے کے ساتھ کہاں موجود ہے۔ ایسے حالات میں ہر کوئی اعصابی طور پر مضبوط نہیں ہوتا، اکثر لوگ خوف کے باعث پیسے دے دیتے ہیں — اور یہی بھتہ خوروں کی حوصلہ افزائی بن جاتا ہے۔
اعداد و شمار کیا بتاتے ہیں؟اے آئی جی آپریشنز کی جانب سے آئی جی سندھ کو پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق رواں سال کراچی میں مجموعی طور پر 118 بھتہ خوری کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
ان میں سے 44 کیسز حقیقی بھتہ خوری سے متعلق تھے، جن پر باقاعدہ تحقیقات ہوئیں، جبکہ 74 شکایات کاروباری یا ذاتی تنازعات سے جڑی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق 44 میں سے 39 کیسز حل کر لیے گئے، یعنی 87 فیصد۔ ان میں 78 ملزمان کی نشاندہی ہوئی، جن میں سے 43 گرفتار اور 5 پولیس مقابلوں میں مارے گئے۔
گزشتہ ہفتے آئی جی سندھ سے تاجربرادری کی ملاقات کے بعد صرف 10 دنوں میں 4 بھتہ خور پولیس مقابلے میں ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں عابد ہادی، سعید، غلام قادر اور کاٹھیاواڑی گروپ کا احتشام عرف آصف برگر شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھتہ بھتہ خوری رینجرز عتیق میر کراچی کراچی پولیس کھارادر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھتہ بھتہ خوری عتیق میر کراچی کراچی پولیس کھارادر بھتہ خوروں بھتہ خوری کے مطابق کے ساتھ
پڑھیں:
لوگ اسٹیج فنکاروں کے پیچھے چھپی مجبوریوں اور دکھوں سے بےخبر رہتے ہیں، نسیم وکی
پاکستان شوبز انڈسٹری کے سینئر اداکار نسیم وکی نے کہا ہے کہ لوگ اسٹیج فنکاروں کے پیچھے چھپی مجبوریوں اور دکھوں سے بےخبر رہتے ہیں۔
پاکستان شوبز انڈسٹری کے سینئر اداکار نسیم وکی نے اپنے ایک انٹرویو میں اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے والے فنکاروں کی پریشان کن حقیقت سے پردہ اٹھایا۔ انہوں نے تین دہائیوں کے اپنے تجربے کی روشنی میں اسٹیج ڈانسرز کی زندگیوں میں چھپے ہوئے پہلوؤں کو آشکار کیا۔
نسیم وکی نے کہا کہ اسٹیج پر نظر آنے والے کئی افراد اپنے بیمار والدین، کینسر جیسے امراض کے شکار گھر والوں یا بڑے خاندان کا خرچ اٹھانے کے لیے مجبوراً یہ کام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آخر ایک لڑکی کیوں اس طرح اسٹیج پر رقص کرے گی اگر اس کے پیچھے کوئی بڑی مجبوری نہ ہو؟
نسیم وکی نے کہا کہ لوگ صرف اسٹیج پر دکھائی دینے والی فحاشی کو دیکھتے ہیں۔ مگر ان فنکاروں کے پیچھے چھپی مجبوریوں اور دکھوں سے بے خبر رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر اسٹیج ڈانسرز اور ان کے ساتھ کام کرنے والے نوجوان انتہائی پسماندہ اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ فحاشی کا دفاع نہیں کر رہے لیکن ان کا ماننا ہے کہ انتہائی غربت اور مجبوری ہی فنکاروں کو ان راستوں پر لے جاتی ہے۔
سینئر اداکار نے کہا کہ میری اہلیہ خود ایک اسٹیج آرٹسٹ تھیں۔ لیکن شادی کے بعد میں نے انہیں یہ پیشہ چھوڑنے کو کہا۔ میں ہمیشہ خواتین کو کسی بہتر اور باعزت پیشے کی طرف رہنمائی کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔