اداکارہ و لکھاری امر خان نے انکشاف کیا ہے کہ شوبز انڈسٹری میں فنکاراؤں کے ٹیلنٹ سے زیادہ ان کے خدوخال کو اہمیت دی جاتی ہے۔

امر خان نے حال ہی میں یوٹیوب پروگرام ’نیور مائنڈ‘ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے زندگی، دوستی اور شوبز انڈسٹری کے بارے میں کھل کر گفتگو کی۔

امر خان کا کہنا تھا کہ سچا دوست وہی ہوتا ہے جس کے ساتھ انسان بلاوجہ کی فضول باتیں بھی کرسکے، کیونکہ آج کے دور میں سوشل میڈیا نے دوستی کو دکھاوا بنا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دو منہ والے سانپ سے بچنا آسان ہے لیکن دو منہ والے انسان سے بچنا بہت مشکل ہے، خاص طور پر شوبز انڈسٹری میں ایسے لوگوں سے واسطہ زیادہ پڑتا ہے۔

ان کے مطابق عام انسانوں کے دو چہرے ہوتے ہیں مگر اداکاروں کے سو چہرے ہوتے ہیں، وہ ظاہر کچھ اور کرتے ہیں لیکن حقیقت میں کچھ اور ہوتے ہیں۔

امر خان نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انہیں کئی بار دوسری شادی کی پیشکشیں ہوچکی ہیں، لیکن انہوں نے کبھی کسی کی دوسری بیوی بننے کا خیال دل میں نہیں آنے دیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ عورت اپنے پسندیدہ مرد کا جینا مشکل کردیتی ہے اور وہ بھی کسی کے ساتھ ایسا کرچکی ہیں، تاہم انہوں نے اس شخص کا نام ظاہر نہیں کیا۔

امر خان کا کہنا تھا کہ شوبز انڈسٹری میں فنکاراؤں کے ٹیلنٹ سے زیادہ ان کے خدوخال کو اہمیت دی جاتی ہے۔

آخر میں انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ابھی ان کا کوئی سسرال نہیں، لیکن وہ چاہتی ہیں کہ ان کے مستقبل کے شوہر میں رومانوی خصوصیات ضرور ہوں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: انہوں نے

پڑھیں:

مایوسی نا انصافیوں کا لازمی نتیجہ ہوتی ہے!

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
۔۔۔۔۔

ہماری تہذیب کی کہانی کا آغاز تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح کے یونانیوں سے ہوتا ہے، ان سے پہلے اور ان کے زمانے میں اور بھی تہذیبیں موجود تھیں جو ان سے زیادہ عظیم الشان اور جلیل القدر تھیں لیکن اس زمانے میں صرف یونانی ہی تھے جو ”سوچتے ”تھے، ان کی سوچ گہری اور مسلسل ہوتی تھی۔ حالانکہ وہ چاروں طرف سے ”وحشیوں” میں گھرے ہوئے تھے، وحشی سے مراد ایسی قوتیںتھیں جو تقاضائے عقل کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتی تھیں ۔ ایک بہت بڑے مفکر نے دنیا کی تہذیبی ترقی پریو نانیوں کے اثرات کا بیان ایک لفظ میں کیا ہے اور اس نے اس لفظ کی تشریح میں تین موٹی موٹی جلدیں لکھیں اس مفکر کا نام ورنر جیگر ہے۔ اس نے بتا یا کہ لفظ
” پائیڈیٹا” یونان کے تہذیبی اثرات کوپور ے طورپر بیان کردیتا ہے ۔ اس کتاب کا نام ”پائیڈیٹا ”یونانی ثقافت کا نصب العین ہے ۔ کتاب جر من زبان میں لکھی گئی ،اس کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہو چکا ہے ۔ پائیڈیٹا یونانی زبان میں تعلیم کو کہتے ہیں لیکن اعلیٰ ترین سطح پر اسکے معنی تہذیب وثقافت کے ہیں۔ دراصل یونانیوں کے نزدیک تمام تہذیب و ترقی کی اسا س تعلیم پر تھی۔ یونانی اچھی طرح جانتے تھے کہ زندگی کی اعلیٰ ترین قدر کون سی ہے۔ ان کی تمام عظیم شخصیتوں نے اس قدر کی جستجو اور حصول میں اپنی زندگیاں صرف کر دیں اور یہ قد رتھی ذہن کی نشو ونما ۔ وہ چاہتے تھے کہ انسانوں کو سوچنے سمجھنے کے قابل بنائیں ۔ یونانیوں نے پہلے ایک دوسرے کو سو چنے ، بولنے اور لکھنے کی تعلیم دی اور پھر ساری مغربی دنیا کو اپنا علم سکھا یا۔ دانتے کی ڈیوا ئن کا میڈی میں شاعر تصور میں دوزخ کی سیر کرتا ہے، اسی
دو زخ میں تین طبقے ہیں جن میں بے اعتدالی کر نے والوں ، ظلم و ستم کر نے والوں اور فریب کاروں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ دانتے کا یہ تصور ارسطو کے مجوزہ اخلاقی نظام پرمبنی ہے ۔ شیکسپیئر کے المیہ ڈرامے میکبتھ کو پڑھ کر سو چنے پر مجبور ہواجاتا ہے کہ المیہ کی ہیئت اور اسی کی بنیادی مغو یت یونانی شاعروں کی تخلیق ہے ۔توازن قوت کا نظریہ جس پر امریکی آئین کی بنیاد رکھی گئی ہے سب سے پہلے ایک یونانی مورخ نے مرتب کیا تھا۔ یونانی مفکروں نے ہی سب سے پہلے انسانی اخوت کا شاندار نصب العین دنیا کے سامنے رکھا۔
یونانیوں کے سب سے پہلے شاگرد رومن تھے۔ رومن فلسفیا نہ غور و فکر سے عاری تھے ۔ ان کے پاس اعلیٰ پائے کا ادب تھا نہ علوم ۔ ان کی زبان میں قوت اور لچک تو تھی لیکن حسن نہ تھا۔ یو نا نیوں سے تعلیم اور علم حاصل کرنے کے بعد ان میں خو بیاں پیدا ہوئیں جو خود یونانیوں میں بھی موجود تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یونان کی ثقافت یونان میں مٹنے کے بعد ایک بار پھر اٹلی میں پھلی پھولی ۔ یایوں کہیے کہ ایک نئی ثقافت پیدا ہوئی جسے یونانی رومن تہذیب کانام دیا جا سکتاہے۔ لیکن عظیم الشان اورعقل افروز تہذیب کیوں کرفنا ہوگئی ؟ یہ کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا ۔ خود رومن نہیں جانتے تھے کہ ان کی تباہی کا سبب کیا ہے ؟ تاہم ایک بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ پہلے اس کا مغربی حصہ زوال پذیر ہوا جس میں رومن بولی جاتی تھی مشرقی حصہ جس میں یونانی زبان رائج تھی، اپنے آپ کو بیرونی حملوں کے باوجود مزید ایک ہزار سال تک برقرار رکھ سکا ۔ آگے چل کر پستی کی انتہا ہو جاتی ہے لیکن پستی بھی ہمیشہ قائم نہیں رہتی ۔ زمانہ وسطی کو زمانہ تاریک کے نام سے یا د کیا جاتاہے لیکن یہ حالات زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکے۔ شہروں میںلٹیروں اور ڈاکوئو ں کا راج تھا جو اپنی فہم سے بالا ترہر چیز کو تباہ کر دیتے تھے ۔ حکمرانوں اور کلیسیا نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا کے رکھ دیں ۔ اس کے باوجود کچھ مفکر اورفلسفی پر امن علاقوں میں چلے گئے اورتعلیم و علم میں مصروف ہوگئے انہوں نے پرانی کتابیں ڈھونڈھ نکالیں اور ان کی نقول تیار کیں ۔اسی طرح وہ قدیم علوم کو محفو ظ کرنے میں کامیاب ہوئے ۔اس طرح آہستہ آہستہ ٹو ٹی پھوٹی ذہنی دنیا کی تعمیر دوبارہ شروع ہوئی۔ پھر ان گنت قربانیوں اور جدو جہد کے بعد مغربی دنیا آہستہ آہستہ تاریکی کے دور سے نکل آئے۔ جیسے ان کے اجداد بھی تاریک دورسے نکل آئے تھے ۔ جب ہم یورپ اور امریکہ کے فلسفیانہ اور مذہبی فکر کی نشو ونما کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مفکروں کی چالیس نسلوں نے سقراط ، افلاطون اور ارسطو کے ذہنی سر مائے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ دوسری تہذیبیں چینی ، مصری ، ایرانی ، اسلامی ، ہندو ، امریکی انڈین بھی باطی اور ذہنی ارتقا کی عظیم الشان کہا نیاں سناتی ہیں ۔ کسی ایک تہذہب کی کہانی محض اس کی مادی اور ذہنی ترقی کی کہانی نہیں ہوتی بلکہ اس کے فکر اور تعلیم و علم کے ارتقا کے بیان پر مشتمل ہوتی ہے ۔ اس طرح جب ہم ساری نوع انسان کی تاریخ مرتب کریں تو کرہ ارض پر خیالات کے دھاروں کو ایک تہذیب سے دوسری تہذیب میں آتے جاتے دیکھتے ہیں ۔ انسانی تاریخ کی تشریح محض سیاسی و معاشی نقطہ نظر سے نہیں کی جاسکتی بلکہ اس کا پورا مفہوم اس صورت میں واضح ہوسکتا ہے کہ انہیں اعمال ذہنی کی حیثیت سے دیکھا جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ آج ہم ذہنی، سیاسی، سماجی اور معاشی پستی کی انتہا سے بھی آگے جاچکے ہیں ،پورا ملک مایوسی کے نرغے میں آچکا ہے۔ ہم میں اور یونان اور روم میں یہ واضح فرق ہے کہ ہم ان کے مقابلے میں اپنی پستی کی انتہاپر پہنچنے کی مکمل معلومات اور علم رکھتے ہیں ہم اپنے مجرم آپ ہی ٹہرے ہیں ۔جب آپ اخلاقی طور پر تباہ و برباد ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد لازماً معاشی ، سیاسی اور سماجی بربادی آتی ہے ۔ جو قوم لکھنا ، پڑھنا اور سو چنا چھوڑ دیتی ہیں ، ان کو فنا ہونے سے کوئی نہیں روک پاتا ہے۔ بھوک ،افلاس ، غربت ،مہنگائی ،بے روزگاری ، گھٹن ، حبس، مایوسی ناانصافیوں کا لازمی نتیجہ ہوتی ہیں۔ اور انقلاب اور بغاوت ان کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ آج کے پی کے اور بلوچستان کے حالات کو نظر انداز کرنا ایک اور بہت بڑی غلطی ہوگی ۔ پنجاب اور سندھ میں بے چینی اپنی آخری حدوں کو چھورہی ہے۔ پورے ملک میں اخلاقیات اور انسانیت ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ہیں ۔ Madame Bovary فلابئیر کا عظیم ناول ہے جو 1857 میں شائع ہوا۔ Baudelaireنے ”فن کا ر” اکتوبر 1857 کے شمارے میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ فلا بئیر نے اپنے پہلے ہی ناول میں جوکچھ کردکھا یا ہے وہ دوسرے ناول نگار زندگی بھر میں حاصل نہیں کرپاتے ہیں ۔اسے جس سماج سے سابقہ پڑا اس میں اخلاقی زوال کے ساتھ ساتھ بسیار خوری اور دولت کی پر ستش عام تھی اور زندگی کی اعلیٰ قدر یں ختم ہوچکی تھیں۔ اس دور کے لوگوں کو ہر اس چیز سے نفرت تھی جس میں نیکی اور خیر کی خوشبو آرہی ہو۔ کہتے ہیں وقت کا پہیہ ہمیشہ آگے بڑھتاہے۔ لیکن جب ہم اپنے سماج کو دیکھتے ہیں تو یہ سو چنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ وقت کا پہیہ پیچھے کی طرف بھی سفر کرتاہے۔ آج ہمیں ان ہی حالات و واقعات کا سامنا ہے جن کا سامنا صدیوں پہلے یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم ان حالات کو جلد شکست دیتے ہیں یا پھر یورپ کے لوگوں کی طرح صدیوں بعد ان حالات کے جہنم سے نکلتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت امریکی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خواب نہ دیکھے، ایم ڈبلیو ایم
  • کپل شرما کیرئیر کے ابتدا میں 45 سال کے لگتے تھے، لیکن ٹیلنٹ نے سب بدل دیا، سدھو
  • بھیک لیا کرو بھیک دیا کرو
  • بھارت ،بیوی کو ’’ناگن‘‘ بتانے والا دوسری شادی کا خواہشمند نکلا
  • طوفان الاقصی، فلسطین سے ماوراء حقیقت
  • جھٹکے آتے رہیں گے لیکن یہ نظام چلے گا‘ رانا ثنا
  • مایوسی نا انصافیوں کا لازمی نتیجہ ہوتی ہے!
  • سیاست اور کھیل
  • پیپلزپارٹی کا کھیل