بھارتی فلم انڈسٹری اب مکمل نقالی پر چل رہی ہے، نادیہ خان
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
ٹیلی ویژن میزبان اور اداکارہ نادیہ خان نے بالی ووڈ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری اب مکمل طور پر بیرونی مواد کی نقالی پر چل رہی ہے۔
اپنے پروگرام میں فلم ’’چوہدری‘‘ کی پروڈیوسر نِیہا لاج سے گفتگو کرتے ہوئے نادیہ نے کہا کہ 2022 میں بننے والی پاکستانی فلم کی کہانی کو اب بالی ووڈ سنجے دت کے ذریعے دوبارہ پیش کر رہا ہے جو براہِ راست نقالی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت پر بین الاقوامی مواد کا جنون سوار ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ انڈسٹری کی اپنی تخلیقی صلاحیت ختم ہوچکی ہے۔ نہ معیاری فلمیں بن رہی ہیں اور نہ اچھے گانے سامنے آرہے ہیں۔
نادیہ خان نے کہا کہ بھارتی سینما اب حب الوطنی کی فلمیں بنانے کی ہمت بھی نہیں رکھتا، کیونکہ عوام خود ان باتوں کا مذاق اڑانے لگے ہیں، اسی لیے اب لیاری جیسے پاکستانی موضوعات کو اٹھایا جا رہا ہے۔
نادیہ خان نے چوہدری اسلم کی شخصیت کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ وقار اور خود اعتمادی کی علامت تھے۔ سنجے دت ایک بہترین اداکار ہیں لیکن ظاہری شخصیت کے لحاظ سے وہ چوہدری اسلم کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
فلور انڈسٹری میں تنظیمی تقسیم؟
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چند روز قبل اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ ’’پنجاب پاکستان کی فوڈ باسکٹ ہے‘‘،مریم بی بی نے یہ جملہ پنجاب میں گندم کی بڑی کاشت اور پیداوار کے تناظر میں بولاہے کیونکہ گندم آٹا پاکستان کی بنیادی غذا ہے اور پنجاب70 فیصد کے لگ بھگ گندم پیدا کرتا ہے ۔پنجاب میں تقریبا40 برس تک گندم کی سرکاری خریدوفروخت کا نظام لاگو رہا ہے ۔خوشہ گندم کے کھیت سے دوکان تک سفر کا ہر سنگ میل کرپشن اورمنافقت کے کانٹوں سے بھرا ہوا ہے۔
اس اذیت ناک سفرمیں سب سے زیادہ ’’SUFFER ‘‘کسان اور صارف نے کیا ہے۔ ماسوائے چند برس کے جن میں کسان کو کچھ بہتر قیمت مل گئی ورنہ کسان کو اپنے کھیت میں اپنی فصل کی منصفانہ منافع بخش قیمت نہیں مل سکی ہے،بیوپاریوں نے ہمیشہ اس کا استحصال کیا ہے،جب کبھی کسان نے براہ راست گندم محکمہ خوراک کو فروخت کرنے کی کوشش کی تو کبھی اسے ’’باردانہ بوری‘‘ کے حصول کے لیے علاقہ پٹواری سے گرداوری بنوانے کے لیے رشوت دینی پڑی، کبھی فوڈ سینٹر والے کی جیب گرم کرنا پڑی، باردانہ میں گندم بھر کر سینٹر پر گیا تو ’’کوالٹی اور نمی‘‘ کا اعتراض لگا کر ایک سو کلو گرام گندم پر ایک کلو یا اس سے زیادہ گندم بطور’’بھتہ‘‘ دینا پڑی ،کسی اصول پسند کسان نے بھتہ دینے سے انکار کیا تو اس کی ٹرالی سینٹر کے باہر کئی دنوں تک روک کر ’’سزا‘‘ دی گئی اور پھر ’’جرمانہ‘‘ بھی دوگنا وصول کیا گیا ۔
فلورملز کو سرکاری گندم اجراء کا وقت آیا تو فوڈ والے ’’استادوں‘‘ نے دن دوگنی رات چوگنی کمائی کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا، کبھی گندم کی بوریوں میں ریت مٹی کی ملاوٹ اور کبھی ’’مصنوعی بارش‘‘ برسا کر آمدن بڑھائی گئی لیکن محدود تعداد میں فلورملز کو چھوڑ کر باقی سب مل مالکان نے اپنے گھاٹے پورا کرنے کے طریقے نکال رکھے تھے۔
سیکڑوں ایسی فلورملز ہیں جو محکمہ خوراک کی گندم لے کر اسے اوپن مارکیٹ میں فعال فلورملز کو فروخت کرکے ’’خالص منافع‘‘ کماتی تھیں ،نہ بجلی کا بل، نہ ملازمین کی تنخواہوں کا خرچہ۔سرکاری گندم کی فروخت میں تو انڈسٹری کے بعض اہم ترین گروپ لیڈرز بھی ملوث رہے ہیں لیکن چونکہ اس وقت محکمہ خوراک ان سب کا ’’کانا‘‘ ہوا کرتا تھا اس لیے سب کچھ جانتے دیکھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کر لی جاتی تھیں،سرکاری طور پر مقرر کردہ پسائی کی شرح پر مکمل عملدرآمد کرنے کا تو رواج ہی نہیں تھا، رمضان پیکیج کے نام پر سرکاری محکموں، ضلعی انتظامیہ اور فلورملز کو’’بونس کرپشن‘‘ کا موقع مل جاتا تھا۔ پنجاب حکومت کی سبسڈی والے آٹا کے سبز تھیلے دن کو جمع کر کے ری پیکنگ کے بعد خیبر پختونخوا کو بھیج کر ایک ہی رات میں کروڑوں روپے کما لیے جاتے تھے ۔
ہمارے آٹا ڈیلرز اور دوکانداروں نے بھی خوب مزے لوٹے، اوورچارنگ تو عام تھی لیکن جب کبھی مصنوعی قلت ہوتی تو ان سب کی دن کے وقت بھی چاند رات ہو جاتی تھی ۔یہی وہ لوٹ مار تھی جس نے پنجاب میں ضرورت نہ ہونے کے باوجود فلورملز کی تعداد میں سیکڑوں کا اضافہ کیا تھا ۔فلورملز ایسوسی ایشن آج بند پڑی فلورملز کی ’’وکالت‘‘ میں انھیں کاروبار کا موقع دینے کا مطالبہ کر رہی ہے مگرعام آدمی یہ سوال کر رہا ہے کہ ان ملز نے اپنے مالی نظام کے تحت بزنس ماڈل کیوں نہیں بنایا، جیسے ہی سرکاری کوٹہ کی بہار ختم ہوئی ان سیکڑوں ملز پر خزاں کیوں چھا گئی ۔اگر حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں تو پھر حکومت کا یہ بھی کام نہیں کہ سرکاری وسائل کے سہارے کسی کو کاروبار کروانے کا بندوبست کرے اور وہ بھی ایسے لوگوں کو جنھوں نے ماضی میں سرکاری وسائل کو گدھ کی مانند نوچا ہو۔
پنجاب میں اس وقت فلورملز کی مجموعی تعداد 1200کے لگ بھگ ہے اور ان کی گندم پسائی کی استعداد آیندہ 50 برس کے لیے وافر ہے۔فلورملنگ انڈسٹری کے قائدین میں شمار ہونے والے عاصم رضا متعدد انٹرویوز اور تقاریب میں یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ فلورملز ضرورت سے زیادہ لگائی گئیں مگر کاش کسی مراسلے کے ذریعے وفاق اور پنجاب حکومت کو ملز کی اس غیر فطری بڑھوتری پر پابندی لگانے کی تجویز پیش کی جاتی۔
ان دنوں تو فلورملز انڈسٹری کے رہنماؤں کو خوشی ہوا کرتی تھی کہ زیادہ تعداد میں فلورملز لگیں تاکہ ان کے ووٹ بن سکیں اور فلورملز ایسوسی ایشن کے انتخابات میں ’’بلا مقابلہ‘‘ فتح کو جاری رکھا جا سکے لیکن کسی رہنما نے اپنی انڈسٹری کو مستقبل میں پیش آنے والے مسائل اور چیلنجز کا ادراک کیا نہ ہی کسی نے قومی وسائل کے ضیاع کی پرواہ کی اور نہ کسی رہنما نے یہ سوچاکہ جس دن سرکاری کوٹہ کی خیرات بٹنا بند ہوگئی تو کوٹہ کے سہارے چلنے والے مل مالکان کشکول لے کر کہاں جائیں گے۔عالمی مالیاتی ادارے کی تین سال قبل نشاندہی کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے طے کر لیا تھا کہ گندم کی سرکاری خریدو فروخت کو مرحلہ وار ختم کیا جائے گا کیونکہ یہ نظام ماسوائے کرپشن، لوٹ مار، بے قاعدگیوں اور ہیرا پھیریوں کے کچھ نہیں۔
سرکاری خریداری تو دو سال سے ختم کردی گئی ہے اور نجی شعبے کے اشتراک سے ایک نیا خریداری نظام آیندہ برس متعارف کروایا جائے گا جو کسانوں کو اپنی گندم’’ہولڈ‘‘ کر کے وہ قیمت مہیا کر نے کا ذریعہ بنے گا جو بڑے بیوپاری یا بڑی فلورملز سستی گندم خریدکر چند ماہ بعد کماتے ہیں۔اس وقت پنجاب میں محکمہ خوراک کے پاس ساڑھے آٹھ لاکھ ٹن سرکاری گندم موجود ہے جس کا باضابطہ اجراء آیندہ ماہ ہوگا جب کہ اس وقت محکمہ خوراک ان نجی کمپنیوں کے پاس موجود نجی گندم فعال فلورملز کو3225 روپے فی من قیمت پر دلوا رہا ہے جو کہ ان کمپنیوں نے کسانوں سے سستے داموں خرید کر اس امید پر ذخیرہ کی ہوئی ہے تاکہ چارہزار میں بیچ سکیں۔ نجی گندم فراہمی درحقیقت وہ تنازعہ ہے جس نے ایک جانب فلورملز ایسوسی ایشن کے رہنماؤں اور حکومت کے درمیان ایک سرد جنگ شروع کر رکھی ہے تو دوسری جانب پنجاب کی فلورملنگ انڈسٹری ’’فعال‘‘ اور’’غیر فعال‘‘ کے دھڑوں میں واضح تقسیم ہو چکی ہے۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز تو بہت اٹل ارادہ کر چکی ہیں کہ کوٹہ گروپ کے کسی دباؤ اور بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گی اسی لیے انھوں نے سیکریٹری پرائس کنٹرول ڈاکٹر کرن خورشید اور ڈی جی امجد حفیظ کو ’’فری ہینڈ‘‘ دے رکھا ہے اور انھیں بھی ہدایت کی ہے کہ کسی دباؤ میں کوئی عوام دشمن یا قومی خزانہ دشمن پالیسی نہ بنائی جائے۔ جہاں تک فلورملنگ انڈسٹری کی تقسیم کا معاملہ ہے تو وہ بہت سنجیدہ رخ اختیار کر رہا ہے۔یہ واضح دکھائی دے رہا ہے کہ فلورملز ایسوسی ایشن کا پلیٹ فارم اس وقت عملی طور پر غیر فعال فلورملز کو ’’موقع‘‘ دلوانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے جب کہ فعال ملز کے حق کی بات نہیں ہو رہی۔