شرم الشیخ میں امن سربراہ کانفرنس
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں منعقدہ غزہ امن سربراہ کانفرنس میں اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ امن معاہدے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اور مصر، قطر اور ترکیہ کے سربراہان نے دستخط کر دیے۔ کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم شہباز شریف نے کی جب کہ دیگر شرکا میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس، عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیط، فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان، برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر، انڈونیشیا کے صدر پرابوو سوبیانتو، یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا، جرمنی کے چانسلر فریڈرک مرز شامل تھے۔ اس کے علاوہ اسپین کے وزیر ِاعظم پیڈرو سانچیز، کویت کے وزیر ِاعظم احمد العبداللہ الصباح، اٹلی کی وزیر ِاعظم جارجیا میلونی، کینیڈا کے وزیر ِاعظم مارک کارنی اور عراق کے وزیر ِاعظم محمد شیاع السودانی بھی غزہ امن کانفرنس میں شریک تھے۔ قبل ازیں غزہ امن معاہدے کے تحت فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے تمام 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا جب کہ اسرائیل کی جانب سے 1968 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔ عرب میڈیا رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ حماس نے پہلے مرحلے میں 7 اورہ دوسرے مرحلے میں 13 یرغمالیوں کو رہا کیا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس آج 28 یرغمالیوں کی لاشوں کو بھی اسرائیل کے سپرد کرے گی جب کہ 1968 فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں سے بسوں میں سوار ہو کر غزہ اور فلسطین کے مغربی کنارے پہنچے۔ سربراہ کانفرنس کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے یہ پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں کہ تیسری عالمی جنگ مشرقِ وسطیٰ سے شروع ہوگی، مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ برسوں کی تباہی و بربادی اور خونریزی کے بعد غزہ میں جنگ اب ختم ہوچکی ہے، انسانی امداد وہاں پہنچ رہی ہے، اور خوراک، ادویہ اور دیگر اشیائے ضروریہ سے لدے سیکڑوں ٹرک وہاں پہنچ رہے ہیں، یرغمالی واپس پہنچ گئے ہیں اور شہری اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ ایک نیا اور خوبصورت دن طلوع ہو رہا ہے اور اب تعمیر ِ نو کا عمل شروع ہوتا ہے۔ پیر کے روز وائٹ ہاؤس نے ’’ٹرمپ امن و خوشحالی کا اعلان‘‘ شائع کیا ہے، جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، مصری صدر عبدالفتاح السیسی، ترک صدر رجب طیب اردوان، اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کے دستخط ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں اسے ایک مثبت قدم قراردیا جارہا ہے تاہم امریکی صدر کے بیس نکات پر مشتمل اس پلان میں متعدد ابہام اور کئی پیچیدہ مسائل ابھی تک حل طلب ہیں جن میں غزہ میں حکومت کی تشکیل، اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا، حماس کو غیر مسلح کرنے کی کوشش اور فلسطینی ریاست کا قیام۔ علاوہ ازیں کئی ایسے مسائل ہیں جن کے حل کا کوئی واضح روڈ میپ تشکیل نہیں دیا گیا۔ معاہدے میں غزہ میں مستقل امن کیسے برقرار رہے گا، مزید کیا کرنا ہے، کس مدت میں کام ہوگا، کون کرے گا، فلسطین کی خودمختاری اور غزہ کی تعمیر نو سمیت اور دیگر تفصیلات تشنہ ہیں، اس معاہدے کو امید افزا تو قرار دیا جارہا ہے مگر اس خدشے کے ساتھ کہ اگر اسرائیل نے معاہدے کی پاسداری نہ کی تو یہ جنگ بندی عارضی ثابت ہوگی۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل ابھی تک بضد ہے کہ حماس اپنے ہتھیاروں سے دستبردار ہو جائے جسے اس نے مسترد کردیا ہے، اسی طرح، غزہ کی انتظامیہ کا سوال بھی غیر واضح ہے۔ امریکی منصوبے کے مطابق، ایک بین الاقوامی ادارہ غزہ کا انتظام سنبھالے گا، جو ایک فلسطینی ٹیکنوکریٹک حکومت کے ذریعے کام کرے گا، جبکہ ایک عرب، بین الاقوامی سیکورٹی فورس فلسطینی پولیس کے ساتھ مل کر تعینات ہوگی اور اسرائیلی فوجیں بتدریج انخلا کریں گی۔ منصوبے میں فلسطینی اتھارٹی کے لیے اصلاحات کے بعد ممکنہ کردار کا ذکر ہے، جبکہ فلسطینی ریاست کے قیام پر بعد میں بات چیت کی تجویز دی گئی ہے، جسے اسرائیلی وزیراعظم سختی سے مسترد کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ حماس نے معاہدے کی دستخطی تقریب میں شرکت نہیں کی، حماس کے سیاسی بیورو کے رہنما حسام بدران نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’حماس دستخطی عمل میں شامل نہیں ہوگی۔ صرف ثالث، امریکی اور اسرائیلی حکام اس میں شریک ہوں گے۔ علاوہ ازیں بدران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی منصوبہ بندی میں شامل اس تجویز کو کہ حماس کے رہنما غزہ سے نکل جائیں، ’’عبث اور بے ہودہ‘‘ قرار دے چکے ہیں، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر جنگ دوبارہ شروع ہوئی تو حماس ’’کسی بھی اسرائیلی جارحیت‘‘ کا جواب دے گی۔ مذاکرات کے عمل کے بارے میں، انہوں نے اشارہ دیا کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا اگلا مرحلہ ’’زیادہ مشکل اور پیچیدہ‘‘ ہوگا۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کے غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے جو معاہدہ کیا گیا ہے وہ پیش آمدہ صورتحال میں ایک عارضی حل تو ہو سکتا ہے مگر اسے کسی طور مسئلہ کا پائیدا حل قرار نہیں دیا جاسکتا، غزہ میں امن کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششیں یقینا قابل ِ قدر ہیں مگر اس سوال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ غزہ میں طویل المدتی استحکام کیونکر ممکن ہوگا۔ مسئلے کے مستقل اور پائیدار حل کے لیے ناگزیر ہے کہ فلسطینیوں کے حق ِ خودارادیت کی راہ متعین کی جائے اور امن پلان میں شامل نکات کو فلسطینی عوام کے احساسات، جذبات اور مطالبات سے ہم آہنگ کیا جائے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہ حماس کے وزیر رہا ہے کے صدر
پڑھیں:
مصر میں غزہ امن سربراہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات
شرم الشیخ(ڈیلی پاکستان آن لائن)مصر میں غزہ امن سربراہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات ہوئی ہے جس میں ٹرمپ نے وزیر اعظم کے ساتھ گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور دونوں رہنماؤں میں خوشگوار جملوں کا تبادلہ ہوا۔مصر کے شہر شرم الشیخ میں غزہ امن سربراہ اجلاس میں 28 ممالک اور بین الاقوامی ادارے شرکت کر رہے ہیں۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی شرم الشیخ میں منعقدہ امن سربراہ اجلاس کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی ۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں میں خوشگوار جملوں کا تبادلہ ہوا۔
پنجاب لائبریری فاؤنڈیشن کے بورڈ آف گورنرز کا 71واں اجلاس،متعدداہم اقدامات کی منظوری
ٹرمپ نے شرم الشیخ میں دیگر عالمی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس سے پہلے شرم الشیخ کے کانگریس سینٹر پہنچنے پر مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے وزیر اعظم شہباز شریف کا استقبال کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے غزہ امن کانفرنس سے پہلے فلسطینی صدر محمود عباس، آذربائیجان کے صدر الہام علیوف ، آرمینیا کے وزیراعظم نکول پاشنیان ، اردن کے شاہ عبداللہ دوم،بحرین کے شاہ حمد بن عیسی الخلیفہ،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس ،انڈونیشیا کے صدر ،جرمن چانسلر،،اسپین کے وزیراعظم ،اٹلی کی وزیراعظم ،سعودی عرب کے وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آلسعود سے ملاقاتیں کیں۔
افغان اشتعال انگیزی کے مؤثر جواب پر پاک فوج کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع
وزیراعظم نے فلسطینی عوام سے یکجہتی اوران کی سفارتی و اخلاقی مدد جاری رکھنے کا اعادہ کیا۔واضح رہے کہ غزہ امن سربراہ اجلاس کا مقصد غزہ میں فوری جنگ بندی اور امن کے لیے عالمی کوششیں ہیں۔
مزید :