امن و امان کے قیام کیلیے آئی جی بلوچستان نے صحافیوں سے تعاون مانگ لیا
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس بلوچستان محمد طاہر نے امن و امان کے قیام میں صحافیوں سے تعاون مانگتے ہوئے کہا ہے کہ صحافی معاشرے کی آنکھ اور کان ہیں، جو سماجی مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں.
انہوں نے ان خیالات کا اظہار منگل کے روز سینٹرل پولیس آفس کوئٹہ میں کوئٹہ پریس کلب کے سابق صدر و بیورو چیف ایکسپریس نیوز رضا الرحمان اور موجودہ صدر عرفان سعید کی قیادت میں سینئر صحافیوں کے اعزاز میں منعقدہ ایک پروقار عصرانے سے خطاب کرتے ہوئے کیا
۔ تقریب کا انعقاد صحافیوں اور پولیس کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا تھا۔
آئی جی بلوچستان محمد طاہر نے اپنے خطاب میں کہا کہ پولیس اور صحافیوں کا رشتہ چولی دامن جیسا ہے، کیونکہ دونوں کا مقصد معاشرے کی بہتری اور امن کا قیام ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحافی وہ اہم پہلو اجاگر کرتے ہیں جو اکثر نظرانداز ہوجاتے ہیں، اور ان کی رپورٹنگ سے نہ صرف مسائل سامنے آتے ہیں بلکہ ان کے حل کے لیے بھی راہ ہموار ہوتی ہے۔
آئی جی پولیس نے بلوچستان کے صحافیوں کے پیشہ ورانہ طرزِ عمل کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مثبت کردار معاشرے میں گمراہ کن عناصر کی حوصلہ شکنی اور جرائم کی روک تھام میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا ایک عظیم معاشرے کی تشکیل میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے، اور موجودہ دور میں اس کے مثبت رول سے انکار ممکن نہیں۔
تقریب میں میڈیا کوآرڈینیٹر ٹو آئی جی پولیس بلوچستان مس رابعہ طارق سمیت دیگر اعلیٰ پولیس حکام بھی موجود تھے۔
آئی جی پولیس نے نو منتخب صدر کوئٹہ پریس کلب عرفان سعید کو مبارکباد پیش کی اور ان کے انتخاب کو صحافی برادری کے لیے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ عرفان سعید کی قیادت میں کوئٹہ پریس کلب صحافتی معیارات کو مزید بلند کرے گا اور صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا کردار جاری رکھے گا۔
محمد طاہر نے صحافیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ان کی تعمیری تنقید اور تجاویز سے پولیس کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ صحافی برادری آئندہ بھی معاشرتی اصلاحات، امن کے قیام، اور صوبے کی ترقی کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرتی رہے گی۔
انہوں نے پولیس کے دروازے صحافیوں کے لیے ہمیشہ کھلے رکھنے کا وعدہ کیا اور کہا کہ پولیس اور میڈیا مل کر صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کام کر سکتے ہیں۔
اس موقع پر کوئٹہ پریس کلب کے سابق صدر رضا الرحمان نے پولیس کے تعاون کی قدر کرتے ہوئے کہا کہ صحافی برادری ہمیشہ حقائق کی بنیاد پر رپورٹنگ کرتی ہے اور معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔
کوئٹہ پریس کلب کے موجودہ صدر عرفان سعید نے آئی جی پولیس کی جانب سے صحافیوں کے اعزاز میں تقریب کے انعقاد کو سراہا اور یقین دلایا کہ کوئٹہ پریس کلب پولیس کے ساتھ مل کر صوبے میں امن و امان کے قیام اور ترقی کے لیے اپنی کاوشیں جاری رکھے گا۔
تقریب کے اختتام پر آئی جی پولیس نے صحافیوں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کے کردار کو صوبے کی ترقی اور امن کے قیام میں ناقابل فراموش قرار دیا۔ صحافیوں نے بھی پولیس کے ساتھ بہتر رابطوں اور تعاون کے عزم کا اعادہ کیا۔ تقریب میں شریک صحافیوں نے عصرانے کی دعوت اور پولیس کی جانب سے گرمجوشی سے استقبال پر شکریہ ادا کیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کوئٹہ پریس کلب آئی جی پولیس صحافیوں کے عرفان سعید معاشرے کی انہوں نے ہوئے کہا پولیس کے کے قیام کے لیے کہا کہ اور ان
پڑھیں:
سعد رضوی سمیت دیگر رہنماوں کی گرفتاری کیلیے سرچ آپریشن جاری ہے، پولیس ذرائع
لاہور:پولیس کی جانب سے مریدکے میں احتجاج سے فرار ہونے والے ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی سمیت دیگر رہنماوں کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے تاہم متعدد ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق ٹی ایل پی کی کارروائی منظم تشدد کا حصہ تھی جس میں قیادت نے ہجوم کو اکسانے کا کردار ادا کیا اور پھر فرار ہو کر شہریوں اور ریاست کو خطرے میں ڈال دیا۔ ہتھیار چھیننا، پیٹرول بم اور گاڑیاں جلانا کسی بھی طرح پرامن احتجاج نہیں کہلاتا اور ایسے عناصر کو قانون کے مطابق جواب دہ ٹھہرایا جائے گا۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ایل پی کی جانب سے پرتشدد احتجاج کا واقعہ 12 اور 13 اکتوبر کی درمیانی شب پیش آیا جس میں ایک پولیس افسر شہید اور درجنوں اہلکار زخمی ہوئے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انتشار پسند مظاہرین کو منتشر کر دیا۔
ابتدائی طور پر انتظامیہ نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور احتجاج کو کم متاثرہ مقام پر منتقل کرنے کی ہدایت کی لیکن مذاکرات کے دوران احتجاج کی قیادت نے ہجوم کو اکسانا جاری رکھا۔ ہجوم نے پتھراؤ، کیلوں والے ڈنڈے اور پیٹرول بموں سمیت تشدد آمیز ہتھکنڈے استعمال کیے، متعدد پولیس اہلکاروں سے اسلحہ چھینا گیا اور اسی چھینے گئے اسلحہ سے فائرنگ بھی کی گئی۔
پولیس ذرائع کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹس اور پولیس کے ابتدائی معائنے کے مطابق فائرنگ میں استعمال گولیاں انہی چھینی گئی اسلحے کی تھیں، پولیس نے بڑے سانحے سے بچنے کی کوشش میں آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا، مظاہرین مزید مشتعل ہوئے اور منظم حملے کیے گئے۔
مظاہرین نے پولیس اہلکاروں اور گاڑیوں پر منظم حملے کیے، کم از کم 40 سرکاری و نجی گاڑیاں جلا دی گئیں اور کئی دکانیں بھی نذرِ آتش ہوئیں۔ تشدد کے دوران 48 پولیس اہلکار زخمی ہوئے جن میں 17 کو گن شاٹ کے زخم آئے، زخمیوں کو مختلف اسپتالوں میں منتقل کر کے ان کا علاج جاری ہے۔
ابتدائی تفصیلات کے مطابق تصادم میں تین ٹی ایل پی کارکن اور 6 راہ گیر جاں بحق ہوئے جبکہ دیگر 30 کے قریب شہری زخمی ہوئے، مظاہرین نے یونیورسٹی کی بس سمیت متعدد گاڑیاں اغوا کر کے احتجاج میں استعمال کیں۔
عینی شاہدین کے مطابق بعض گاڑیاں عوام کو کچلنے کے لیے بھی چلائی گئیں، موقع پر موجود شر پسند عناصر نے پولیس پر پتھراؤ، پیٹرول بم اور کیلوں والے ڈنڈوں سے منظم حملے کیے جبکہ متعدد مقامات سے اندھا دھند فائرنگ بھی ریکارڈ کی گئی۔
پولیس حکام کا کہنا کہ 6 بے گناہ راہ گیروں کی ہلاکت قومی لمحۂ فکریہ ہے، ریاست کی ذمہ داری شہری جان و املاک کے تحفظ کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کرنا ہے۔