میں نے قرآنِ پاک پر اپنی کزن کا نمبر لکھا تھا، مجھے علم نہیں تھا کہ یہی نمبر مستقبل میں میرے کام آئے گا اور مجھے نئی زندگی دے گا۔ یہ کہانی ہے اس دنیا کی جو خواب تو بڑے دکھاتی ہے لیکن اس میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے، ایک غلط قدم آپ کو زندگی کا تلخ ترین اور مہنگا سبق سکھا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خضدار سے اغوا ہونے والی لڑکی بازیاب، 16 مشتبہ افراد گرفتار

کراچی کے پسماندہ علاقے اورنگی ٹاؤن جو ہر لحاظ سے کراچی کے دیگر علاقوں سے بہت پیچھے ہے، یہاں رہنے والوں کے لیے پانی پیٹرول سے مہنگا پڑتا ہے، یہاں گیس نہیں آتی اور اب بھی کئی لوگ لکڑی استعمال کرتے ہیں۔ یہاں کی گلیاں اور سڑکیں جنگلوں کے راستوں سے بھی بہتر نہیں، یہاں تعلیمی نظام اب تک جدت اختیار نہیں کر سکا اور یہی وجہ تھی کہ محمد ہارون نے اپنی کم سن بیٹی کو تعلیم کے حصول کے لیے قریبی مدرسے میں داخل کروا دیا۔

محمد ہارون کی بیٹی نے دینی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ وقت گزرتا گیا، پھر بیٹی کے پاس موبائل فون آیا اور زندگی میں پہلی بار ٹیکنالوجی نے دستک دی۔ انٹرنیٹ نے دروازہ کھول دیا، اب پرواز کرنی تھی۔ اس لڑکی کی رسائی انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا تک ہوئی جو شاید دنیا ہی الگ تھی۔

ٹک ٹاک پر اکاؤنٹ بنا، ویڈیوز دیکھنا شروع کیں اور ساتھ ہی نئی چیزیں سیکھنے کا موقع بھی ملا، زندگی میں پہلی بار نئے لوگوں سے جان پہچان ہونے لگی، دوستیاں ہونے لگی، رات گئے بات چیت ہونے لگی۔

یہ بھی پڑھیں: نابالغ لڑکی کا مبینہ اغوا: سپریم کورٹ نے لڑکی کی رضامندی پر شوہر کے ہمراہ جانے کا حکم دیدیا

اس لڑکی کی زندگی میں ٹک ٹاک کے ذریعے میر حمزہ نامی لڑکے نے دستک دی اور یوں یہ سلسلہ آگے بڑھا۔ جب لڑکے کو اندازہ ہوا کہ لڑکی مکمل طور پر اس کے ساتھ ہے تو ملنے کی فرمائش کی گئی جسے لڑکی نے رد کیا اور بار بار ایسا ہی ہوتا رہا، لڑکی کے مطابق اس فرمائش کے بعد بات چیت کم ہوئی، رات ایک یا 2 گھنٹے بات ہو جاتی تھی۔

ایک دن وہ اپنے مدرسے سے نکلی تو آگے ایک گاڑی کھڑی تھی جس میں میر حمزہ بیٹھا تھا، ساتھ اس کی والدہ بھی تھی۔ انہوں نے مجھے بیٹھنے کو کہا، میں نے انکار کیا تو میر حمزہ کی والدہ نے کہا کہ ہمارے ساتھ تو جاؤ، پر بات تو کرلو۔ تھوڑی دیر بات چیت ہوئی، پھر انہوں نے مجھے جوس پلایا جس کے بعد مجھے نہیں پتا کہ میں کہاں تھی۔ ڈیڑھ برس تک بس اندازہ تھا کہ میں نیو کراچی میں تھی۔

دوسری جانب بیٹی کے گھر پر نہ پہنچنے پر اس کے والد محمد ہارون نے مدرسے سے رابطہ کیا تو وہاں سے بتایا گیا کہ وہ اپنے وقت پر جا چکی ہے۔ یہاں محمد ہارون کو احساس ہونے لگا کہ بہت غلط ہو چکا ہے، تلاش جاری تھی۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ میں جنات کے خلاف خاتون کے اغوا کا مقدمہ زیرسماعت، تحقیقاتی کمیٹی سرگرم

محمد ہارون ایک مزدور آدمی ہیں، اسے سمجھ ہی نہ آیا کہ کیا کریں؛ بھاگے بھاگے گھر گئے، بیگم سے کہا کہ کسی سہیلی کا نمبر دو۔ بیوی نے کہا اسی کے موبائل میں تھے، نمبر آپ اس کے موبائل سے کال کریں۔

جب بیٹی کے نمبر پر کال کی تو آگے سے کسی لڑکے نے اٹھایا اور کہا کہ بیٹی ہمارے پاس ہے اور تم خاموش رہو، کچھ کیا تو انجام برا ہوگا۔ اس ایک کال کے بعد نمبر مسلسل بند رہا۔ میں ڈیڑھ سال تک بیٹی کے نمبر پر کال کرتا رہا کیوں کہ میرے پاس تو اور کوئی سراغ ہی نہیں تھا۔

محمد عثمان نے فوری طور پر تھانے سے رجوع کیا اور بمشکل 24 گھنٹے کے اندر ایف آئی آر درج ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ سال تک پولیس کا کوئی خاص ردِ عمل نہیں تھا۔ گزشتہ ماہ 27 ستمبر کو میری بھانجی کے نمبر پر ایک کال آئی، بھانجی دوڑی آئی میرے پاس اور مجھے بتایا کہ بیٹی کی کال آئی ہے اور وہ کہہ رہی ہے کہ میں بہت اذیت میں ہوں اور خمیسہ گوٹھ میں ہوں۔

کم سن لڑکی کی اب عمر 16 برس ہو چکی ہے اور وہ بتاتی ہے کہ جہاں رکھا گیا تھا وہاں اس کے ساتھ بہت ظلم و زیادتی ہوئی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر لڑکے اور لڑکیاں وہاں آتے تھے۔ یہ ایک مرکز تھا جہاں لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور ڈیڑھ سال سے میں نے سب سہا۔

’اس کے بعد کچھ روز قبل مجھے اللہ کی طرف سے ایک موقع ملا، لڑکی کی ماں کچھ دیر کے لیے گھر سے باہر گئی لیکن اپنا موبائل فون گھر پر بھول گئی۔ میں نے یہ سن رکھا تھا کہ وہ کسی خمیسہ گوٹھ میں ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی میں جرگہ کے حکم پر لڑکی کے قتل کی تفتیش میں اہم پیشرفت، کپڑے اور اسلحہ برآمد

لڑکی کو اپنی کزن کا وہ نمبر یاد تھا جو مشکل میں کام آنے کے لیے اس نے قرآنِ پاک پر لکھ رکھا تھا۔ جلدی سے اس نمبر پر کال کی اور خوش قسمتی سے کال اس کی کزن نے اٹھا لی۔ میں نے صرف اتنا کہا کہ میں اذیت میں ہوں اور اس وقت خمیسہ گوٹھ میں ہوں۔ یہ سن کر اس کی کزن اپنے ماموں کے پاس پہنچی اور بتا دیا کہ کال آئی تھی اور ایسا کہا ہے۔

محمد ہارون اور ان کی بیوی علاقے کے ایم پی اے اعجاز الحق کے پاس گئے اور انہیں پورا واقعہ سنایا لیکن اس دوران ایک اور پیغام موصول ہو چکا تھا جس کے مطابق اغوا کاروں کو معلوم ہو چلا تھا کہ میں نے کال کی ہے اور وہ صبح روشنی ہوتے ہی کسی دوسرے علاقے منتقل ہو جائیں گے۔

ایم پی اے محمد ہارون کے مطابق انہوں نے متاثرہ ماں باپ کی فریاد سنی تو اندازہ ہوا کہ ان کے پاس صرف دو گھنٹے ہیں؛ اگر دیر ہوئی تو شاید پھر ہمیں یہ موقع نہ ملے۔ ایم پی اے نے پولیس حکام سے رابطہ کیا اور احوال بتایا۔ بظاہر یہ ایک مشکل آپریشن تھا کیونکہ ہمارے پاس صرف خمیسہ گوٹھ کے علاوہ کوئی معلومات نہیں تھیں۔ اتنے بڑے علاقے سے لڑکی کو بازیاب کرانا آسان کام نہیں تھا اور وقت بھی بہت کم تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ہمیں بچا لیں اس سے پہلے کے مار دیا جائے، 22 سالہ لڑکی نے ایسا کیوں کہا؟

ایم پی اے کے مطابق 2 پولیس اسٹیشن متحرک ہوئے، پولیس نے اپنے ایجنٹوں سے رابطہ کیا، اب مسئلہ یہ تھا کہ لڑکی کو گھر سے کبھی نکالا ہوتا تو کوئی پہچان پاتا مگر پولیس کے مخبروں نے پتا لگا لیا کہ کون سا علاقہ اور کون سا مکان ہوسکتا ہے۔ اس گھر میں کچھ ایسی سرگرمیاں دیکھی گئیں جس سے پولیس کو شک ہوا کہ یہی مکان ہو سکتا ہے۔

ایم پی اے کے مطابق میں خود اس آپریشن میں پولیس کے ساتھ تھا کیوں کہ یہ میرے حلقے اور محلے کا کیس تھا جس مکان کی نشاندہی ہوئی پولیس نے بہت مہارت سے اس مکان پر چھاپہ مارا اور لڑکی کو بازیاب کرا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بازیابی کے فوراً بعد لڑکی نے ہمارے ساتھ جانے سے انکار کیا۔ مسلسل بات چیت کے بعد لڑکی کو تھانے لایا گیا اور لڑکے کو حراست میں لیا گیا۔

تھانے میں جب لڑکی کو اندازہ ہوا کہ اب وہ محفوظ ہے تو اس نے سارا واقعہ پولیس کو بتایا اور کہا کہ آنے سے انکار اس لیے کیا تھا کیونکہ مجھے دھمکایا گیا تھا، اگر میں پولیس کو کچھ بتاتی یا ان کے ساتھ جاتی تو میرے ساتھ اور پورے خاندان کے ساتھ بہت برا ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت سے لاپتا فلک نور بازیاب، عدالت نے دارالامان بھیج دیا

متاثرہ لڑکی کے مطابق اس کے ساتھ بہت برا ہوا ہے۔ وہ لمحہ جب اس نے سوشل میڈیا کو استعمال کرنا سیکھا اور وہ لمحہ جب میرا رابطہ میری کزن سے ہوا، یہ میری زندگی کے عبرتناک اور سبق آموز لمحات تھے۔ ان دونوں لمحات سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ ایک موبائل فون نے مجھے درندوں کے سپرد کیا اور وہی موبائل مجھے واپس اپنوں میں لانے کا وسیلہ بنا۔ مطلب یہ کہ چیز اچھی یا بری نہیں ہوتی، اس کا استعمال اچھا یا برا ہوسکتا ہے۔

ایم پی اے اعجاز الحق کا کہنا ہے کہ اس لڑکی کو اس وقت گھر والوں اور معاشرے کی مدد کی ضرورت ہے تاکہ اسے واپس اپنی زندگی میں لایا جاسکے۔

محمد ہارون کا کہنا ہے کہ میں ڈیڑھ سال تک اپنی بیٹی کے لیے تڑپتا رہا ہوں، میرے لیے اس سے بڑی کوئی خوشی نہیں کہ میری بیٹی واپس آ چکی ہے، لیکن میں یہ بھی چاہوں گا کہ میر حمزہ جیسے درندوں کو سر عام لٹکایا جائے تاکہ ہماری بیٹیاں ان جانوروں سے محفوظ رہ سکیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اب معاملہ اللہ کے بعد عدالت کے سپرد ہے، ہو سکتا ہے اگلی سماعت پر ان کی بیٹی کا بیان ہو جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں اپنی بیٹی کے ساتھ آخری دم تک کھڑا ہوں چاہے مجھے یہ جنگ اکیلے ہی کیوں نہ لڑنی پڑے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ یہ بھی پڑھیں خمیسہ گوٹھ محمد ہارون ان کا کہنا زندگی میں ایم پی اے کے مطابق نہیں تھا ڈیڑھ سال لڑکی کی لڑکی کو بات چیت کے ساتھ میں ہوں کیا اور بیٹی کے کے پاس اور وہ تھا کہ ہے اور ہوا کہ کہ میں کہا کہ کے لیے کے بعد

پڑھیں:

باغبانپورہ: باپ کی جانب سے کمسن بیٹی سے مبینہ زیادتی، حناپرویزبٹ کا نوٹس

ثمرہ فاطمہ:لاہور کے علاقے باغبانپورہ میں باپ کی جانب سے کمسن بیٹی سے مبینہ جنسی زیادتی کا افسوسناک واقعہ پیش آیا,وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر مشیر وزیراعلیٰ برائے خواتین حنا پرویز بٹ نے واقعے کا نوٹس لے لیا۔

حناپرویزبٹ نےڈی آئی جی آپریشنزلاہورسےواقعہ کی رپورٹ طلب کر لی۔

حنا پرویز بٹ نے کہا کہ یہ انسانیت سوز جرم کسی رعایت کے قابل نہیں، ایسے افراد معاشرے کے لیے خطرہ ہیں اور ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

گندم پالیسی کا نیا ڈرافٹ چاروں صوبوں کو رائے کے لیےبھجوادیاگیا

ان کا مزیدکہنا تھا کہ پولیس واقعے کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تفتیش کر رہی ہے، خواتین اور بچیوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی جنوبی افریقا کیخلاف تاریخی کامیابی:ٹیسٹ چیمپئن شپ میں دوسری پوزیشن پر جا پہنچا
  • پاکستان کو ایک فتح نے ٹیسٹ چیمپئن شپ میں دوسرے نمبر پر پہنچا دیا
  • پاکستانی پاسپورٹ دنیا کا چوتھا کمزور ترین پاسپورٹ قرار
  • مسلسل پانچویں سال پاکستانی پاسپورٹ کا دنیا کے بدترین پاسپورٹس میں چوتھا نمبر
  • باغبانپورہ: باپ کی جانب سے کمسن بیٹی سے مبینہ زیادتی، حناپرویزبٹ کا نوٹس
  • کراچی میں پریڈی سے 2 بہنیں اغوا، مقدمے میں اسکول ٹیچر نامزد
  • کراچی: 2بہنیں پراسرار طور پر لاپتا، لڑکیوں کے اغوا کا مقدمہ اسکول ٹیچر کیخلاف درج
  • کراچی سے افغانیوں کو واپس وطن روانہ کیا جائے،خالد مقبول
  • شادی سے انکار کرنے والی خاتون نے منگیتر سے گلے ملنے کی فیس طلب کر لی