’کزن کا نمبر یاد نہ ہوتا تو واپس نہ لوٹ پاتی‘، کراچی سے اغوا ہونی والی لڑکی کی کہانی
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
میں نے قرآنِ پاک پر اپنی کزن کا نمبر لکھا تھا، مجھے علم نہیں تھا کہ یہی نمبر مستقبل میں میرے کام آئے گا اور مجھے نئی زندگی دے گا۔ یہ کہانی ہے اس دنیا کی جو خواب تو بڑے دکھاتی ہے لیکن اس میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے، ایک غلط قدم آپ کو زندگی کا تلخ ترین اور مہنگا سبق سکھا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خضدار سے اغوا ہونے والی لڑکی بازیاب، 16 مشتبہ افراد گرفتار
کراچی کے پسماندہ علاقے اورنگی ٹاؤن جو ہر لحاظ سے کراچی کے دیگر علاقوں سے بہت پیچھے ہے، یہاں رہنے والوں کے لیے پانی پیٹرول سے مہنگا پڑتا ہے، یہاں گیس نہیں آتی اور اب بھی کئی لوگ لکڑی استعمال کرتے ہیں۔ یہاں کی گلیاں اور سڑکیں جنگلوں کے راستوں سے بھی بہتر نہیں، یہاں تعلیمی نظام اب تک جدت اختیار نہیں کر سکا اور یہی وجہ تھی کہ محمد ہارون نے اپنی کم سن بیٹی کو تعلیم کے حصول کے لیے قریبی مدرسے میں داخل کروا دیا۔
محمد ہارون کی بیٹی نے دینی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ وقت گزرتا گیا، پھر بیٹی کے پاس موبائل فون آیا اور زندگی میں پہلی بار ٹیکنالوجی نے دستک دی۔ انٹرنیٹ نے دروازہ کھول دیا، اب پرواز کرنی تھی۔ اس لڑکی کی رسائی انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا تک ہوئی جو شاید دنیا ہی الگ تھی۔
ٹک ٹاک پر اکاؤنٹ بنا، ویڈیوز دیکھنا شروع کیں اور ساتھ ہی نئی چیزیں سیکھنے کا موقع بھی ملا، زندگی میں پہلی بار نئے لوگوں سے جان پہچان ہونے لگی، دوستیاں ہونے لگی، رات گئے بات چیت ہونے لگی۔
یہ بھی پڑھیں: نابالغ لڑکی کا مبینہ اغوا: سپریم کورٹ نے لڑکی کی رضامندی پر شوہر کے ہمراہ جانے کا حکم دیدیا
اس لڑکی کی زندگی میں ٹک ٹاک کے ذریعے میر حمزہ نامی لڑکے نے دستک دی اور یوں یہ سلسلہ آگے بڑھا۔ جب لڑکے کو اندازہ ہوا کہ لڑکی مکمل طور پر اس کے ساتھ ہے تو ملنے کی فرمائش کی گئی جسے لڑکی نے رد کیا اور بار بار ایسا ہی ہوتا رہا، لڑکی کے مطابق اس فرمائش کے بعد بات چیت کم ہوئی، رات ایک یا 2 گھنٹے بات ہو جاتی تھی۔
ایک دن وہ اپنے مدرسے سے نکلی تو آگے ایک گاڑی کھڑی تھی جس میں میر حمزہ بیٹھا تھا، ساتھ اس کی والدہ بھی تھی۔ انہوں نے مجھے بیٹھنے کو کہا، میں نے انکار کیا تو میر حمزہ کی والدہ نے کہا کہ ہمارے ساتھ تو جاؤ، پر بات تو کرلو۔ تھوڑی دیر بات چیت ہوئی، پھر انہوں نے مجھے جوس پلایا جس کے بعد مجھے نہیں پتا کہ میں کہاں تھی۔ ڈیڑھ برس تک بس اندازہ تھا کہ میں نیو کراچی میں تھی۔
دوسری جانب بیٹی کے گھر پر نہ پہنچنے پر اس کے والد محمد ہارون نے مدرسے سے رابطہ کیا تو وہاں سے بتایا گیا کہ وہ اپنے وقت پر جا چکی ہے۔ یہاں محمد ہارون کو احساس ہونے لگا کہ بہت غلط ہو چکا ہے، تلاش جاری تھی۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ میں جنات کے خلاف خاتون کے اغوا کا مقدمہ زیرسماعت، تحقیقاتی کمیٹی سرگرم
محمد ہارون ایک مزدور آدمی ہیں، اسے سمجھ ہی نہ آیا کہ کیا کریں؛ بھاگے بھاگے گھر گئے، بیگم سے کہا کہ کسی سہیلی کا نمبر دو۔ بیوی نے کہا اسی کے موبائل میں تھے، نمبر آپ اس کے موبائل سے کال کریں۔
جب بیٹی کے نمبر پر کال کی تو آگے سے کسی لڑکے نے اٹھایا اور کہا کہ بیٹی ہمارے پاس ہے اور تم خاموش رہو، کچھ کیا تو انجام برا ہوگا۔ اس ایک کال کے بعد نمبر مسلسل بند رہا۔ میں ڈیڑھ سال تک بیٹی کے نمبر پر کال کرتا رہا کیوں کہ میرے پاس تو اور کوئی سراغ ہی نہیں تھا۔
محمد عثمان نے فوری طور پر تھانے سے رجوع کیا اور بمشکل 24 گھنٹے کے اندر ایف آئی آر درج ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ سال تک پولیس کا کوئی خاص ردِ عمل نہیں تھا۔ گزشتہ ماہ 27 ستمبر کو میری بھانجی کے نمبر پر ایک کال آئی، بھانجی دوڑی آئی میرے پاس اور مجھے بتایا کہ بیٹی کی کال آئی ہے اور وہ کہہ رہی ہے کہ میں بہت اذیت میں ہوں اور خمیسہ گوٹھ میں ہوں۔
کم سن لڑکی کی اب عمر 16 برس ہو چکی ہے اور وہ بتاتی ہے کہ جہاں رکھا گیا تھا وہاں اس کے ساتھ بہت ظلم و زیادتی ہوئی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر لڑکے اور لڑکیاں وہاں آتے تھے۔ یہ ایک مرکز تھا جہاں لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور ڈیڑھ سال سے میں نے سب سہا۔
’اس کے بعد کچھ روز قبل مجھے اللہ کی طرف سے ایک موقع ملا، لڑکی کی ماں کچھ دیر کے لیے گھر سے باہر گئی لیکن اپنا موبائل فون گھر پر بھول گئی۔ میں نے یہ سن رکھا تھا کہ وہ کسی خمیسہ گوٹھ میں ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی میں جرگہ کے حکم پر لڑکی کے قتل کی تفتیش میں اہم پیشرفت، کپڑے اور اسلحہ برآمد
لڑکی کو اپنی کزن کا وہ نمبر یاد تھا جو مشکل میں کام آنے کے لیے اس نے قرآنِ پاک پر لکھ رکھا تھا۔ جلدی سے اس نمبر پر کال کی اور خوش قسمتی سے کال اس کی کزن نے اٹھا لی۔ میں نے صرف اتنا کہا کہ میں اذیت میں ہوں اور اس وقت خمیسہ گوٹھ میں ہوں۔ یہ سن کر اس کی کزن اپنے ماموں کے پاس پہنچی اور بتا دیا کہ کال آئی تھی اور ایسا کہا ہے۔
محمد ہارون اور ان کی بیوی علاقے کے ایم پی اے اعجاز الحق کے پاس گئے اور انہیں پورا واقعہ سنایا لیکن اس دوران ایک اور پیغام موصول ہو چکا تھا جس کے مطابق اغوا کاروں کو معلوم ہو چلا تھا کہ میں نے کال کی ہے اور وہ صبح روشنی ہوتے ہی کسی دوسرے علاقے منتقل ہو جائیں گے۔
ایم پی اے محمد ہارون کے مطابق انہوں نے متاثرہ ماں باپ کی فریاد سنی تو اندازہ ہوا کہ ان کے پاس صرف دو گھنٹے ہیں؛ اگر دیر ہوئی تو شاید پھر ہمیں یہ موقع نہ ملے۔ ایم پی اے نے پولیس حکام سے رابطہ کیا اور احوال بتایا۔ بظاہر یہ ایک مشکل آپریشن تھا کیونکہ ہمارے پاس صرف خمیسہ گوٹھ کے علاوہ کوئی معلومات نہیں تھیں۔ اتنے بڑے علاقے سے لڑکی کو بازیاب کرانا آسان کام نہیں تھا اور وقت بھی بہت کم تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ہمیں بچا لیں اس سے پہلے کے مار دیا جائے، 22 سالہ لڑکی نے ایسا کیوں کہا؟
ایم پی اے کے مطابق 2 پولیس اسٹیشن متحرک ہوئے، پولیس نے اپنے ایجنٹوں سے رابطہ کیا، اب مسئلہ یہ تھا کہ لڑکی کو گھر سے کبھی نکالا ہوتا تو کوئی پہچان پاتا مگر پولیس کے مخبروں نے پتا لگا لیا کہ کون سا علاقہ اور کون سا مکان ہوسکتا ہے۔ اس گھر میں کچھ ایسی سرگرمیاں دیکھی گئیں جس سے پولیس کو شک ہوا کہ یہی مکان ہو سکتا ہے۔
ایم پی اے کے مطابق میں خود اس آپریشن میں پولیس کے ساتھ تھا کیوں کہ یہ میرے حلقے اور محلے کا کیس تھا جس مکان کی نشاندہی ہوئی پولیس نے بہت مہارت سے اس مکان پر چھاپہ مارا اور لڑکی کو بازیاب کرا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بازیابی کے فوراً بعد لڑکی نے ہمارے ساتھ جانے سے انکار کیا۔ مسلسل بات چیت کے بعد لڑکی کو تھانے لایا گیا اور لڑکے کو حراست میں لیا گیا۔
تھانے میں جب لڑکی کو اندازہ ہوا کہ اب وہ محفوظ ہے تو اس نے سارا واقعہ پولیس کو بتایا اور کہا کہ آنے سے انکار اس لیے کیا تھا کیونکہ مجھے دھمکایا گیا تھا، اگر میں پولیس کو کچھ بتاتی یا ان کے ساتھ جاتی تو میرے ساتھ اور پورے خاندان کے ساتھ بہت برا ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت سے لاپتا فلک نور بازیاب، عدالت نے دارالامان بھیج دیا
متاثرہ لڑکی کے مطابق اس کے ساتھ بہت برا ہوا ہے۔ وہ لمحہ جب اس نے سوشل میڈیا کو استعمال کرنا سیکھا اور وہ لمحہ جب میرا رابطہ میری کزن سے ہوا، یہ میری زندگی کے عبرتناک اور سبق آموز لمحات تھے۔ ان دونوں لمحات سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ ایک موبائل فون نے مجھے درندوں کے سپرد کیا اور وہی موبائل مجھے واپس اپنوں میں لانے کا وسیلہ بنا۔ مطلب یہ کہ چیز اچھی یا بری نہیں ہوتی، اس کا استعمال اچھا یا برا ہوسکتا ہے۔
ایم پی اے اعجاز الحق کا کہنا ہے کہ اس لڑکی کو اس وقت گھر والوں اور معاشرے کی مدد کی ضرورت ہے تاکہ اسے واپس اپنی زندگی میں لایا جاسکے۔
محمد ہارون کا کہنا ہے کہ میں ڈیڑھ سال تک اپنی بیٹی کے لیے تڑپتا رہا ہوں، میرے لیے اس سے بڑی کوئی خوشی نہیں کہ میری بیٹی واپس آ چکی ہے، لیکن میں یہ بھی چاہوں گا کہ میر حمزہ جیسے درندوں کو سر عام لٹکایا جائے تاکہ ہماری بیٹیاں ان جانوروں سے محفوظ رہ سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اب معاملہ اللہ کے بعد عدالت کے سپرد ہے، ہو سکتا ہے اگلی سماعت پر ان کی بیٹی کا بیان ہو جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں اپنی بیٹی کے ساتھ آخری دم تک کھڑا ہوں چاہے مجھے یہ جنگ اکیلے ہی کیوں نہ لڑنی پڑے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اورنگی ٹاؤن پاکستان پولیس سندھ کراچی کزن لڑکی اغوا محمد ہارون مقدمہ موبائل نمبر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اورنگی ٹاؤن پاکستان پولیس کراچی لڑکی اغوا محمد ہارون کا کہنا ہے کہ یہ بھی پڑھیں خمیسہ گوٹھ محمد ہارون ان کا کہنا زندگی میں ایم پی اے کے مطابق نہیں تھا ڈیڑھ سال لڑکی کی لڑکی کو بات چیت کے ساتھ میں ہوں کیا اور بیٹی کے کے پاس اور وہ تھا کہ ہے اور ہوا کہ کہ میں کہا کہ کے لیے کے بعد
پڑھیں:
کیا اسپارکلنگ واٹر واقعی کولڈ ڈرنکس کا صحتمند متبادل ہے؟
گرمی ہو یا سردی پاکستان میں کولڈ ڈرنکس کا استعمال باقاعدگی سے کیا جاتا ہے۔ مہمان نوازی ہو یا دعوت کا دسترخوان، کولڈ ڈرنک ہر اپنی جگہ بنا ہی لیتی ہے جبکہ فاسٹ فوڈ اور اس کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے بصورت دیگر وہ ڈش ادھوری ہی لگتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گرمی میں زیادہ کولڈ ڈرنکس نہ پیئں،ماہرین صحت
لیکن جہاں کولڈ ڈرنکس کی شکر سے بھرپور چمک اپنی جگہ، وہیں سوشل میڈیا پر فوڈ ولاگرز کے ذریعے ایک نیا رجحان ابھر رہا ہے۔
اسپارکلنگ واٹر کیا ہوتا ہے؟یہ چمکدار اور ہلکا پھلکا مشروب ہے اور اس کو سوفٹ ڈرنکس کا صحتمند متبادل تصور کیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ آیا یہ واقعی صحت بخش ہے؟
اسپارکلنگ واٹر جسے کاربونیٹڈ واٹر بھی کہا جاتا ہے دراصل وہی پانی ہوتا ہے جس میں مصنوعی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس شامل کی جاتی ہے۔ اس گیس کی موجودگی پانی میں فِز یا بلبلے پیدا کرتی ہے جو اسے ایک خوش ذائقہ، تازگی بخش مشروب میں تبدیل کر دیتی ہے۔ بعض اقسام میں قدرتی منرلز یا ہلکے فلیورز بھی شامل کیے جاتے ہیں لیکن کئی ورژنز مکمل طور پر شکر اور کیلوریز سے پاک ہوتے ہیں۔
اسپارکلنگ واٹر کی کتنی اقسام ہیں؟اسپارکلنگ واٹر مختلف اقسام میں دستیاب ہوتا ہے اور ہر قسم کی ساخت اور صحت پر اثر مختلف ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھیے: روزانہ کتنا پانی پینا چاہیے؟ عوام کی رائے اور ڈاکٹر کی وضاحت
Club Soda میں اضافی نمکیات شامل کیے جاتے ہیں جو ذائقہ بڑھاتے ہیں مگر بعض افراد کے لیے سوڈیم کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ Seltzer Water سادہ کاربونیٹڈ پانی ہوتا ہے جس میں کوئی اضافی نمک یا منرلز شامل نہیں ہوتے۔ Tonic Water کا ذائقہ منفرد ہوتا ہے کیونکہ اس میں کوئنن اور شوگر شامل ہوتی ہے لہٰذا اسے صحت بخش نہیں کہا جا سکتا۔ جبکہ Mineral Sparkling Water قدرتی طور پر کاربونیٹڈ ہوتا ہے اور اس میں نیچرل منرلز موجود ہوتے ہیں جو اسے کچھ صارفین کے لیے مزید فائدہ مند بنا سکتے ہیں۔
اسپارکلنگ واٹر اور سوڈا کا موازنہجب اسپارکلنگ واٹر اور عام سوڈا ڈرنکس کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو فرق بہت واضح نظر آتا ہے۔ اسپارکلنگ واٹر عموماً بغیر چینی کے ہوتا ہے اور اس میں کیلوریز بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں جبکہ کولڈ ڈرنکس میں فی کین 35 سے 45 گرام چینی اور 150 سے 180 کیلوریز تک ہو سکتی ہیں۔ یہ شکر صحت کے لیے نہایت نقصان دہ ہوتی ہے اور خاص طور پر ذیابیطس، موٹاپے اور دل کی بیماریوں کے خطرات کو بڑھاتی ہے۔
سوڈا میں مصنوعی رنگ، فلیورز اور پریزرویٹوز شامل ہوتے ہیں جو انسانی جسم پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں جبکہ اسپارکلنگ واٹر ان سے عاری ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: کون سی غذائیں ذیابیطس کا سبب بنتی ہیں؟
دانتوں کے لیے بھی اسپارکلنگ واٹر نسبتاً کم نقصان دہ ہے اگرچہ اس کی ہلکی تیزابیت وقت کے ساتھ حساسیت پیدا کر سکتی ہے مگر چونکہ اس میں شکر نہیں ہوتی اس لیے دانتوں کو اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا سوڈا سے ہوتا ہے۔
لانگ ٹرم میں اسپارکلنگ واٹر کتنا بہتر ہے؟ماہرین امراض معدہ و جگر ڈاکٹر حیدر عباسی کے مطابق اسپارکلنگ واٹر کا استعمال اگر بغیر اضافی چینی یا مصنوعی اجزا کے کیا جائے تو یہ لانگ ٹرم میں نقصان دہ نہیں ہے۔ البتہ کچھ لوگ اس کی وجہ سے پیٹ پھولنے یا گیس کی شکایت کر سکتے ہیں خصوصاً اگر اسے زیادہ مقدار میں استعمال کیا جائے۔
چونکہ یہ عام پانی کی طرح مکمل ہائیڈریشن نہیں دیتا اس لیے اسے صرف پانی کا متبادل نہیں بنایا جا سکتا۔ دانتوں کی حساسیت رکھنے والے افراد کو اس کا زیادہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
ڈائٹ کے لیے کتنا فائدہ مند ہے؟ڈائٹیشیئن زین مغل کے مطابق اسپارکلنگ واٹر ان افراد کے لیے بہترین آپشن ہے جو وزن کم کر رہے ہوں یا شوگر سے پرہیز کرنا چاہتے ہوں۔
زین مغل نے کہا کہ یہ کیلوریز سے پاک ہوتا ہے، میٹھے کی خواہش کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے اور بغیر اس کے کہ بلڈ شوگر یا انسولین لیول پر منفی اثر پڑے۔
یہ بھی پڑھیے: قدرتی اجزا سے تیار خوبانی کا شربت گرمی کا بہترین توڑ
ان کا کہنا تھا کہ یہ پیٹ سیری کا احساس بھی پیدا کرتا ہے جو بھوک کو کنٹرول میں رکھتا ہے اس وجہ سے کئی ڈائٹ پلانز میں اسپارکلنگ واٹر کو شامل کیا جا رہا ہے خصوصاً ان افراد کے لیے جو سوڈا چھوڑنا چاہتے ہیں مگر فِزی مشروب کی طلب برقرار ہے۔
زین مغل نے بتایا کہ اسپارکلنگ واٹر اگر درست انداز میں استعمال کیا جائے تو یہ سوڈا ڈرنکس کے مقابلے میں صحت کے لیے کہیں بہتر انتخاب ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسپارکلنگ واٹر کی خوبی یہ ہے کہ یہ سوڈا کی طلب کو تو کم کرتا ہے لیکن شکر یا کیلوریز شامل نہیں کرتا تاہم کچھ لوگ اسے عام پانی کی جگہ استعمال کرنے لگتے ہیں جو درست نہیں۔ زین مغل نے مشورہ دیا کہ اسپارکلنگ واٹر کو بنیادی مشروب کی بجائے occasional treat یا میٹھے مشروب کے healthier alternative کے طور پر لیں۔
اسی طرح ماہر غذائیت ڈاکٹر علی ندیم نے بتایا کہ اسپارکلنگ واٹر کا مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگ فلیورڈ ورژنز خریدتے ہیں جن میں چینی یا مصنوعی فلیورز شامل ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں 4 کروڑ افراد ذیابیطس کا شکار، مگر لاعلم
ڈاکٹر علی ندیم نے کہا کہ ایسے مشروب اسپارکلنگ واٹر نہیں بلکہ سادہ الفاظ میں ’سوڈا لائٹ‘ ہوتے ہیں لہٰذا صارفین کو لیبل ضرور چیک کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ ماہرین دانتوں کی صحت کے حوالے سے بھی احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ تیزابیت (acidity) طویل استعمال میں دانتوں کی انیمل کو متاثر کر سکتی ہے۔
ماہرین کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اسپارکلنگ واٹر عام سوڈا ڈرنکس کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر انتخاب ہے۔ یہ نہ صرف شکر سے پاک ہوتا ہے بلکہ اس میں نقصان دہ کیمیکل اور اضافی کیلوریز بھی شامل نہیں ہوتیں۔
تاہم اسے مکمل طور پر پانی کا متبادل سمجھنا درست نہیں اور اس کا استعمال بھی اعتدال میں ہی بہتر ہے۔
اسپارکلنگ واٹر کو اپناتے وقت صارفین کو چاہیے کہ وہ لیبلز ضرور پڑھیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ڈرنک میں واقعی شکر یا فلیورز شامل نہیں ہیں۔ روزمرہ کی پانی کی مقدار پوری کرنے کے لیے عام پانی کا استعمال جاری رکھنا چاہیے۔ دانتوں کی صحت کے لیے اسٹرا کے ساتھ پینا یا پینے کے بعد کلی کرنا بہتر ہے۔ اگر کسی کو گیس یا پیٹ کے مسائل رہتے ہوں تو اسے اسپارکلنگ واٹر کا استعمال کم کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیے: پاکستان میں 4 کروڑ افراد ذیابیطس کا شکار، مگر لاعلم
پاکستان جیسے ملک میں جہاں شوگر اور دل کی بیماریوں کی شرح بڑھ رہی ہے وہاں اسپارکلنگ واٹر کو صحت بخش طرز زندگی کی طرف ایک قدم سمجھا جا سکتا ہے بشرطیکہ اسے سمجھداری سے استعمال کیا جائے۔ یہ ایک ایسا متبادل ہے جو مزہ بھی دیتا ہے اور نقصان بھی نہیں پہنچاتا بس شرط یہ ہے کہ آپ جانتے ہوں کہ آپ کیا پی رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسپارکلنگ واٹر سوڈا ڈرنکس کولڈ ڈرنکس