فیض احمد فیض کی نظم لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے کا ذکرکیا جائے تو ذہن فوراً اقبال بانو کی طرف جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے فیض نے یہ نظم اقبال بانو ہی کے لیے لکھی تھی۔ نظم تو بہت پہلے لکھی گئی تھی لیکن اسے لوگوں نے جانا اقبال بانو کی وجہ سے۔ بعض اوقات کسی شاعر کا کلام ،کسی گلوکار کے گانے سے زیادہ مشہور ہو جاتا ہے، جیسے عابدہ پروین نے حکیم ناصر کی غزل ’’ جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے، سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے‘‘ کو گا کر امر کر دیا اور ناصر کاظمی کی غزل کو خلیل حیدر نے گا کر اپنا حق ادا کر دیا۔
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا اب باہر جاؤں کس کے لیے
اور مہدی حسن نے احمد فراز کی غزل اس انداز میں گائی کہ لوگ برسوں نہیں بھلا سکے، جب کہ یہ غزل بھی بہت پہلے لکھی گئی تھی۔
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ جانے کے لیے آ
لیکن جہاں تک اقبال بانوکا تعلق ہے انھوں نے جو بھی گایا خوب گایا۔ خواہ فلمی ہو یا غیر فلمی، ٹھمری ہو یا دادرا ہو سب میں یکتا۔ اقبال بانو 28 دسمبر 1928 کو دہلی میں پیدا ہوئیں۔ چھوٹی ہی تھیں جب گانے کا شوق ہوا۔ پڑوس میں ان کی ایک سہیلی تھی جو گاتی بہت اچھا تھی۔ اقبال بانو اس کی آواز میں آواز ملا کر گایا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنی سہیلی سے کہا کہ وہ اپنے والد سے کہے کہ وہ میرے ابا سے بات کریں اور مجھے بھی موسیقی کی تعلیم دلوائیں۔ اس سہیلی کے والد نے جب اقبال بانو کے والد سے بات کی تو انھوں نے اقبال بانو کا پڑوس میں جانا بند کروا دیا۔ تب پھر بھی سہیلی کے والد نے انھیں سمجھایا کہ میری بیٹی بھی گاتی ہے۔ اس کی آواز بھی بہت اچھی ہے لیکن جو نور آپ کی بیٹی کی آواز میں ہے وہ الگ ہی ہے۔ آپ کی بیٹی کی آواز قدرت کا عطیہ ہے۔ اس کو ضایع مت کریں۔ ان کے سمجھانے پر اقبال بانو کے والد راضی ہو گئے اور اقبال بانو کو استاد صابری خاں اور استاد چاند خاں کی شاگردی میں دے دیا گیا۔
استاد چاند خاں انھیں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں بچوں کے پروگرام میں لے گئے۔ استاد چاند خاں اور استاد صابری خاں کی شاگردی میں موسیقی کے اسرار و رموز سیکھنے لگیں۔ ان کے استادوں نے کہا کہ اقبال بانو کے اندر ایک بڑا فنکار چھپا ہے۔ اب وہ ایک کامیاب گلوکارہ بن چکی تھیں۔ وہ سیمی کلاسیکل اور غزل بہت اچھی گاتی تھیں انھوں نے ٹھمری اور دادرا کی تربیت بھی حاصل کی۔
اقبال بانو کے والد کو اب اپنی بیٹی پر فخر ہوتا تھا اور انھیں یہ بات سمجھ میں آ گئی تھی کہ اگر وہ پڑوسی کی بات نہ مانتے تو نہ صرف خود اقبال بانو کے ساتھ زیادتی ہوتی بلکہ فن کی دنیا پر بھی ظلم ہوتا ۔ انھوں نے ’’ گنڈا بندھ‘‘ بھی بندھوایا تھا جو استاد اور شاگرد کے درمیان ایک خوبصورت رشتے کا مظہر ہوتا ہے۔ ’’ گنڈا بندھ‘‘ ایک طریقے کا گنڈا ہوتا ہے جس میں گرہیں لگی ہوتی ہیں۔
آل انڈیا ریڈیو نے ان کی غزلیں ریکارڈ کیں۔ اقبال بانوکی زندگی کا پہلا ریکارڈ آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ریکارڈ ہوا۔ 1951 میں وہ پاکستان آ گئیں اپنے خاندان کے ہمراہ اور یہاں ملتان کے ایک زمیندار خاندان میں شادی کر کے ملتان ہی میں بس گئیں۔ شادی اس شرط پر کی کہ شوہر ان کے گانے پر پابندی نہیں لگائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ ان کے شوہر نے ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا، اس عرصے میں انھوں نے سیف الدین سیف اور قتیل شفائی کی غزلیں گائیں اور داد سمیٹی۔ ان غزلوں کو ماسٹر عنایت نے کمپوزکیا، ان کے علاوہ رشید عطرے نے بھی اقبال بانو کی غزلوں کو کمپوز کیا۔ اب وہ اسٹار بن چکی تھیں 1950 میں وہ بلندیوں تک جا پہنچیں۔ انھوں نے فلموں میں گیت بھی گائے اور ریڈیو پاکستان سے بھی ان کے نغمے نشر ہونے لگے۔ ان کے چند مشہور نغمے یہ تھے۔
(1)۔ پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے (فلم گمنام کا یہ گیت بہت مقبول ہوا)
(2)۔ الفت کی نئی منزل کو چلا (فلم قاتل، 1955)
(3)۔ چھوڑ ہمیں کس دیس سدھارے (فلم قاتل)
(4)۔ دو دلوں پہ ہوا الفت کا اثر (1950، فلم انتقام)
(5)۔ تاروں کا بھی تو مالک (فلم سرفروش1956)
(6)۔ پریشاں رات ساری ہے (فلم عشق لیلیٰ1957)
(7)۔ امبوا کی ڈالیوں میں جھولنا چلا جا (ناگن 1959)
اقبال بانو کی گائیکی میں حسن کی ملاحت، عشق جیسی تمکنت اور محبت جیسی وارفتگی ہے۔ انھیں کوئین آف غزل یعنی ملکہ غزل کا خطاب ملا۔ اردو غزل پر ان کا احسان عظیم ہے۔ ان کی زبان کا خالص تلفظ ان کی غزل گائیکی کا طرہ امتیاز ہے۔ ان کو بریک تھرو ملا، فیض صاحب کی نظمیں اور غزلیں گانے سے۔
باقی صدیقی کی یہ غزل دلوں کو چھو لیتی ہے۔
داغ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیے جلانے لگے
فیض صاحب کی ایک نظم اقبال بانو کی وجہ سے مشہور ہوئی۔
دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے تیرے ہونٹوں کے سراب
اقبال بانو نے سرائیکی اور فارسی میں بھی غزلیں اورگیت گائے۔ ایران اورکابل میں ان کو جشن کابل میں شرکت کا بلاوا آتا تھا، انھیں ایران بھی بلایا جاتا تھا۔
1980 میں ان کے شوہرکا انتقال ہوگیا جس کے بعد وہ لاہور آگئیں۔ پی ٹی وی نے ان کا ایک پروگرام ’’نکھار‘‘ ٹیلی کاسٹ کیا 1970 میں جس کو بہت پذیرائی ملی تھی۔
اقبال بانو کو سروں کی ملکہ بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے قلی قطب شاہ کا گیت پیا باج پیالہ پیا جائے ناکو بہت خوبصورتی سے گایا۔ ان کے تین بچے ہیں، دو بیٹے، افضل اور ہمایوں اور ایک بیٹی ملیحہ۔ سرخ و سفید رنگت کی مالک اقبال بانو نے 42 فلموں کے لیے 64 گانے ریکارڈ کروائے جن میں غیرت، غلط فہمی، انتظار، عشق لیلیٰ، قرار، آنکھ کا نشہ، حمیدہ، قاتل، گمنام، ناگن اور سرفروش سرفہرست ہیں۔ انھوں نے غالب کا کلام بھی نہایت خوبی سے گایا۔
باقی صدیقی کی غزل کا یہ شعر ہجرت کے ماروں کے دل کی آواز بن گیا۔
ایک پل میں وہاں سے ہم یوں اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
1986 میں ضیا کی آمریت کے دوران لاہور آرٹس کونسل میں فیض صاحب کی سالگرہ منائی جا رہی تھی جہاں مشاعرہ بھی تھا اور محفل موسیقی بھی۔ رات بارہ بجے مشاعرہ ختم ہوا تو لوگ جانے لگے، اسی اثنا میں ایک آواز ایسی گونجی جس نے لوگوں کے بڑھتے قدم روک لیے۔ یہ آواز تھی ملکہ غزل اقبال بانوکی۔ وہ گا رہی تھیں فیض کا کلام، سیاہ ساڑھی میں ملبوس یہ ایک طرح کا احتجاج تھا، کیونکہ فیض صاحب کے کلام پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی تھی، وہ نظم تھی۔
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل پہ لکھا ہے
جب تاج اچھالے جائیں گے
جب تخت گرائے جائیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
اقبال بانو کی آواز نے بڑھتے قدم روک لیے۔ ہزاروں کی تعداد میں بیٹھے سامعین محفل موسیقی ختم ہونے تک بیٹھے رہے۔ یہ کمال تھا ایک شاعر اور ایک مغنیہ کا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقبال بانو کے اقبال بانو کی انھوں نے فیض صاحب گئی تھی کی آواز کے والد کے لیے کی غزل
پڑھیں:
سیلابی تباہی کا تخمینہ 822 ارب روپے، وزارتِ منصوبہ بندی کی رپورٹ جاری
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا ہے کہ حالیہ سیلابوں سے پاکستان کو تقریباً 822 ارب روپے یعنی تقریباً 2.9 ارب ڈالر کا تخمینہ شدہ نقصان ہوا ہے.
جمعہ کو وزارتِ منصوبہ بندی کی ماہانہ ترقیاتی رپورٹ اور ابتدائی نقصان کے تخمینے کی رپورٹ کے اجرا کے موقع پر انہوں نے بتایا کہ ملک بھر میں ایک ہزار سے زائد قیمتی جانیں بھی سیلاب کی نذر ہوئیں۔
اپنے خطاب میں احسن اقبال نے کہا کہ حکومت نے شفافیت اور جواب دہی کو یقینی بنانے کے لیے ماہانہ کارکردگی رپورٹس جاری کرنے کا عمل باقاعدگی سے شروع کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیلاب کی تباہ کاریاں: فصلیں کتنی کم، آئندہ مالی سال کیسا ہوگا، ورلڈ بینک کے تخمینے
انہوں نے بتایا کہ سیلابوں نے بالخصوص زرعی اور انفرا اسٹرکچر کے شعبوں کو شدید نقصان پہنچایا۔
’ابتدائی تخمینوں کے مطابق زراعت کے شعبے کو 430 ارب روپے جبکہ انفرا اسٹرکچر کو 307 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب میں 2 لاکھ 13 ہزار سے زائد مکانات متاثر ہوئے، بلوچستان میں 6 ہزار سے زیادہ، سندھ میں 3,332 اور خیبر پختونخوا میں 3,200 سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا۔
مزید پڑھیں: سیلاب کی بروقت وارننگ کا نظام اپ گریڈ کرنے پر کام جاری، کتنی پیشرفت ہوچکی؟
اسی طرح آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں 3,600 سے زیادہ مکانات متاثر ہوئے، جبکہ 2,267 تعلیمی ادارے بھی نقصان کا شکار بنے۔
رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ 0.6 سے 1.2 ملین ٹن چاول کی فصل بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
معاشی محاذ پر بات کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں مہنگائی 9.2 فیصد سے کم ہو کر 4.2 فیصد پر آگئی ہے جبکہ محصولات میں 12.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: سیلاب زدگان کی امداد کا تنازع، پیپلز پارٹی اورن لیگ ایک پیج پرآجائیں گے؟
وفاقی بورڈ آف ریونیو یعنی ایف بی آر نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 2.884 کھرب روپے جمع کیے، جو گزشتہ سال کے 2.563 کھرب روپے سے زیادہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نجی شعبے اور بینک قرضوں میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کاروباری سرگرمیوں میں وسعت کا مظہر ہے، جبکہ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں 8.5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو اوورسیز پاکستانیوں کے اعتماد کی بحالی کی نشاندہی کرتا ہے۔
اپنے اصلاحاتی ایجنڈے پر روشنی ڈالتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ 2026 کو ’سالِ اصلاحات اور معیشت کی جدیدیت‘ کے طور پر منایا جائے گا۔
مزید پڑھیں: پنجاب میں سیلاب نقصانات کے سروے کے لیے فوج تعینات کرنے کا فیصلہ
انہوں نے کہا کہ حکومت بیوروکریٹک رکاوٹوں کے خاتمے، بہتر طرزِ حکمرانی اور کاروبار دوست ضوابطی نظام کے قیام پر توجہ دے رہی ہے۔
’اُڑان پاکستان” فریم ورک کے تحت حکومت کا ہدف ہے کہ 2035 تک پاکستان کو ایک کھرب ڈالر کی معیشت میں تبدیل کیا جائے، جس کے لیے تمام شعبوں میں ساختی اصلاحات کی جائیں گی تاکہ پائیدار ترقی حاصل کی جا سکے۔‘
احسن اقبال نے مزید کہا کہ پاکستان نے حالیہ دنوں میں نمایاں سفارتی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جن میں غزہ جنگ بندی کے بعد امریکا کے ساتھ دوبارہ روابط کی بحالی اور سعودی عرب کے ساتھ معاہدوں میں پیش رفت شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: سیلاب کے نام پر سیاسی دکانیں بند کردی جائیں، عظمیٰ بخاری
’حکومت ایک ایسے پاکستان کی تعمیر کے لیے پرعزم ہے جہاں ہر شہری کو باعزت روزگار، معیاری تعلیم اور محفوظ مستقبل دستیاب ہو۔‘
انہوں نے زور دیا کہ قومی یکجہتی، نوجوانوں میں سرمایہ کاری اور موثر سول سروس ہی اس وژن کی تکمیل کی کلید ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احسن اقبال تخمینہ سیلاب نقصانات