نوجوانوں میں تیزی سے بڑھتا کینسر: اہم حقائق جو نظرانداز نہیں کیے جا سکتے
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
کینسر کا نام سننا ہی ایک دھچکے سے کم نہیں، مگر جب یہ جان لیوا مرض نوجوانوں کو نشانہ بناتا ہے تو اثرات کئی گنا زیادہ تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ اس عمر میں جب لوگ مستقبل کے خواب بُن رہے ہوتے ہیں، تعلیم، کیریئر، شادی یا فیملی کی منصوبہ بندی کر رہے ہوتے ہیں، کینسر کی خبر ان سب خوابوں کو چکنا چور کر سکتی ہے۔
بدقسمتی سے گزشتہ چند دہائیوں میں 50 سال سے کم عمر افراد میں کینسر کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تحقیقی رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ نوجوانوں میں خاص طور پر آنتوں کے کینسر کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول سے وابستہ ڈاکٹر کمی این جی، جو نظامِ ہاضمہ کی ماہر اور تجربہ کار محقق ہیں، کہتی ہیں کہ یہ ایک چونکا دینے والا رجحان ہے کہ بظاہر صحت مند اور فٹ نوجوان، جن کے خاندان میں کینسر کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی، اچانک اس بیماری کی چوتھی اسٹیج میں تشخیص کے ساتھ سامنے آتے ہیں—اور ایسا اب معمول بنتا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر کمی گزشتہ بیس برسوں سے کینسر سے متاثرہ مریضوں کا علاج کر رہی ہیں اور نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے کیسز پر گہری تحقیق بھی کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1990 کی دہائی کے وسط سے اب تک ہر سال آنتوں کے کینسر کے کیسز میں دو فیصد اضافہ ہو رہا ہے، اور یہ اضافہ صرف امریکا تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں مردوں اور خواتین دونوں میں دیکھنے میں آ رہا ہے۔ نوجوان متاثرین کی اکثریت یا تو کم عمر بچوں کے والدین ہوتے ہیں، یا اپنے معمر والدین کی نگہداشت کر رہے ہوتے ہیں، یا کیریئر کی اہم ترین سطح پر ہوتے ہیں، اس لیے اس عمر میں کینسر سے مقابلہ کرنا ایک غیر معمولی ذہنی، جسمانی اور معاشی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ اگر موجودہ رجحان برقرار رہا، تو 2030 تک آنتوں کا کینسر خواتین میں کینسر سے ہونے والی اموات کی سب سے بڑی وجہ بن سکتا ہے۔ اگرچہ مجموعی طور پر نوجوانوں میں کینسر کے کیسز کی تعداد اب بھی کم سمجھی جاتی ہے، لیکن اس میں اضافہ ایک الارمنگ صورتحال ہے جس سے غفلت برتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر کمی کا کہنا ہے کہ نوجوانوں میں کینسر کی عام اقسام میں نظامِ ہاضمہ سے متعلق کینسر سرِفہرست ہیں، جیسے کہ آنتوں، معدے، غذائی نالی اور لبلبے کا کینسر۔ آنتوں کے کینسر کی ایک عام علامت پاخانے میں خون کا آنا ہے، جو کہ ایک سنگین اشارہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بغیر کسی واضح وجہ کے وزن میں کمی، مسلسل پیٹ درد، بار بار قبض یا ہیضہ، اور دائمی تھکاوٹ بھی علامات میں شامل ہیں۔ یہ تمام علامات ایسی ہیں جن پر بات کرنا بعض افراد کے لیے شرمندگی یا جھجک کا باعث بن سکتی ہے، مگر ڈاکٹر کمی زور دیتی ہیں کہ ان علامات کو نظر انداز کرنا یا چھپانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، اس لیے ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ نوجوانوں میں کینسر کی شرح میں اضافے کے پیچھے ماحولیاتی عوامل اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ چونکہ انسانی جینیاتی ساخت میں گزشتہ چند دہائیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی، اس لیے ماحولیاتی تبدیلیوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق موٹاپا، جسمانی سرگرمیوں کی کمی، غیر صحت بخش خوراک—جیسے سرخ گوشت، پراسیسڈ فوڈ، چینی اور میٹھے مشروبات—ممکنہ طور پر اس مرض کے بڑھنے کی وجوہات ہو سکتے ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر کمی نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ بہت سے مریض موٹاپے کا شکار نہیں ہوتے، اس لیے کچھ دیگر عوامل جیسے کہ پلاسٹک کے خوردبینی ذرات بھی ممکنہ طور پر خطرے کا باعث ہو سکتے ہیں، جن پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
خاندانی تاریخ بھی ایک اہم پہلو ہے۔ اگرچہ بیشتر نوجوان مریضوں میں کینسر کے موروثی ہونے کے شواہد نہیں ملتے، مگر ڈاکٹر کمی کا خیال ہے کہ ہر نوجوان مریض کا جینیاتی ٹیسٹ ضرور ہونا چاہیے، تاکہ خاندانی سطح پر کینسر کے ممکنہ عوامل کی شناخت کی جا سکے۔
یہ بات عام طور پر سمجھی جاتی ہے کہ نوجوان افراد زیادہ طاقتور جسم رکھتے ہیں اور اس لیے کینسر سے لڑنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے، مگر تحقیق کے مطابق یہ تاثر ہمیشہ درست نہیں ہوتا۔ درحقیقت، بعض تحقیقات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ 35 سال سے کم عمر افراد میں کینسر سے جلد موت کا خطرہ معمر افراد کے مقابلے میں زیادہ ہو سکتا ہے، کیونکہ بیماری کی شناخت اکثر دیر سے ہوتی ہے یا اس کی علامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
اس سب کے پیش نظر ڈاکٹر کمی کا مشورہ ہے کہ اگر آپ کی عمر 45 سال سے زائد ہے، خاندان میں کسی قسم کے کینسر کی تاریخ ہے، یا آپ کو مشکوک علامات کا سامنا ہے، تو فوراً کینسر کی اسکریننگ کروائیں۔ اس حوالے سے شرمندگی یا جھجک کا شکار نہ ہوں، بلکہ ڈاکٹر اور قریبی افراد سے کھل کر بات کریں۔ یاد رکھیں، کینسر کی جلد تشخیص نہ صرف زندگی بچا سکتی ہے بلکہ بہتر علاج کے امکانات بھی بڑھاتی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نوجوانوں میں میں کینسر کی ہو سکتا ہے کہ نوجوان ڈاکٹر کمی ہوتے ہیں کینسر سے کینسر کے کے کینسر ا نتوں رہا ہے اس لیے
پڑھیں:
ایف بی آئی کے الزامات مسترد، ایرانی سفیر نے فیصلے کو حقائق کے منافی قرار دے دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایرانی سفیر رضا امیر مقدم نے ڈائریکٹر ایف بی آئی کی جانب سے ان کا نام انتہائی مطلوب لسٹ میں ڈالنے کے فیصلے کو حقائق کے منافی قرار دیا اور لگائے گئے الزامات کو مسترد کر دیا۔
نجی نیوز چینل کے مطابق ایک انٹرویو میں ایرانی سفیر رضا امیر مقدم سے نمائندے نے سوال کیا کہ ہم نے ایک بڑی پیش رفت دیکھی کہ ایف بی آئی نے آپ کے نام کے حوالے سے ایک فیصلہ جاری کیا اور اس پر پاکستان نے جو ردعمل دیا، اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟
ایرانی سفیر نے جواب دیا کہ ’پاکستان نے اس حوالے سے ایک اچھا اور مضبوط مؤقف اختیار کیا جس پر ہم پاکستانی حکومت اور وزارت خارجہ کے بیان پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں‘۔
رضا امیر مقدم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ امریکا کی یہ عادت ہے اور ایران میں ہزاروں افراد کے خلاف اس طرح (انتہائی مطلوب) کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اور یہ ایف بی آئی کی جانب سے محض ایک الزام ہے۔
ایک پوچھے گئے سوال کہ ’کیا ایف بی آئی کے الزام سے آپ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے‘؟
ایرانی سفیر نے جواب دیا کہ ایف بی آئی کی جانب سے جس پر الزام لگایا جاتا ہے اس کے بعد جس کے خلاف الزام لگایا جاتا ہے وہ زیادہ مشہور ہوجاتا ہے لیکن اس کی حیثیت خراب نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ 16 جولائی 2025 کو امریکا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم کو اپنی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
ایف بی آئی نے ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ 2007 میں ریٹائرڈ ایف بی آئی ایجنٹ رابرٹ اے باب لیونسن کے اغوا میں ملوث تھے، باب لیونسن ایران کے جزیرہ کِش سے لاپتا ہوگئے تھے۔
رضا امیری مقدم، جنہیں احمد امیرینیا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ماضی میں ایران کی وزارتِ انٹیلی جنس و سلامتی (ایم او آئی ایس) کے آپریشنز یونٹ کے سربراہ رہ چکے ہیں، اور اس دوران انہوں نے یورپ بھر میں کام کرنے والے ایجنٹوں کی نگرانی کی، وہ اب اسلام آباد میں ایران کے اعلیٰ سفارتی نمائندے کے طور پر تعینات ہیں۔