طلبہ یونین پر پابندی: وجوہات، حقائق اور اثرات
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251018-03-3
صاحبزادہ وسیم حیدر
پاکستان میں طلبہ یونین پر پابندی اس جواز کے تحت عائد کی گئی کہ ان کی سرگرمیوں سے تعلیمی اداروں میں تشدد فروغ پاتا ہے۔ تاہم یہ مؤقف ابتداء ہی سے حقیقت کے منافی تھا اور دراصل طلبہ کی اجتماعی آواز اور نمائندگی کو دبانے کے لیے یہ پابندی عائد کی گئی۔ 2004 میں ایک تحقیقی مطالعہ (Research Study) کیا گیا، جس میں اس الزام کو سائنسی انداز میں جانچنے کی کوشش کی گئی۔ یہ تحقیق یونیورسٹی رپورٹس اور اخباری ریکارڈز پر مشتمل تھی، جس میں دو ادوار کا تقابلی جائزہ لیا گیا: 1۔ طلبہ یونین کے فعال دور (1947 سے فروری 1984 تک تقریباً 36 سال) 2۔ طلبہ یونین پر پابندی کے بعد کا دور (فروری 1984 سے 2004 تک تقریباً 20 سال)
اس تحقیق کے نتائج اس بیانیے کے برعکس تھے جس کی بنیاد پر یونین پر پابندی لگائی گئی۔ یعنی یہ تاثر کہ طلبہ یونین کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں تشدد ہوتا تھا، اعداد و شمار اس کی تردید کرتے ہیں۔ بلکہ تحقیق سے ثابت ہوا کہ یونین پر پابندی کے بعد تعلیمی اداروں میں نہ صرف تشدد میں بلکہ دیگر کئی خرابیوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔
ریسرچ کے مطابق: • یونین کے 36 سالہ دور میں 13 طلبہ تشدد کے واقعات میں جان سے گئے، جبکہ پابندی کے بعد کے 20 سال میں یہ تعداد بڑھ کر 165 طلبہ تک پہنچ گئی۔ • یونین کے دور میں 151 تصادم کے واقعات رپورٹ ہوئے، جبکہ پابندی کے بعد 525 تصادم پیش آئے۔ • یونین کے دور میں 110 طلبہ کو تعلیمی اداروں سے نکالا گیا، جبکہ پابندی کے بعد یہ تعداد 985 طلبہ تک جا پہنچی۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ یونین پر پابندی کے بعد تشدد اور بد نظمی میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ درحقیقت، اْس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو مستحکم رکھنے اور طلبہ کی سیاسی قوت کو منتشر کرنے کے لیے یونین پر پابندی عائد کی۔ اس سے پہلے ایوب خان کے خلاف تحریک چلی، تحریک ِ ختم ِ نبوت ہو یا کوئی اور عوامی مہم، ان سب میں طلبہ یونین نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جنرل ضیاء کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں طلبہ تحریک اْس کے خلاف بھی نہ اٹھ کھڑی ہو، اسی لیے اس نے طلبہ یونین پر پابندی لگا دی۔ بدقسمتی سے، جنرل ضیاء کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں نے بھی اس جمہوری روایت کو بحال کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا۔ انہوں نے صرف اعلانات اور بیانات تک خود کو محدود رکھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتیں جمہوریت کے بجائے خاندانی سیاست کے تحت چلتی ہیں۔ ان جماعتوں کے رہنما نہیں چاہتے کہ طلبہ یونین کی بحالی سے سیاسی، جمہوری اور میرٹ کلچر کو فروغ ملے، کیونکہ اس سے ان کی خاندانی اجارہ داری اور سیاسی تسلط کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
طلبہ یونین پر پابندی کی ایک اور اہم وجہ اسلام پسند طلبہ تنظیموں کی تعلیمی اداروں میں نمایاں کامیابیاں بھی تھیں، جن میں پاکستان میں اسلامی جمعیت طلبہ سرفہرست ہے۔ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ شاید یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ یونیورسٹیوں میں اسلام پسند قوتیں الیکشن جیتیں، کیونکہ نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنے والی یہ قوتیں بالآخر ملک کی سیاسی سمت متعین کر سکتی تھیں۔ اس بات کی تائید مشہور زمانہ کتاب ’’The Clash of Civilizations and the remaking of world order‘‘ (تصنیف: Samuel P.
“In most countries, fundamentalists winning control of students’ unions and similar organizations was the first phase in the process of political Islamization, with the Islamist ‘breakthrough’ in universities occurring in the 1970s in Egypt, Pakistan and Afghanistan, and then moving on to other Muslim countries. The Islamist appeal was particularly strong among students in technical institutions, engineering faculties, and scientific departments.” (صفحہ نمبر 112)
یہ اقتباس واضح کرتا ہے کہ اسلام پسند طلبہ کی سیاسی بیداری کو عالمی سطح پر بھی ایک ’’خطرہ‘‘ سمجھا گیا۔ یونین پر پابندی کے نتیجے میں نہ صرف تعلیمی اداروں کا معیار گرا بلکہ وہاں تشدد، منشیات اور حراسانی جیسے مسائل میں بھی اضافہ ہوا۔ یونین کے خاتمے کے بعد تعلیمی اداروں میں انفرا اسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ کا نظام بھی برباد ہوا۔ مثلاً یونین کے دور میں ہر جامعہ میں ٹرانسپورٹ اور ہاسٹل کا بہترین نظام ہوتا تھا، لیکن آج صورتحال اس کے برعکس ہے۔ مثال کے طور جامعہ کراچی کی یونین کے دور میں وہاں طلبہ کے لیے 105 بسیں چلتی تھیں جبکہ آج بمشکل دو درجن بسیں رہ گئی ہیں۔ اسی طرح جامعہ پنجاب، جامعہ پشاور اور قائداعظم یونیورسٹی میں آج بھی جتنے ہاسٹلز موجود ہیں، وہ زیادہ تر یونین کے دور میں قائم ہوئے۔
اس کے بعد نئے ہاسٹل بمشکل ہی بنائے گئے ہیں۔ طلبہ کسی بھی تعلیمی ادارے کے اہم اسٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں۔ انہیں نظر انداز کر کے، اور اختیارات صرف چند انتظامی افراد تک محدود کر کے، مسائل میں مزید اضافہ ہی ہوتا ہے۔ یونین کے نمائندے اکثر حکومت سے فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے، جبکہ آج انتظامیہ جو خود سرکاری ملازم ہوتے ہیں، حکومت سے کوئی مطالبہ مؤثر انداز میں نہیں کر سکتی۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر تعلیمی اداروں خصوصاً جامعات کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ آج پاکستان کی 266 جامعات میں سے کوئی بھی عالمی درجہ بندی کی ٹاپ 300 میں شامل نہیں۔ لہٰذا، ایک جمہوری و فلاحی ریاست میں، جہاں نوجوان آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہیں، انہیں ان کے بنیادی جمہوری پلیٹ فارم ’’طلبہ یونین‘‘ سے محروم رکھنا نہ صرف غیر دانشمندانہ ہے بلکہ قومی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: طلبہ یونین پر پابندی یونین پر پابندی کے تعلیمی اداروں میں یونین کے دور میں پابندی کے بعد کے لیے
پڑھیں:
قرض کے مضر اثرات
جب آپ صبح سویرے اٹھ کر شہر کی سڑکوں پر قدم رکھتے ہیں تو ٹوٹی ہوئی سڑکیں ارد گرد ٹوٹی پھوٹی بسیں ویگنیں، رکشے، بجلی کی ٹوٹی ہوئی تاریں، اجاڑ پارک، ریلوے اسٹیشن کی پرانی قدیم عمارتیں اور بہت کچھ اشارہ کر رہی ہوتی ہیں کہ پاکستان ایک غریب ترین ملک ہے۔ یہاں کے عوام کی مفلوک الحالی پچکے ہوئے چہرے، بچوں کی سوکھی ٹانگیں، بوڑھوں کی پریشان جبینیں اور بہت کچھ سدا بہار مفلسی کا فسانہ سنا رہے ہوتے ہیں۔
ایک طرف عوام کی مفلوک الحالی، دوسری طرف معاشی ترقی کے بیانیے، ترسیلات زرکے اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ قرض کے لامتناہی سلسلے کی کہانی اور اس پر آئی ایم ایف کی طرف سے مزید قسطوں کے اجرا پر خوشی کا اظہار، ورلڈ بینک سے قرض وصولی پر اطمینان کا شکرانہ، یوں معلوم دیتا ہے کہ جیسے جیسے شرح سود پر قرض کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے، ہر حکومت کی خوشی اسی میں ہوتی ہے کہ حکومت قائم رکھنے کے لیے جتنا ہو قرض لیا جائے۔ فکر کی کوئی بات نہیں ہوتی کیونکہ قرض حکومت لیتی ہے اور قرض کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔
ایک ماہ قبل اخباری اطلاع کے مطابق سوا تین لاکھ روپے کا مقروض ہر شہری ہے۔ ایک اور اطلاع کے مطابق ساڑھے تین لاکھ روپے فی شہری پر قرض کا بوجھ ہے۔
قرض کے ساتھ قرض پر سودکا بوجھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق اکثر قرض اتنا ہی رہتا ہے لیکن سود کی ادائیگی میں اربوں روپے ادا کیے جاتے ہیں جو قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ نگل رہے ہیں، لیکن قرض کی ادائیگی میں فی شہری پر جس طرح سے قرض کا بوجھ ساڑھے تین لاکھ تک ہے تو اس میں امیر غریب، بچے بوڑھے، جوان، مرد و زن کے درمیان سادات کا قانون نافذ کیا جاتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ قرض کی ادائیگی ایک ایسا فرض ہے جس میں ہر شہری برابر ہے۔
چلیے ایک موقع پر ایک بات ایسی سامنے آ گئی جس میں سب کے حقوق برابر ہیں، لیکن قرض کے بار اور قرض کے بوجھ کے اثرات کے تحت غریب اور امیر ہر اثرانداز ہوتے ہیں۔ قرض نے بھی ستم ظریفی دکھائی ہے کیونکہ قرض کا بوجھ ان شہریوں پر زیادہ مضر اثرات مرتب کرتا ہے جو پہلے ہی غریب ہیں، مفلوک الحال ہیں، مزدور ہیں، بے روزگار ہیں۔
اس قرض کے بوجھ کو غریب کمزور طبقات کے لیے مارکیٹ کی ناکامی کے طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے اور پاکستان کی معیشت نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے،کیونکہ معاشی نظام میں قرض کے غالب ہونے، شرح سود کی رقوم میں اضافے یعنی بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ اس کے لیے مختص کیا جاتا ہے، لہٰذا یہ نظام غریب کو مزید غریب بنا رہا ہے ایک طرف ترقیاتی اخراجات میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جس سے ملک اب فلاحی مملکت کی حیثیت سے گر کر درآمدی معیشت والی حیثیت اختیار کیے جا رہا ہے جس سے غریب مزید غریب یا مزدور کا بچہ مزدور، بے روزگاری ہونے کے باعث زمین پر غیر پیداواری محنت کا حصہ بڑھ رہا ہے۔
مثلاً کسی بوڑھے بابا کی 5 بیگھہ زمین ہے یا اس کے پاس 15 ایکڑ زمین ہے بوڑھے بابا نے زمینداری چھوڑ دی۔ اب اس کے جوان بیٹے زمین کو سنبھالتے ہیں۔ فرض کیا اس پر پہلے ہی تین بیٹے کام کر رہے ہیں اب چوتھا بیٹا روزگار کی تلاش میں بڑے شہرگیا، چند ہفتوں کے بعد اس نے واپس آ کر شاید یہ بتایا ہوگا کہ شہر میں کارخانوں کو تالے لگ گئے ہیں اور جو کارخانے کام کر رہے ہیں، ان میں مزدوروں کی قطار لگ جاتی ہے۔
شام کو اس قطار میں سے محض چند افراد کو کام پر رکھ لیا جاتا ہے، باقی سے معذرت کر لی جاتی ہے۔ بابا نے شاید یہ پوچھا ہو کہ بند کارخانوں کے سیٹھ صاحبان اب کیا کرتے ہیں اس نے جو باتیں شہر جا کر سنی تھیں وہ اپنے والد بزرگوار کو سنا دیں کہ بہت سے مل والے بنگلہ دیش چلے گئے ہیں اور چند دیگر ملکوں کو، زیادہ تر دبئی جا کر کوئی کاروبار کر رہے ہیں اور جو رہ گئے انھوں نے اپنے کارخانوں کو گودام میں تبدیل کر دیا۔ کہیں گندم کی بوریاں ذخیرہ کر دی جاتی ہیں۔
کہیں آٹا، گھی، چینی، دال اورکہیں کئی اقسام کے پھل جب ماہ رمضان المبارک آتا ہے تو بڑے لوگ بڑھتے ہوئے داموں میں ان سب کو فروخت کر دیتے ہیں اور مارکیٹ میں کبھی آٹے کی قلت کبھی دال کبھی گھی کبھی چینی کی قلت دور کرنے پر زیادہ سے زیادہ دام لے کر آٹا چینی چاول،گھی، دالیں فروخت کر دی جاتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ منافع بھی کما لیا اور حکومتی طرح طرح کے قانون کے باعث تنگ آئے ہوئے کارخانہ داروں کا بغیرکسی جھنجھٹ کے کروڑوں روپے کمانے کا ہنر بھی ہاتھ آگیا یا پھر پلاٹ کی خرید و فروخت کرتے کرتے چند لاکھ کا پلاٹ اب کروڑوں روپے کا ہو گیا ہے۔ بوڑھے کسان نے ایک لمبی آہ بھری ہوگی اور کہا ہوگا کہ ٹھیک ہے جب ملک کے معاشی نظام کو سود کے بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے تو ایسی صورت میں ملک میں روزگار کیسے آئے گا، مہنگائی بڑھتی چلی جائے گی اور لوگ غریب سے غریب تر ہوتے چلے جائیں گے۔
اب وہ بیٹا بھی چھوٹے سے قطعہ زمین پر بھائیوں کا ہاتھ بٹانے لگ جاتا ہے۔ اب ایک قطعہ زمین پر زیادہ سے زیادہ دو ہی افراد کافی تھے، اب اس میں چار افراد جب کام کریں گے تو دو افراد بے روزگاری کے ضمن میں آ جاتے ہیں کیونکہ زمین نے اتنی ہی پیداوار دینی ہے۔
مزید دو افراد زمین کی پیداوار میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کر سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ بوڑھے کسان کے پوتے کسی کی عمر 12 سال کسی کی عمر 15 سال ہے تو اسے خیال آتا ہوگا کہ جلد ہی اس کھیت پر مزید دو افراد کا بوجھ آن اترے گا۔ یوں کل 6 افراد چھوٹے سے قطعہ زمین پر راج کریں گے۔ پہلے جیسی مقدار میں اناج اٹھائیں گے یوں معاشرے میں افراد کا اضافہ ہو رہا ہے، آبادی بڑھتی جا رہی ہے ملک میں بتدریج غریب افراد کا مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ قرض کا بوجھ ہے جس نے غریب افراد کی آبادی میں مسلسل اضافہ کر دیا ہے اور اس کے ساتھ سود کی رقم بڑھتی چلی جا رہی ہے اور یہ سود ہی ہے جو معیشت کو نگل رہا ہے غریب اور امیر کا فرق بڑھا رہا ہے۔