شرم الشیخ معاہدہ: وجوہات اور امکانات
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
غزہ جنگ سے متعلق ہونے والا شرم الشیخ معاہدہ، اس کے مندرجات اور 3 مراحل سے متعلق ساری تفصیلات ہر جگہ رپورٹ ہوچکیں۔ سو انہیں دہرانے کی بجائے سیدھا چلتے اس معاہدے سے جڑے کچھ دیگر اہم پہلوؤں کی جانب۔ سب سے پہلا سوال تو یہی بنتا ہے کہ کیا یہ مشرق وسطیٰ امن معاہدہ ہے؟ اس کا بہترین جواب سابق روسی صدر دمیتری میدوادیف کی ٹوئٹ میں ہے۔
میدوادیف نے نے لکھا کہ ’اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی بلاشبہ ایک اچھی بات ہے، مگر اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جب تک اقوام متحدہ کی معروف قراردادوں کے مطابق ایک مکمل فلسطینی ریاست قائم نہیں کی جاتی، کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ جنگ جاری رہے گی، اور یہ بات سب جانتے ہیں‘۔
اس ٹوئٹ کی اہمیت یہ ہے کہ میدوادیف محض سابق صدر نہیں بلکہ رشین سیکیورٹی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین ہیں۔ یہ عہدہ انہیں رشین سیٹ اَپ میں صدر ویلادیمیر پیوٹن کے بعد دوسری اہم ترین سرکاری شخصیت بناتا ہے۔ سو بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملٹی پولر ورلڈ کی تیسری بڑی پاور شرم الشیخ معاہدے کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے۔ اب سوال آجاتا ہے کہ کیا پھر یہ معاہدہ کسی بھی کام کا نہیں ؟ اس کا جواب روس کے ہی لیجنڈری وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے بیان میں موجود ہے ’ایک بڑی خونریزی کا رک جانا بھی ایک اچھی پیشرفت ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: پاک سعودی تعلقات اور تاریخی پس منظر
اب آجاتا ہے سب سے اہم سوال کہ نیتن یاہو تو ابھی 3،4 ہفتے قبل ہی پورے غزہ کو مٹانے کے مشن پر نکلا تھا، پھر اچانک یہ بڑی پیشرفت کیسے ممکن ہوگئی؟ اگر آپ نے دو برس کی غزہ جنگ کو تسلسل کے ساتھ فالو کیا ہو تو یاد ہوگا کہ غزہ پر چڑھائی کرتے وقت نیتن یاہو نے اپنا ہدف حماس کا خاتمہ بتایا تھا۔ مگر جب حماس نے اسرائیلی فوج کے ہی 14 طبق روشن کرنے شروع کیے تو نیتن یاہو سویلینز کے قتل عام پر اتر آیا۔ جب اس سے بھی کچھ فرق نہ پڑا بلکہ الٹا اسرائیل کے خلاف ہی عالمی ردعمل شروع ہوگیا، جو عوامی و حکومتی دونوں طرح کا تھا تو نیتن یاہو نے غزہ کا آنگن ٹیڑھا بتا کر لبنان کا رخ کرلیا۔ کوئی شک نہیں کہ اس نے حزب اللہ کو بہت بڑے نقصان سے دوچار کیا مگر لوٹ کر اسے اب پھر غزہ کی طرف ہی آنا تھا جو اس کے گلے کی ہڈی بن چکا تھا۔
اب بھی غزہ میں حماس کے خاتمے کا امکان دور دور نظر نہ آیا تو ایک بار پھر آنگن ٹیڑھا ہونے کی شکایت کی اور بتایا کہ ایران کی انقلابی حکومت کا خاتمہ ہوجائے تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ایران والا شوق بھی تل ابیب کے کھنڈر میں تبدیل ہونے کے امکانات پیدا کرنے لگا تو ٹرمپ کے پیر پکڑ کر اس شوق سے فرار کی راہ اختیار کرلی۔
اس سب کے دوران اسماعیل ہانیہ، حسن نصر اللہ اور یحی سنوار کو بھی نیتن یاہو نے شہید کر ڈالا مگر حماس کے خاتمے والی منزل کے نشان دور دور نظر نہ آئے۔ آخر میں آکر 2 ایسے واقعات ہوگئے جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے پیروں تلے زمین سرکانی شروع کردی۔ اور یہی وہ وجہ بنی جس کا نتیجہ شرم الشیخ معاہدے کی صورت سامنے آیا۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے سے متعلق ابھی بات چیت ہی نہیں ہوئی اور پہلے مرحلے کے خد و خال طے ہوتے ہی معاہدہ سائن کرنے سے واضح ہے کہ ٹرمپ کو بہت جلدی تھی۔
ٹرمپ کے پیروں تلے زمین سرکانے والا پہلا واقعہ امریکا میں چارلی کرک کا قتل تھا۔ یہ ریپبلکنز نوجوانوں میں سب سے زیادہ مقبول یوٹیوبر تھا، جس کے ملینز کے حساب سے فالوور تھے۔ اس قتل نے اسرائیل کو اتنا بڑا نقصان پہنچایا ہے کہ تجزیہ کاروں کے مطابق اس کے نتائج آگے چل کر یوں بھی ظاہر ہوسکتے ہیں کہ امریکا میں موجود اسرائیل کا پورا سپورٹ بیس ہی ختم ہوجائے۔ سو اسے سمجھنا بیحد ضروری ہے۔
آپ نے کرسچینز کے ایونجیلیکل فرقے کا نام تو سنا ہوگا۔ اسے ماننے والوں کی تعداد امریکا میں 30 فیصد ہے۔ اور یہ سب کے سب اسرائیل کے سپورٹر ہی نہیں بلکہ ریپبلکن بھی ہیں۔ اسرائیل کے لیے ان کی سپورٹ محض سیاسی نہیں بلکہ مذہبی مذہبی عقیدے میں شامل ہے۔ سو سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس فرقے کے اسرائیل کی نسبت سے مذہبی عقائد کیا ہیں؟ اسی سے واضح ہوجائے گا کہ ان کی حمایت اسرائیل کے لیے بے پناہ اہم کیوں ہے؟ اسرائیل کی نسبت سے ان کے اہم عقائد یہ ہیں۔
٭ قرب قیامت میں حضرت عیسی علیہ السلام کا دوبارہ ظہور ہوگا
٭ یہودی قوم کا ارضِ مقدس (فلسطین) میں دوبارہ آباد ہونا، بائبل کی پیشگوئیوں کی تکمیل اور حضرت عیسی علیہ السلام کی دوبارہ آمد کی شرط ہے۔ یوں اسرائیل کا قیام الہی منصوبے کا حصہ ہے۔
٭ تمام یہودیوں کی مقدس سرزمین میں واپسی ضروری ہے تاکہ قیامت کے واقعات وقوع پذیر ہوں۔
٭ ایک دن دنیا کے تمام یہودی اسرائیل واپس آئیں گے۔
٭ بیت المقدس میں تیسرا ہیکل دوبارہ تعمیر ہوگا۔
٭ اس کے بعد دجال کا ظہور ہوگا۔
٭ پھر حضرت عیسی علیہ السلام آئیں گے اور آخری بڑی جنگ میں شیطان کو شکست دے کر اپنی بادشاہت قائم کریں گے جو 1000 سال چلے گی۔
٭ دنیا کی روحانی گھڑی اسرائیل کے واقعات سے چلتی ہے ، یعنی جو کچھ اسرائیل میں ہوتا ہے، وہ قیامت کے قریب ہونے کی علامت ہے۔
٭ سو یہودی خدا کے چنے ہوئے لوگ ہیں۔
٭ لہٰذا، اسرائیل کی مدد کرنا خدا کی مرضی پوری کرنا ہے۔
٭ اسرائیل کا وجود اور اس کا دفاع ایمان کا حصہ ہے۔
ان عقائد کو کو پڑھ کر یقینا آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہوگا کہ پھر ایونجیلیکل فرقہ کرسچین کیوں ہے ؟ یہ خود بھی یہودی مذہب کیوں قبول نہیں کرلیتا؟ اس کا جواب ان کے اسرائیل سے جڑے آخری عقیدے میں ہے۔
’آخر میں تمام یہودی یا تو مسیحی ایمان قبول کریں گے یا تباہ ہو جائیں گے’۔
جیسا کہ ہم عرض کرچکے کہ یہ امریکی آبادی کا 30 فیصد ہیں، یوں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ امریکا میں اسرائیل کی طاقت صرف وہ اسرائیلی لابی نہیں جس کے چند ارب پتی یہودی بزنس مینوں نے پورے امریکی سسٹم کو خرید رکھا ہے۔ بلکہ عوامی حمایت کے طور پر ایونجیلیکل فرقہ بھی موجود ہے۔ کرسچین صہینیوں سے یہی لوگ مراد ہیں۔ اس فرقے کا معاملہ فقط عوامی نہیں، بلکہ رونالڈ ریگن، بش جونیئر، ڈونلڈ ٹرمپ، ٹرمپ کے پہلے دور صدارت کے نائب صدر مائیک پینس، سینیٹر ٹیڈ کروز اور نکی ہیلی یہ سب اایونجیلیکل فرقے کے ہیں۔یعنی یہ سیاسی سطح پر بھی بہت پاور فل پوزیشن میں ہیں۔
اب ایک بار پھر آجایئے چرلی کرک والے معاملے کی جانب۔ وہ بھی ایونجیلیکل فرقے سے تعلق رکھتا تھا اور اسرائیل کا بہت بڑا حامی تھا۔ اور اسے اسرائیلی لابی کی جانب سے 80 ملین ڈالر سالانہ فنڈ ملتا تھا۔ لیکن جب غزہ قتل عام حد سے بڑھا اور نوبت قحط سے لوگوں کو مارنے کی آگئی تو چارلی کرک اسے برداشت نہ کرسکا۔ اس نے اوپر تلے اسرائیل کے خلاف پروگرام کرڈالے۔ جس پر اس کے ایک صہیونی ڈونر نے اسے فنڈز روکنے کی دھمکی دی۔
اس دھمکی کے بعد وہ اسرائیل کے خلاف مزید شدت اختیار کرگیا۔ یہ وہ موقع تھا جب نیتن یاہو نے مداخلت کی اور چارلی کو اسرائیل آنے کی دعوت دی اور یہ خوشخبری دی کہ وہ اس کا 80 ملین ڈالر والا فنڈ ڈبل کروانے لگا ہے۔ مگر چارلی نے اسرائیل جانے سے بھی انکار کردیا۔ یہ جو کچھ ہم نے عرض کیا یہ سب امریکا کے تین بڑے صحافیوں ٹکرکارلسن، میگن کیلی اور میکس بلومنتھال سمیت لاتعداد صحافی اور یوٹیوبرز رپورٹ کرچکے ہیں۔ ان سب نے ایک بہت ہی اہم انکشاف اور بھی کیا ہے۔ وہ یہ کہ چارلی کرک ایونجیلیکل فرقہ ترک کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا بس عملدارآمد باقی تھا۔
مزید پڑھیے: افغانوں کی عسکری حقیقت
اس پس منظر میں جب چارلی کا قتل ہوا تو اس نے پوری ریپبلکن پارٹی کی جڑیں ہلادیں۔ مگر ساتھ ہی ایک اور چیز نے پورے ایونجیلیکل فرقے کو چونکا دیا۔ قتل کے تقریباً فورا بعد نیتن یاہو میڈیا پر آیا اور اس نے چارلی کو اسرائیل کاسب سے بڑا حامی ظاہر کرکے کچھ ایسی باتیں بھی کہہ دیں جن سے ایونجیلیکل فرقے کی یہ رائے بن گئی کہ چارلی کے قتل کے پیچھے کہیں نہ کہیں نیتن یاہو موجود ہے۔
ریپبلکنز یوٹیوبرز اور صف اول کے صحافی اب تک چارلی کے مسئلے پر مسلسل ویلاگز، انٹرویوز، اور پوڈکاسٹ کر رہے ہیں۔ یہ سب بات یہاں سے شروع کرتے ہیں ’ہم یہ نہیں کہتے کہ چارلی کو نیتن یاہو نے قتل کیا ہے‘ مگر اس کے بعد ہر ایک کا پورا پروگرام چلتا نیتن یاہو کے ہی خلاف ہے۔ یوں کہا یہ جا رہا ہے کہ اب ایونجیلیکل فرقے میں اسرائیل کی حمایت مکمل ختم ہونے کے قریب ہے۔ اگر آپ یاد کیجئے تو اس جانب دوبار خود دونلڈ ٹرمپ نے بھی اشارہ کیا۔ پہلی بار ٹرمپ نے کہا ’میں نے نیتن یاہو سے کہا ہے کہ تم امریکی نوجوانوں میں تیزی سے حمایت کھو رہے ہو‘۔
اور دوسری بار ٹرمپ نے شرم الشیخ سے کچھ دن قبل کہا میں نے نیتن یاہو سے کہا، اب پوری دنیا تمہارے خلاف ہوچکی ہے۔ تم سب سے نہیں لڑ سکتے۔ بند کرو جنگ‘۔
حالیہ عرصے میں وہ دوسرا واقعہ جس نے ٹرم کے پیروں تلے زمین سرکائی قطر پر اسرائیلی حملہ تھا۔ امریکا دہائیوں سے عرب ریاستوں کی سیکیورٹی کا گارنٹر تھا۔ نیتن یاہو کے اس اقدام نے امریکی گارنٹی کی ہی وقعت خاک میں ملادی۔ اس سے مشرق وسطی میں امریکا کے لیے سنگین مسائل پیدا ہونے کا امکان پیدا ہوگیا تھا۔ اور سعودی عرب نے پاکستان سے سیکیورٹی معاہدہ کرکے اس جانب واضح اشارہ بھی دیدیا تھا کہ ہمیں اب امریکی سیکیورٹی پر اعتماد نہیں رہا۔
یوں ٹرمپ کو صورتحال سنبھالنے کے لیے کودنا ہی پڑ گیا۔ امریکا کے باخبر حلقے اس پورے معاملے میں اسی کارڈ کی جانب اشارہ کر رہے ہیں جس سے اسرائیل کی جان جاتی ہے۔ یہ کارڈ ہے امریکا کی جانب سے اسرائیل کی مالی و دفاعی ہر طرح کی امداد بند کرنے کی دھمکی۔ جس کے بغیر اسرائیل اپنا وجود ہی برقرار نہیں رکھ سکتا۔
مزید پڑھیں: کھیل سے جنگ
اس 2 سالہ جنگ کے نتائج ایک مستقل کالم کے متقاضی ہیں۔ لیکن فی الحال مختصر سی بات یہ سمجھ لیجیے کہ اس جنگ نے امریکا سمیت پوری دنیا میں یہ سوال کھڑا کردیا ہے کہ کیا ایسی ریاست کو برقرار رہنے کی اجازت دینی چاہیے؟ یہ اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ زیر بحث سوال ہے۔ اور سوال بھی ایسا جو اسرائیل کے وجود کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ اس سے جان چھڑانے کی سبیل اب یہ ہوگی کہ ٹرمپ انتظامیہ ابراہیمی معاہدے پر عملدرآمد کے لیے بہت زیادہ سرگرمی دکھائے گی۔
امریکی انتظامیہ اس سلسلے میں ٹرمپ کو مسکے لگانے والے چاچو اعظم پر بھی یقینا شدید دباؤڈالے گی۔ شرم الشیخ میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کا ذکرکی تک نہ تھی، خود یہ ذکر ہی بڑا معنی خیز ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کے ہماری طرف کیا چل رہا ہے، ہم بس اتنا بتا رہے ہیں امریکا کی طرف ہمیں کیا نظر آرہا ہے۔ سو ارباب اختیار کو بہت محتاط رہنا ہوگا ورنہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا الزام عمران خان سے ان کی جانب شفٹ ہونے میں بس لمحے ہی لگیں گے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ چاچوئے اعظم اور کمانڈر اعظم یہ بوجھ سہار پائیں گے !
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا امن معاہدہ شرم الشیخ معاہدہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نیتن یاہو نے اسرائیل کی اسرائیل کے اسرائیل کا امریکا میں شرم الشیخ ضروری ہے کی جانب ٹرمپ کے کے لیے اور اس اور یہ کے بعد
پڑھیں:
نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی برقرار، غزہ میں دوبارہ کارروائی کا عندیہ دے دیا
تل ابیب(انٹرنیشنل ڈیسک) جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ غزہ میں فوجی کارروائی ابھی ختم نہیں ہوئی، ان کے مطابق اسرائیل کو اب بھی بڑے سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔
قوم سے خطاب میں نیتن یاہو نے کہا کہ “ہمارے کچھ دشمن دوبارہ منظم ہو کر حملے کی تیاری کر رہے ہیں، لیکن ہم مکمل طور پر تیار ہیں۔” انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی فوج نے جہاں بھی لڑائی کی، وہاں کامیابی حاصل کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ کامیابیوں کے بعد اسرائیل کے لیے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں اور اگر قوم متحد رہے تو وہ تمام چیلنجز پر قابو پا سکتی ہے۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا یہ بیان جنگ بندی کے بعد امن عمل کے لیے ایک منفی اشارہ ہے اور اس سے خطے میں کشیدگی دوبارہ بڑھنے کا خدشہ ہے۔