استعمال شدہ الیکٹرک گاڑی میں بیٹری کتنی کارگر ہوتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
جب ہم استعمال شدہ الیکٹرک کار خریدنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو سب سے بڑا سوال یہ ہوتا ہے کہ بیٹری کی حالت کیسی ہوگی؟
یہ بھی پڑھیں: نیپرا نے کے الیکٹرک پر کروڑوں روپے جرمانہ کیوں عائد کیا؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انگلینڈ کے کیری ڈنسٹن اور ان کے ساتھی نے کے سامنے بھی یہی سوال تھا۔ انہوں نے سنہ 2021 ماڈل نسان لیف دیکھی جس نے صرف 29،000 میل چلائی تھی اور ڈیلر نے انہیں بیٹری ہیلتھ کے حوالے سے بتایا کہ وہ تقریباً 93 فیصد فٹ ہے۔
یہ سن کر وہ قائل ہو گئے اور 12,500 پاؤنڈ میں ایک بڑی بیک کار اور کشادہ نشستوں والی الیکٹرک گاڑی خرید لی۔
ڈنسٹن کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ شوقین گاڑی پسند کرتے ہیں اور نسان لیف ان کی پسند کے مطابق کچھ خاص نہیں، مگر 3 مہینے استعمال کرنے کے دوران گاڑی ان کی توقعات پر پوری اتری۔
بیٹری کی صحت سب سے اہم فیکٹرپرانی گاڑیاں خریدتے وقت لوگ عمر اور میلز کو دیکھتے تھے مگر الیکٹرک گاڑیوں میں بیٹری کی حالت اب سب سے اہم چیز بن گئی ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان الیکٹرک وہیکل سیکٹر میں اہم سنگ میل، مقامی طور پر اسمبل الیکٹرک کاریں لانچ
کیا پچھلے مالک نے بیٹری کا صحیح خیال رکھا؟ مثلاً کیا وہ اکثر بیٹری کو 100 فیصد تک تیز چارج کرتا تھا کیونکہ اس سے بیٹری کی زندگی کم ہو سکتی ہے۔
بیٹری کی اس ’بلیک باکس‘ مسئلے نے کچھ خریداروں کو استعمال شدہ الیکٹرک گاڑیاں خریدنے سے روک دیا ہے لیکن بیٹری انیلیٹکس کمپنیز کہتی ہیں کہ وہ بیٹری کی حالت کو بہت درست طریقے سے جانچ سکتی ہیں۔
جدید بیٹری جانچ کی سہولتآسٹریا کی کمپنی Aviloo کا کہنا ہے کہ وہ مکمل طور پر آزادانہ طور پر بیٹری کی صحت معلوم کر سکتے ہیں۔
یہ کمپنی 2 طرح کی جانچ فراہم کرتی ہے۔ ایک پریمیم ٹیسٹ جس میں ایک چھوٹا سا ڈیوائس گاڑی میں لگایا جاتا ہے اور چند دن تک بیٹری کی کارکردگی ریکارڈ کی جاتی ہے۔
ایک فوری ’فلیش ٹیسٹ‘ جو 2 منٹ میں بیٹری مینجمنٹ سافٹ ویئر سے ڈیٹا لے کر تجزیہ کرتا ہے۔
بیٹری کی حالت اور قیمتAviloo کے سی ای او مارکس برگر کہتے ہیں کہ بیٹری کی صحت 80 فیصد سے کم ہو جانے کا مطلب یہ نہیں کہ گاڑی ناقابل استعمال ہے۔ ایسی گاڑی اب بھی اچھی ہو سکتی ہے، بس قیمت مناسب ہونی چاہیے۔
مزید پڑھیں : اسٹیٹ بینک کی الیکٹرونک بائیکس اور رکشہ اسکیم، عام پاکستانی کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
نیوزی لینڈ میں ایک صارف نے بتایا کہ ان کی نسان لیف کی بیٹری کی حالت شروع میں 95 فیصد تھی مگر بعد میں ایک میکینک کے معائنے کے بعد کم ہو گئی۔ مگر وہ روزمرہ کے چھوٹے سفر کے لیے کافی ہے۔
مارکیٹ میں بیٹری رپورٹ کی اہمیتانگلینڈ میں ایک ای وی سیلز ڈائریکٹر ڈیوڈ اسمتھ کہتے ہیں کہ استعمال شدہ الیکٹرک گاڑی خریدنے والے زیادہ تر خریدار بیٹری کی صحت کی رپورٹ مانگتے ہیں اور اس رپورٹ سے گاڑی کی فروخت میں مدد ملتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: الیکٹرک کار GiGi منی کی قیمت میں بڑی کمی
کلیولی الیکٹرک وہ کمپنیاں ہیں جو ایسی رپورٹس فراہم کرتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ بیٹری کے مخصوص سیلز یا ماڈیولز کو تبدیل کرنا پوری بیٹری بدلنے سے کہیں سستا ہوتا ہے۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی سیمونا اونوری کہتی ہیں کہ بیٹری کو فاسٹ چارجنگ سے بچانا چاہیے لیکن کبھی کبھار اسے مکمل چارج کرنا بھی ضروری ہے تاہم اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
بیٹری ٹیکنالوجی میں بہتریمارکیٹ ریسرچ فرم سی آر یو کے میکس ریڈ کا کہنا ہے کہ نئی بیٹریاں پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ چارجنگ سائیکل برداشت کر سکتی ہیں جہاں پرانی بیٹری 500 سے 1000 سائیکل برداشت کرتی تھی اور نئی بیٹریاں 10،000 سائیکل تک جا سکتی ہیں۔
ڈورسٹ کی کمپنی سیکنڈ لائف ای وی بیٹریز کے پال چانڈی کہتے ہیں کہ خراب ہو چکی بیٹریاں بجلی ذخیرہ کرنے کے لیے بشمول کمپنیوں کے برقی فورک لفٹ کے چارجنگ سسٹمز میں استعمال کی جا سکتی ہیں۔
بیٹری ہیلتھ کی پیمائش کے معیارات میں بہتری کی ضرورت ہے تاکہ مختلف کمپنیوں کی رپورٹس زیادہ یکساں اور قابل اعتماد ہوں۔
مزید پڑھیں: چین کی سب سے بڑی کارساز کمپنی پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں لانچ کرنے کے لیے پُرعزم
اگر آپ بھی استعمال شدہ الیکٹرک گاڑی خریدنے کا سوچ رہے ہیں تو بیٹری کی حالت کی جانچ کرنا آپ کے لیے ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
استعمال شدہ الیکٹرک کار کی بیٹری الیکٹرک کار الیکٹرک کار کی بیٹری الیکٹرک کار کی بیٹری ہیلتھ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: الیکٹرک کار الیکٹرک کار کی بیٹری بیٹری کی حالت بیٹری کی صحت الیکٹرک کار میں بیٹری کہ بیٹری سکتی ہیں کی بیٹری میں ایک ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
دنیا جمہوریت آمریت سے بد تر ہوتی جا رہی ہے ؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا بھر میں جمہوریت کا خاتمہ کیو ں ہے ، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عوام کو اس نظام نے کچھ دینے کے بجائے جمہوری حکومتوں نے عوام سے سب کچھ چھین لیا ہے۔ دوسری جانب اس نظام کو اس اصل روح کے مطابق چلایا نہیں جارہا ہے-
جنوبی ایشیا میں دنیا کی 8 ارب آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی اور ایشیا کی تقریباً نصف آبادی رہتی ہے، جس سے خطے کو ڈیموگرافک، سیاسی اور معاشی طور پر بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
سوائے افغانستان کے، اس خطے میں دیگر 7 ممالک میں جمہوریتیں ہیں۔ ان میں رجسٹرڈ ووٹروں کے لحاظ سے دنیا کی 10 بڑی جمہوریتوں میں سے 3 ملک یعنی انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔
ایک محدود سروے کے مطابق جن ممال میں جمہوریت چلائی جا رہی ہے وہاں بھی اس میں آمریت کی ملاوٹ کی جارہیہے۔انڈیا اور پاکستان میں جمہوریت اور اس کے معیار کا نیا درج حرارت حال ہی میں چیک کیا گیا ہے، جبکہ بنگلہ دیش چند ہفتے میں انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک نئے آئینی طریقہ کار کا اعلان کر رہا ہے۔ ایک ایسے خطے کے لیے جو اپنی منتخب جمہوری اقدار پر فخر کرتا ہے، تشخیص اچھی نہیں لگ رہی۔
جمہوریت کی ناکامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ اکثریت کے ووٹوں کو پوری دنیا اور جنوبی ایشیا اور پاکستان میں عزت دینے کے بجائے روندا جاتا ہے ۔انڈیا نے ابھی بہار میں ریاستی انتخابات منعقد کیے ہیں، جو وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی مقبولیت اور مذہبی رنگت والے قوم پرست سیاسی ایجنڈے کے لیے ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ پاکستان میں وزیراعظم شہباز شریف کی پالیسیوں کی حمایت کے اسی طرح کے ٹیسٹ کے ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات منعقد ہوئے۔
دونوں ممالک میں مودی کی بی جے پی اور شریف کی مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکمران اتحادوں نے قومی اور علاقائی اسمبلیوں میں اپنی اکثریت کو بہتر بنایا۔ دونوں پارٹیوں نے رائے عامہ کے کچھ جائزوں کے برخلاف اپنے اپنے سیاسی حریفوں کو شکست دی۔
تکنیکی طور پر ان نتائج میں قانونی لحاظ سے کچھ بھی غلط نہیں ہے، اپوزیشن عام طور پر نتائج کو قبول کرتی ہے اور فاتحین اپنے غلبے کا جشن منا رہے ہیں۔
لیکن دونوں ممالک میں آئینی جمہوری فریم ورک کے اندر منعقد ہونے والی اس انتخابی مشق کی سیاست کے بارے میں کچھ پریشان کن ہے۔
انڈیا اور پاکستان دونوں ناقابل یقین حد تک تکثیری اور متنوع ہیں، ان کے سیاسی منظرنامے اور سماجی و اقتصادی ڈیموگرافکس اور انتخابی مشق کا پورا پس منظر نہ صرف معمول کی موقع پرستی بلکہ جارحانہ اور اشتعال انگیز سیاسی داداگیری کی بھی بُو دے رہا تھا۔
جب گزشتہ سال عام انتخابات میں ان کی پارٹیاں انڈیا اور پاکستان میں اقتدار میں آئیں تو یہ عمل ہیرا پھیری پر مبنی سیاسی بیانیے کے پس منظر میں دیکھا گیا۔ انڈیا کے معاملے میں انسانی حقوق کے ایجنڈوں کے بجائے ہندوتوا کے غلبے کی ایک استثنائی مہم کے گرد اقلیت مخالف نعرے پہلے سے طے شدہ انتخابی زبان تھی۔
پاکستان کے معاملے میں انتخابی نظام نے سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا، نیز ووٹوں کی گنتی اور دستاویزات کے نظام میں مشکوک ہیرا پھیری ہوئی۔
پاک افغان مذاکرات پر انس حقانی کی غزل: انتباہ یا پیغام؟
اس مہینے کی بڑے پیمانے پر انتخابی مشقوں نے صرف اس صورت حال کو مزید بگاڑ دیا ہے جس میں دونوں ممالک میں اپوزیشن کو انتخابی، پارلیمانی اور حکمرانی کی جگہوں سے سختی سے محدود کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی حکمران جماعتیں اپنی قانونی لیکن متنازع اکثریت سے آگے بڑھ رہی ہیں۔
خطے میں جمہوریت کے معیار کو ٹریک کرنے والوں کے لیے جنوبی ایشیا کی 2 بڑی جمہوریتیں اپنی جائز اپوزیشن کے لیے جگہ مزید سکڑ رہی ہیں۔
یہ رجحان سیاسی تکثیریت اور شراکتی جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے کیوں کہ اکثریت پسندی طاقت کو مزید کم ہاتھوں میں مرکوز کرتی ہے، عوامی مفاد میں بامعنی اختلاف رائے اور جمہوریت کی دائمی اپیل کو کمزور کرتی ہے۔
اکثریت پسندی کا دوسرا رخ آمریت اور تنزلی کا شکار احتساب ہے۔ پاکستان میں اس کا ترجمہ واحد پارٹی کی اکثریت پسندی کی طرف واپسی، ایک اہم اتحادی کو ناراض کرنے اور مرکزی اپوزیشن پارٹی کو مزید سائیڈ لائن کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہی حال انڈیا کا بھی ہے۔
بنگلہ دیش فروری 2026 میں ہونے والے آئندہ قومی انتخابات سے معزول اور جلاوطن سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی سابقہ حکمران جماعت اور موجودہ مشکلات میں گھری اپوزیشن پارٹی پر پابندی لگا کر خود کو انڈیا اور پاکستان کے رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ کر رہا ہے۔
یہ ستم ظریفی سے خالی نہیں کہ جنوبی ایشیا کی 3 سب سے بڑی جمہوریتوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات خراب ہیں جو اکثر جنگ میں تبدیل ہونے کی دھمکی دیتے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کچھ ماہ قبل ہی جنگ کی طرف گئے تھے۔ اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ تکثیری جمہوریتیں تنازعات کے حل کے لیے ایک بہتر اور سستا آپشن ہیں۔
انڈین اور پاکستانی سیاست، نیز بنگلہ دیش میں عبوری نظام کو جمہوریت کو بامعنی اور شراکتی رکھنے کے لیے سیاسی تکثیریت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، کمزور کرنے کی نہیں۔ انہیں انتخابی مہم کے مالیاتی قوانین کو سختی سے نافذ کرنا چاہیے اور اپوزیشن پارٹیوں کے لیے ریاستی فنڈنگ یا میڈیا تک مساوی رسائی فراہم کرنی چاہیے۔
انہیں آزاد انتخابی اداروں کی ضمانت دینے اور متنوع آوازوں کے لیے قابل نفاذ تحفظات کو یقینی بنانے کے لیے قانونی اصلاحات بھی کرنی چاہئیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اپوزیشن کو ساختی طور پر پسماندہ نہ کیا جائے۔
اس سے جمہوریت کے بنیادی منافع کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی: اقتصادی توسیع کی بہت بڑی صلاحیت۔ جنوبی ایشیا عالمی سطح پر تیزی سے ترقی کرنے والے خطوں میں شامل ہے، جس کی پیش گوئی اکثر 6 فیصد سالانہ سے زیادہ ہوتی ہے لیکن یہ تب ہی برقرار رہ سکتی ہے جب سیاسی طاقت سیاسی استحکام کا کام کرے۔ اس کے لیے خطے کو جمہوریت کے نام پر اکثریت پسندی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ چھوڑنی چاہیے۔
اس حقیت سے انکار نہیں ہے جمہورت بھی ایک اچھا نظام حکومت بن سکتا ہے اور اس کو کامیابی چلا کر عوام کی خدمت کی جاسکتی ہے لیکن اس پر چند خاندان اور گروپ قابض ہو کر اس کو تباہ کر رہے ۔اب تو جمہوریت آمریت سے بد تر ہوتی جا رہی ہے-