دہشت گردی کا آغاز مشرف دور میں ہوا جو آج پھر پروان چڑھ رہی ہے، سعید غنی
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سندھ کے صوبائی وزیر نے کہا کہ جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو اس وقت وطن واپس آرہی تھی تو انہیں دہشتگردی ہونے اور وطن نہ آنے کا مشورہ دیا گیا لیکن انہوں نے کہا کہ وہ ان دہشتگردوں سے ڈرنے والی نہیں بلکہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر محنت و افرادی قوت و سماجی تحفظ سندھ و صدر پاکستان پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن سعید غنی نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا آغاز مشرف دور میں ہوا تھا، اُس وقت بھی خیبر پختونخوا میں پاکستان کا پرچم لہرانا جرم تھا، آج ایک مرتبہ پھر دہشتگردی پروان چڑھ رہی ہے۔ اعظم بستی قبرستان میں سانحہ کارساز کے مدفون 7 شہداء کی قبروں پر حاضری اور فاتحہ خوانی کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ سانحہ کارساز میں ہمارے سیکڑوں کارکنان شہید اور زخمی ہوئے، سندھ میں اس وقت ارباب رحیم حکومت تھی، اس سانحے کی ایف آئی آر کے لیے جب ہم تھانے گئے تو ایس ایچ او بھاگ گیا، سانحے کے بعد شواہد کو دھو دیا گیا۔
سعید غنی نے کہا کہ سانحہ کارساز میں ہمارے کارکنان نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو محفوظ رکھا، سانحہ کے اگلے روز ہی محترمہ بینظیر بھٹو ان شہیدوں کے گھر گئیں۔ انہوں نے کہا کہ جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو اس وقت وطن واپس آرہی تھی تو انہیں دہشتگردی ہونے اور وطن نہ آنے کا مشورہ دیا گیا لیکن انہوں نے کہا کہ وہ ان دہشتگردوں سے ڈرنے والی نہیں بلکہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ افغان حکومت اپنی سرزمین کو دہشتگردی میں استعمال ہونے سے روکے، افغانستان کی صورت حال بہتر ہے تو یہاں پناہ لئے گئے افغان مہاجرین کو اپنے ملک واپس جانا چاہیئے، بلکہ غیر قانونی طور پر مقیم کسی ملک کے شہری کو نہیں رہنا چاہیئے، بھارت اپنے مہروں کے ذریعے پاکستان میں دہشتگردی کراتا ہے لیکن اب اس کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان تر نوالہ نہیں ہے اور یہ دنیا کو پیغام چلا گیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سعید غنی نے کہا نے کہا کہ
پڑھیں:
افغانستان عالمی دہشت گردی کا نیا ہیڈکوارٹر بن گیا؟ خطرناک عالمی رپورٹ سامنے آگئی
عالمی جریدے "یوریشیا ریویو" نے اپنی تازہ رپورٹ میں افغانستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گرد سرگرمیوں کو دنیا بھر کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان تیزی سے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہ بنتا جا رہا ہے، جہاں بھاری اور ناقابلِ تردید شواہد عالمی سکیورٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں داعش خراسان، القاعدہ، مشرقی ترکستان کے عسکریت پسندوں سمیت وسطی ایشیائی دہشت گرد گروہ سرگرم ہیں، جو بھرتی، فنڈنگ، پروپیگنڈا اور سرحد پار حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث ہیں۔
یوریشیا ریویو کے مطابق تاجکستان میں چینی انجینئرز پر ہونے والا ڈرون حملہ اس بڑھتے ہوئے سرحد پار خطرے کی واضح مثال ہے۔
امریکی شہر واشنگٹن ڈی سی میں دو نیشنل گارڈز کے قتل میں بھی ایک افغان باشندے کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جس کے دہشت گرد نیٹ ورکس سے روابط تھے۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گردی جو پہلے صرف پاکستان کو نشانہ بناتی تھی، اب پوری دنیا کی جانب پھیل رہی ہے۔
اقوام متحدہ اور عالمی ایجنسیاں بھی افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی دوبارہ مضبوطی پر مسلسل خبردار کر رہی ہیں۔
ڈنمارک کی نمائندہ کے مطابق تقریباً 6 ہزار ٹی ٹی پی دہشت گرد افغانستان میں موجود ہیں جنہیں طالبان حکومت کی مکمل مدد حاصل ہے۔ یوریشیا ریویو کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی مجموعی تعداد 13 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ طالبان حکومت نہ تو دہشت گردوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ ہی اس کی نیت رکھتی ہے۔ افغانستان عالمی شدت پسند گروہوں کے لیے پناہ گاہ، بھرتی مرکز اور لانچ پیڈ بن چکا ہے۔
یوریشیا ریویو نے خبردار کیا کہ اگر عالمی اور علاقائی قوتوں نے فوری اور واضح حکمت عملی نہ اپنائی تو نہ صرف پاکستان، وسطی ایشیائی ممالک اور علاقائی ریاستیں، بلکہ امریکہ، یورپ اور خلیجی ممالک بھی دہشت گردی کی نئی لہر سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔
پاکستان کئی برسوں سے افغان سرزمین سے اٹھنے والی دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ بنتا آیا ہے اور اس حوالے سے متعدد بار ناقابلِ تردید شواہد عالمی برادری کے سامنے پیش کر چکا ہے۔