ایک نئی سائنسی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انسانی دماغ کی نشوونما 5 اہم مراحل سے گزرتی ہے اور ان میں سے پہلی بالغ عمر تک منتقلی 32 سال کی عمر میں مکمل ہوتی ہے۔

نیچر کمیونی کیشنز میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق انسانی دماغ میں نمایاں تبدیلیاں 9، 32، 66 اور 83 سال پر مشتمل 4 عمر کے مراحل پر ریکارڈ کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں:دنیا کی سب سے طاقتور برین چپ نے انسانی آزمائش میں کامیابی حاصل کر لی

تحقیق میں 90 سال تک کی عمر کے تقریباً 4 ہزار افراد کے دماغی اسکینز کا تجزیہ کیا گیا۔ سائنس دانوں نے اس ڈیٹا کی بنیاد پر دماغی نشوونما کے 5 ادوار متعین کیے ہیں:

بچپن (پیدائش تا 9 سال)، نوعمری (9 تا 32 سال)، بالغ عمری (32 تا 66 سال)، ابتدائی بڑھاپا (66 تا 83 سال) اور بڑھاپے کا آخری دور (83 سال کے بعد)۔

ماہرین کے مطابق 32 سال تک دماغ میں ہونے والی تیز تبدیلیاں شخصیت، ذہانت اور فیصلہ سازی کی صلاحیتوں کو متاثر کرتی رہتی ہیں، اور انہی تبدیلیوں کے مکمل ہونے کے بعد انسانی ذہانت اور شخصیت نسبتاً مستحکم ہو جاتی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ مغربی ممالک میں نوعمری 32 سال تک پھیلی ہوئی دیکھی گئی، تاہم دیگر خطوں کے بارے میں وضاحت فراہم نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں:اے آئی کا قدرتی دماغ کی طرح کام کرنا ممکن بنالیا گیا

مطالعے کے مطابق بچپن میں گری matter اور white matter تیزی سے بڑھتی ہیں، جبکہ نوعمری میں ہارمونل تبدیلیوں کے باعث دماغی اور جذباتی ارتقا کے اہم مرحلے سامنے آتے ہیں۔

66 سال کے بعد دماغی روابط کی رفتار سست ہونا شروع ہوتی ہے اور بڑھاپے میں دماغ کے مختلف حصے ایک دوسرے سے کم مربوط رہ جاتے ہیں۔

محقیقین کا کہنا ہے کہ یہ نتائج انسانی دماغ کے کمزور لمحات کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر ڈنکن ایسٹل کے مطابق جیسے ہماری زندگی مختلف ادوار سے گزرتی ہے، اسی طرح ہمارا دماغ بھی واضح ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے، اور ان مراحل کو سمجھنا انسانی ذہنی صحت کے لیے نہایت اہم ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

برین بوڑھاپا دماغ نو عمری.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کے مطابق سال تک

پڑھیں:

ڈیجیٹل کریئٹرز میں سنگین ذہنی امراض کا خطرہ تشویشناک حد تک بڑھ گیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا پر ویڈیوز بنانا اور انہیں مختلف پلیٹ فارمز پر شیئر کرنا لاکھوں افراد کے لیے معمول بن چکا ہے۔

ہر بار جب کوئی صارف اپنے فون پر کوئی ایپ کھولتا ہے تو مختصر ویڈیوز کی نہ ختم ہونے والی قطار اس کے سامنے آ جاتی ہے۔ یہی رجحان اب آمدنی کا ایک نیا ذریعہ بھی بن چکا ہے، جسے کچھ لوگ کل وقتی روزگار کی صورت میں اختیار کر چکے ہیں جبکہ کئی افراد اسے پارٹ ٹائم طور پر استعمال کرتے ہیں۔

بظاہر یہ دنیا دلکش اور آسان دکھائی دیتی ہے، مگر حالیہ تحقیق نے اس پیشے کے پس پردہ ایک سنجیدہ پہلو کو بے نقاب کیا ہے۔

امریکا میں کی جانے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق وہ افراد جو سوشل میڈیا کے لیے باقاعدگی سے ویڈیوز، تصاویر یا دیگر مواد تیار کرتے ہیں، ذہنی امراض کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کی اس تحقیق نے واضح کیا کہ آن لائن کریٹرز کی ایک بڑی تعداد انزائٹی، ڈپریشن، برن آؤٹ اور جذباتی دباؤ جیسے مسائل سے گزر رہی ہے۔ یہ مطالعہ شمالی امریکا کے 500 ایسے افراد پر مشتمل تھا جو فل ٹائم یا پارٹ ٹائم کریٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

اس حوالے سے دستیاب اعداد و شمار کافی چونکا دینے والے ہیں۔ تحقیق کے مطابق 62 فیصد کریٹرز نے برن آؤٹ، یعنی شدید ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ کی شکایت کی۔ اسی طرح 65 فیصد افراد مسلسل اپنے مواد کی کامیابی کے دباؤ میں رہتے ہیں اور ہر ویڈیو یا پوسٹ کی کارکردگی اُن کی ذہنی کیفیت کو متاثر کرتی ہے۔

سب سے تشویشناک پہلو یہ سامنے آیا کہ تقریباً 69 فیصد کریٹرز مالی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جس کے باعث انہیں ہر وقت یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ اگلی ویڈیو یا آئندہ مواد ان کی آمدنی برقرار رکھنے کے لیے کافی ہوگا یا نہیں۔

اس تحقیق نے یہ بھی بتایا کہ کچھ افراد اپنے کام سے متعلقہ دباؤ کے باعث خودکشی کے خیالات بھی رکھتے ہیں، اگرچہ وہ عملی طور پر ایسا اقدام نہیں کرتے۔

محققین کے مطابق سوشل میڈیا پر اپنے آپ کو مسلسل پیش کرنا اور لاکھوں لوگوں کی رائے کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ وہاں تنقیدی تبصرے، نفرت آمیز رویے، تمسخر اور تحقیر کرنے والے جملے عام ہیں، جو کریٹرز کی ذہنی صحت کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل کریٹرز کو اپنے فالوورز سے جڑے رہنے کا مستقل دباؤ رہتا ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے کچھ دن نیا مواد پوسٹ نہ کیا تو ان کی رسائی، مقبولیت اور آمدنی کم ہو سکتی ہے۔ یہی دباؤ انہیں بے چینی، ڈپریشن اور جذباتی تھکن میں مبتلا کرتا ہے۔

اس کے علاوہ ذاتی زندگی اور آن لائن کام کے درمیان توازن رکھنا بھی ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، کیونکہ انہیں ہر وقت نئے تصورات، نئے رجحانات اور نیا مواد تیار کرنے کی فکر ستاتی رہتی ہے۔

محققین نے واضح کیا کہ ایسے کریٹرز اکثر خود کو ناکافی سمجھنے لگتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ ان کا کام کمزور ہے یا وہ دوسرے کریٹرز جتنا موثر مواد نہیں بنا پا رہے۔ اس خود ساختہ موازنہ اور مثالی کارکردگی کے دباؤ سے ذہنی صحت بتدریج متاثر ہوتی ہے۔ جب لاکھوں صارفین مسلسل ایک شخص کے مواد پر اپنی رائے دیتے رہیں تو ہر تبصرہ، ہر ریویو اور ہر عددی نتیجہ اُس کی ذہنی کیفیت پر اثر چھوڑتا ہے۔

تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا کی دنیا ایک جانب بے شمار مواقع فراہم کرتی ہے، لیکن دوسری طرف یہ ذہنی اور جذباتی چیلنجز بھی ساتھ لے کر آتی ہے۔

ماہرین نے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ آن لائن کریٹرز کے لیے ذہنی صحت کی سہولیات، آگاہی اور معاونت کے نظام کو بہتر بنائیں تاکہ اس صنعت کا بڑھتا ہوا دباؤ اُن کی زندگیوں پر کم منفی اثر ڈالے۔

متعلقہ مضامین

  • اقوامِ متحدہ رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم بے نقاب،پاکستان کا اظہارتشویش
  • دماغ کی بلوغت کب تک جاری رہتی ہے، دماغی عمر کے 5 مراحل کونسے؟
  • ایک نئی تحقیق نے نوجوان نسل کو والدین کے لعن طعن سے بچالیا
  • شہرت کی وجہ سے موسیقاروں کی زندگی میں کمی آتی ہے، نئی تحقیق میں حیران کن انکشاف
  • وٹامن ڈی کی کمی سے ذیابیطس کا خطرہ بڑھنے کا انکشاف
  • رونالڈو کی مہارت کے پیچھے کیا راز ہے؟ تحقیق میں حیران کن انکشافات
  • شکر گزاری خوش رہنے کی پہلی شرط
  • صبح ناشتے میں ہر روز ایک مہینے تک کا جو کھانے کے 4 فائدے
  • ڈیجیٹل کریئٹرز میں سنگین ذہنی امراض کا خطرہ تشویشناک حد تک بڑھ گیا