افغان شہریوں کی جانب سے دہشتگردی پھیلانے کا منظم نیٹ ورک بےنقاب
اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT
پاکستان میں افغان شہریوں کی جانب سے دہشت گردی پھیلانے کا منظم نیٹ ورک بےنقاب ہوگیا، تلہ گنگ سے افغان شہری کی گرفتاری اور اعترافی بیان نے افغان دہشت گرد نیٹ ورک کو بے نقاب کر دیا۔تلہ گنگ سے گرفتار افغان دہشت گرد نے کہا ہے کہ میرا نام قاسم عرف حسن ہے اور میرے والد کا نام لال خان ہے، میری قوم دلوذی اور میں افغانستان گردیزولایت کا رہنے والا ہوں، 10 سال پہلے فیملی سمیت افغانستان سے لکی مروت پاکستان میں آئے، ہم یہاں پلے بڑھے، رزق کمایا اور یہاں کے لوگوں سے بہت پیار ملا۔گرفتار دہشت گرد نے انکشاف کیا کہ سرہ درگہ میں میری 2025 میں طالبان کمانڈر ارمانی کے ساتھ ملاقات ہوئی، طالبان کمانڈر ارمانی نے مجھے جہاد کی طرف دعوت دی اور میں اس کے لیے شامل ہو گیا، پہلی دفعہ میں نے تنظیم میں 20 دن گزارے اور کمانڈر ارمانی نے مجھے فدائی کرنے کا کہا۔مزید انکشافات کرتے ہوئے گرفتار دہشت گرد نے بتایا کہ کمانڈر ارمانی نے مجھے اور فاروق نامی ساتھی کو تاجوڑی میں فوجی قلعے پر فدائی کرنے کی غرض سے ریکی کروائی لیکن مناسب موقع نہ ملنے پر ہم فوجی قلعے پر فدائی حملہ نہیں کر سکے۔دہشت گرد قاسم عرف حسن نے بتایا کہ کچھ عرصے بعد کمانڈر ارمانی کے مشورے پر میں تنظیم میں واپس چلا گیا، تنظیم میں کمانڈر ارمانی نے مجھے نئے لوگ تلاش کرنے کے لیے کہا، میں نے 5 بندے کمانڈر ارمانی کے حوالے کیے جن کے عوض مجھے فی بندہ 10 ہزار روپے ملے۔دہشت گرد کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ستمبر میں میں کمانڈر ارمانی کے مشورے پر پنجاب چلا گیا، پنجاب جانے کا مقصد لڑکے تلاش کرنا اور تنظیم میں شامل کرنا تھا، پنجاب میں کچھ دن گزارنے کے بعد مجھے پولیس نے گرفتار کر لیا۔گرفتار دہشت گرد کی اعترافی ویڈیو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کا واضح ثبوت ہے، پاکستان پہلے بھی دنیا کے سامنے دہشت گرد میں افغان سرزمین کے استعمال کے متعدد ناقابل تردید شواہد پیش کر چکا ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کمانڈر ارمانی نے مجھے کمانڈر ارمانی کے
پڑھیں:
افغان حکومت، خطے کے امن کی دشمن
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ افغانستان نے ٹی ٹی پی کے کارندوں کو گرفتار کیا، مگر چند سو کو پکڑنا کافی نہیں ہے۔ ہم افغانستان کا مسئلہ طاقت سے حل کرسکتے ہیں لیکن نہیں چاہتے، اپنے بھائی کو گھر میں گھس کر ماریں، اگر ہم بھارت کو سبق سکھا سکتے ہیں تو افغانستان تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ طالبان رجیم کا یہ دعویٰ کہ کالعدم TTP کے لوگ پاکستان سے ہجرت کر کے آئے ہیں، اگر وہ پاکستانی ہیں تو انھیں ہمارے حوالے کریں، یہ کیسے مہمان ہیں جو مسلح ہو کر پاکستان آتے ہیں اور دہشت گردی کرتے ہیں، سرحدی علاقوں میں انتہائی مضبوط پولیٹیکل ٹیرر کرائم گٹھ جوڑ، افغان حکومت نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف طویل جدوجہد میں پاکستان نے بے پناہ قربانیاں دیں، ہزاروں جانیں اس راہ میں قربان ہوئیں، بے شمار خاندان اجڑ گئے اور قومی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا، لیکن اس کے باوجود ہمارے پڑوس میں ایسی قوتیں سرگرم ہیں جو نہ صرف اپنی سرزمین پر دہشت گرد نیٹ ورکس کی موجودگی سے انکار کرتی ہیں بلکہ ان کی سرپرستی کا غیر علانیہ سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے جب یہ کہا کہ افغانستان نے کچھ ٹی ٹی پی کارندوں کو گرفتار کیا ہے مگر ’’چند سو افراد کو پکڑ لینا کافی نہیں‘‘ تو ان کا اشارہ اسی تلخ حقیقت کی طرف تھا کہ مسئلہ سطحی نہیں، اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ پاکستان کا فیصلہ ہے کہ عسکری راستہ آخری آپشن ہے، اور وہ بھی تب جب ریاستِ پاکستان کی حدود کا احترام مسلسل پامال کیا جائے۔ دوسری طرف پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کے حالیہ بیان نے صورتحال کو ایک نئی سنجیدگی عطا کر دی ہے۔
انھوں کے اٹھائے گئے تمام نکات نہایت ٹھوس اور قابلِ غور ہیں۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک اہم نکتہ یہ بھی اٹھایا گیا کہ ’’خونریزی اور تجارت اکٹھے ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ پاک افغان تجارت کی بندش محض معاشی مسئلہ نہیں بلکہ براہِ راست پاکستان کے عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا معاملہ ہے۔ تجارت تب ہی جاری رہ سکتی ہے جب سرحد کے دونوں جانب امن ہو، جب دہشت گردی کے مراکز کا خاتمہ ہو اور جب کسی ملک کی سرزمین دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو، اگر افغانستان اپنی ذمے داری پوری نہیں کرتا تو پاکستان بھی مجبور ہوگا کہ وہ اپنے مفاد کو اولین ترجیح دے کر فیصلے کرے۔
افغانستان میں برسوں سے ایسے منظم مراکز موجود ہیں جن میں دہشت گرد گروہ تربیت پاتے ہیں، منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پاکستان کے خلاف کارروائیوں کی ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔ یہی وہ حقائق ہیں جن کی جانب پاکستانی ادارے عرصے سے توجہ دلاتے آ رہے ہیں۔
رپورٹوں، شواہد اور انٹیلی جنس معلومات نے بارہا ثابت کیا ہے کہ سرحدی علاقوں میں ’’پولیٹیکل ٹیرر کرائم‘‘ کی شکل میں انتہائی مضبوط گٹھ جوڑ موجود ہے، جس میں دہشت گرد نیٹ ورکس، اسمگلنگ کے گروہ اور بعض طاقتور مافیاز ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس پورے نظام سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے، اگر افغان طالبان حکومت واقعی ایک ذمے دار ریاست کا کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو اسے فوراً دہشت گردوں کی پشت پناہی اور سہولت کاری ترک کرنا ہوگی۔
اس صورتحال کا ایک اور پہلو نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی موجودگی ہے جو صوبوں میں بڑی تعداد میں گھومتی پھرتی ہیں اور بعض خودکش حملوں میں بھی استعمال ہوتی پائی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے غیر قانونی ذرایع آمدورفت کو روکنے کی ذمے داری کس کی ہے؟ اگر یہ گاڑیاں ملکی حدود کے اندر آزادانہ نقل و حرکت کر رہی ہیں تو یہ واضح انتظامی کمزوری ہے اور اس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اس طرح کے خلا دہشت گردی کو سہارا دیتے ہیں اور یہ بات سمجھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
بھارتی آرمی چیف کے دعوے پر بھی پاکستانی عسکری قیادت نے دوٹوک جواب دے کر حقیقت واضح کر دی ہے۔ ’’ آپریشن سندور‘‘ کو ’’ ٹریلر‘‘ کہنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت کے سات جنگی جہازوں کی تباہی، اس کے اسلحہ ڈپو کا نشانہ بننا اور جدید ترین دفاعی نظام ایس 400 کا بے اثر ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان محض دعوؤں پر نہیں بلکہ اپنی دفاعی صلاحیتوں کے مظاہرے پر یقین رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پورا منظر بھارت کے لیے ’’ٹریلر‘‘ نہیں بلکہ ایک مکمل ہولناک فلم بن چکا ہے جو وہ چاہ کر بھی فراموش نہیں کر سکتا۔
بہرکیف، اصل مسئلہ افغانستان کی غیر مستحکم حکمرانی ہے جو پاکستان کے لیے ایک بڑا اور مسلسل چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ وہاں حکومت نہ مکمل ہے، نہ مربوط، نہ ادارہ جاتی ڈھانچے موجود ہیں، نہ عالمی برادری کی کوئی حقیقی شمولیت۔ ایسے ماحول میں دہشت گرد گروہوں کا پنپنا عین ممکن ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال نہ صرف پاکستان کے لیے خطرہ ہے بلکہ چین، تاجکستان اور وسطی ایشیائی ریاستیں بھی اس سے نالاں ہیں۔ جب کسی ملک میں تیس سے زائد عالمی دہشت گرد تنظیمیں کھلے عام سرگرم ہوں تو پھر پورا خطہ عدم استحکام کی لپیٹ میں چلا جاتا ہے۔
پاکستان کی سرحد 2640 کلومیٹر طویل ہے اور بعض علاقوں میں چیک پوسٹوں کا درمیانی فاصلہ بیس سے پچیس کلومیٹر ہے۔ ایسے میں دراندازی روکنا ایک مشکل چیلنج ہے، لیکن چیلنج مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں۔ پاکستان نے ماضی میں بھی یہ معرکہ سر کیا ہے اور آج بھی کرسکتا ہے، بشرطیکہ قومی سطح پر مکمل ہم آہنگی موجود ہو۔
دہشت گردی کے خلاف کامیابی آپریشنز سے ہی نہیں بلکہ مربوط حکمت عملی سے ملتی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت اپنائی گئی حکمت عملی مؤثر ثابت ہو رہی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف فوج ہی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے ذمے دار نہیں بلکہ سول حکومت اور انتظامیہ کو بھی اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ پولیس کا کردار بنیادی ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے حساس علاقوں میں۔ بلوچستان میں جاری آپریشنز کو سیاسی سطح پر مکمل حمایت حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں پیش رفت نظر آ رہی ہے، لیکن خیبرپختونخوا میں اگر سیاسی تعاون اسی سطح پر نہیں ہوتا تو یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ قومی بقا کی جنگ ہے، اسے سیاسی اختلافات یا مقامی مجبوریوں کے ہاتھوں کمزور نہیں ہونے دیا جا سکتا۔
پاکستان جب یہ کہتا ہے کہ افغان حکومت طالبان کی سہولت کاری بند کرے، تو یہ کوئی مطالبہ نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایک اصولی بات ہے۔ کسی بھی خود مختار ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کی سرزمین کے خلاف کسی دوسرے ملک کی سرزمین استعمال نہ ہو۔ اسی اصول کو اقوام متحدہ نے بھی اپنی قراردادوں میں واضح کر رکھا ہے۔افغانستان کی قیادت کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ کیا وہ واقعی ایک پرامن ملک چاہتی ہے؟ کیا وہ عالمی برادری میں بحالی چاہتی ہے؟ کیا وہ اپنے عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتی ہے یا ایک ذمے دار ریاست بننے کا دعویٰ سچ ثابت کرنا چاہتی ہے؟
ان سوالات کے جواب افغان قیادت کو خود دینا ہوں گے۔پاکستان اپنے حصے کا فرض ادا کر رہا ہے، اور کرتا رہے گا۔ مگر ضروری ہے کہ ہم داخلی سطح پر بھی یکسوئی پیدا کریں، اداروں کو مضبوط کریں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید خطوط پر استوار کریں اور سیاسی قیادت کو ایک پیج پر لائیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ قومی وجود کی جنگ ہے، اس میں غفلت کی کوئی گنجائش نہیں۔
پاکستان کو اب ایسی قومی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو نہ صرف دہشت گردی کا مقابلہ کرے بلکہ اس کی جڑوں تک پہنچے۔ یہ جنگ محض بارڈر پار کارروائیوں سے نہیں جیتی جائے گی، بلکہ داخلی سطح پر بھی غیر معمولی ٹھوس اقدامات درکار ہوں گے۔
سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کا تعلق کسی ایک جماعت، ایک صوبے یا ایک ادارے سے نہیں، یہ پورے ملک کے مستقبل سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ افغانستان اپنی ذمے داری قبول کرے۔ پاکستان نے دہائیوں تک افغان عوام کا ساتھ دیا، انھیں پناہ دی، سہولتیں فراہم کیں، مگر بدلے میں اسے دہشت گرد حملے، سرحدی دراندازی اور الزام تراشی ملی۔ یہ سلسلہ اب رک جانا چاہیے۔ پاکستان کسی کا دشمن نہیں، لیکن اپنے عوام کی جان و مال کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ بھی نہیں کر سکتا۔ خاک و خون میں لپٹے اس خطے کو امن تبھی نصیب ہوگا جب افغانستان سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ ہوگا اور طالبان حقیقی ریاستی ذمے داری کا ثبوت دیں گے۔