غزہ:

غزہ میں ایک بار پھر جنگ بندی معاہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ حماس نے دو یرغمال بنائے گئے افراد کی لاشیں اسرائیلی حکام کے حوالے کر دیں۔

جس کے جواب میں اسرائیل نے پندرہ فلسطینی شہداء کی میتیں اہلِ غزہ کو واپس کیں، جن میں سے زیادہ تر پر بہیمانہ تشدد کے نشانات پائے گئے۔

تاہم انسانی بنیادوں پر ہونے والے اس تبادلے کے باوجود اسرائیل نے کاروائیوں کا سلسلہ نہ روکا۔

صہیونی افواج کے کار پر حملے میں ایک ہی فلسطینی خاندان کے گیارہ افراد شہید ہو گئے، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

ادھر حماس نے معاہدے کے ضامن ممالک سے فوری مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو دانستہ طور پر جنگ بندی معاہدے کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔

حماس کا کہنا ہے کہ رفح کراسنگ کا بند رکھنا بھی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ثالث ممالک فوری طور پر اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ رفح کراسنگ کھولی جائے اور جنگ بندی کی شرائط پر عملدرآمد یقینی بنایا جا سکے۔ صورتحال ایک بار پھر شدید انسانی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

خطۂ مشرقِ وسطیٰ، یک طرفہ جنگ بندی، صیہونی جارحیت اور بدلتی علاقائی صف بندیاں

اسلام ٹائمز: علاقائی منظرنامے پر ایک اور اہم پیشرفت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ایران اور پاکستان باہمی طور پر ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم بنتے جا رہے ہیں۔ حالیہ سفارتی تحرکات، خصوصاً ڈاکٹر علی لاریجانی کا دورۂ پاکستان، پاک ایران تعلقات اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتِحال میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان نہ صرف ایران اور چین کے درمیان ایک مؤثر پل کا کردار ادا کرسکتا ہے بلکہ دفاعی اور سرحدی سلامتی کے شعبوں میں بھی تعاون کو نئی جہت دے سکتا ہے۔ ایران، خصوصاً پاک ایران سرحد پر دہشتگرد عناصر کی سرکوبی کیلئے پاکستان کیساتھ مشترکہ اقدامات کا خواہاں ہے، جبکہ خطے میں اسلحہ کے توازن اور دفاعی تعاون کے معاملات میں بھی پاکستان کا کردار کلیدی سمجھا جا رہا ہے۔ تحریر: سید انجم رضا

لبنان اور فلسطین میں گذشتہ ایک برس سے اسرائیل کی مسلسل فوجی جارحیت پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ نام نہاد امن منصوبوں، بالخصوص مخبوط الحواس امریکی صدر کے پیش کردہ فارمولوں کے باوجود، مظالم کا یہ سلسلہ نہ تھم سکا۔ گذشتہ ایک برس کے دوران اسرائیل کی جانب سے ہزاروں فضائی اور زمینی خلاف ورزیاں کی گئیں، جن کے نتیجے میں ڈیڑھ سو سے زائد لبنانی مسلمان شہید ہوئے۔ اس کے برعکس حزب اللہ نے ایک ذمہ دار قوت کی حیثیت سے معاہدوں کی مکمل پاسداری کو ترجیح دی۔ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ جب بھی اسرائیل کو میدانِ جنگ میں کسی سیاسی یا عسکری ناکامی کا سامنا ہوتا ہے تو امریکہ سفارتی محاذ پر اسے سہارا دینے کے لیے سرگرم ہو جاتا ہے۔

حالیہ جنگ بندی بھی اسی یک طرفہ رویئے کا تسلسل ہے، جس میں اسرائیل کو عملی طور پر کھلی چھوٹ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ وہ خود اس جنگ کو پھیلانے کے عزائم رکھتا ہے۔ صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ سوچ آج بھی بدستور قائم ہے اور لبنان میں کشیدگی بڑھا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا اس کی واضح حکمتِ عملی دکھائی دیتی ہے۔ غزہ میں روا رکھی گئی بربریت نے نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ عرب عوام کے دلوں میں بھی اسرائیل کے خلاف شدید نفرت کو جنم دیا ہے۔ اسی پس منظر میں ابراہیم اکارڈ جیسے معاہدے عرب مسلم عوام کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں بن سکتے۔ اگرچہ سعودی عرب دو ریاستی حل کی بات کرتا ہے، تاہم موجودہ زمینی حقائق اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ خطے میں امن صرف نعروں سے نہیں، عملی انصاف سے قائم ہوگا۔

لبنان کے اندر حزب اللہ نے سیاسی میدان میں بھی اپنے قدم مضبوطی سے جما رکھے ہیں۔ گذشتہ ایک سال کے دوران اس کی جانب سے کوئی بھرپور جنگی کارروائی نہ کرنا، اس کے ضبط اور حکمتِ عملی کا ثبوت ہے، جس کے باعث لبنانی عوام میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ صبر، وقتی نہیں بلکہ ایک گہری سیاسی بصیرت کی عکاسی کرتا ہے۔ علاقائی منظرنامے پر ایک اور اہم پیش رفت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ایران اور پاکستان باہمی طور پر ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بنتے جا رہے ہیں۔ حالیہ سفارتی تحرکات، خصوصاً ڈاکٹر علی لاریجانی کا دورۂ پاکستان، پاک ایران تعلقات اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان نہ صرف ایران اور چین کے درمیان ایک مؤثر پل کا کردار ادا کرسکتا ہے بلکہ دفاعی اور سرحدی سلامتی کے شعبوں میں بھی تعاون کو نئی جہت دے سکتا ہے۔

ایران، خصوصاً پاک ایران سرحد پر دہشت گرد عناصر کی سرکوبی کے لیے پاکستان کے ساتھ مشترکہ اقدامات کا خواہاں ہے، جبکہ خطے میں اسلحہ کے توازن اور دفاعی تعاون کے معاملات میں بھی پاکستان کا کردار کلیدی سمجھا جا رہا ہے۔ رہبرِ معظم کی جانب سے پاکستان کے لیے نیک تمناؤں اور دعاؤں کا پیغام دونوں ممالک کے درمیان خیرسگالی اور اسٹرٹیجک اعتماد کی واضح علامت ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ آج مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت، امریکی سرپرستی، لبنانی استقامت اور ایران–پاکستان قربت ایک نئے علاقائی توازن کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کی غزہ پر مکمل قبضے اورخصوصی فوجی آپریشن کی منصوبہ بندی
  • غزہ: قیامِ امن ہنوز تشنہ طلب کیوں؟
  • آزاد فلسطینی ریاست اسرائیل فلسطین تنازع کا واحد حل ہے‘ پوپ لیو
  • غزہ کی شکار گاہ میں جنگ بندی کا ڈھکوسلا
  • خطۂ مشرقِ وسطیٰ، یک طرفہ جنگ بندی، صیہونی جارحیت اور بدلتی علاقائی صف بندیاں
  • چیف  آف  ڈیفنس  کے نوٹیفکیشن  کا عمل  شروع  ہوگیا  ‘ تبصروں  کی گنجائش  نہیں خواجہ  آصف 
  • اسرائیل کا گزشتہ ہفتے 40 سے زائد حماس جنگجوؤں کو شہیدکرنےکا دعویٰ
  • غزہ میں امداد روکی گئی تو دنیا خاموش نہیں رہے گی،انتونیو گوتریس، حماس جنگ بندی معاہدہ برقرار رکھے ہوئے ہے، اردوان
  • غزہ جنگ بندی معاہدے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا: مصری وزیر خارجہ
  • مسئلہ فلسطین حل نہ ہونیکی صورت میں اسرائیل کیساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرینگے، قطر