Islam Times:
2025-12-03@21:10:47 GMT

یرغمالیوں کی لاشیں، نیتن یاہو کا نیا بہانہ

اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT

یرغمالیوں کی لاشیں، نیتن یاہو کا نیا بہانہ

اسلام ٹائمز: ایک طرف حماس ہے جو پورے خلوص اور سچائی سے جنگ بندی معاہدے پر عمل پیرا ہے اور ثالثی کرنے والے ممالک سے بھرپور تعاون میں مصروف ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم مختلف بہانوں سے جنگ بندی معاہدے کی دھجیاں اڑانے میں مصروف ہے۔ اخبار گارجین کے مطابق 10 اکتوبر 2025ء کے دن غزہ میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد سے اب تک صیہونی رژیم کی جانب سے کئی خلاف ورزیوں کی رپورٹ موصول ہوئی ہے۔ جمعہ 13 اکتوبر سے کل 17 اکتوبر تک غاصب صیہونی فوجیوں کی بلا اشتعال فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 24 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ حماس کے ایک اعلی سطحی عہدیدار نے ان اقدامات کو جنگ بندی کی واضح خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ثالثی کرنے والے ممالک کو بھی ان سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ تحریر: علی احمدی
 
غزہ میں جنگ بندی کے بعد مختلف علاقوں سے ملبہ ہٹانے کا کام شروع ہو گیا اور یوں اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشوں کی تلاش بھی شروع ہو گئی۔ جنگ بندی معاہدے کی روشنی میں حماس 72 گھنٹے کے اندر اندر تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کرنے کی پابند تھی اور یہ مہلت گذشتہ ہفتے پیر کے دن تک تھی لیکن غزہ میں تباہ شدہ عمارتوں کا ملبہ اس قدر زیادہ ہے کہ ملبہ ہٹانے اور اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں تلاش کرنے کا کام اب بھی مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ اس مسئلے کے پیش نظر جنگ بندی معاہدے میں اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ ممکن ہے تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں واپس کرنے کا کام دوسرے مرحلے میں بھی جاری رہے۔ حماس نے اب تک اسرائیل کو 9 یرغمالیوں کی لاشیں دی ہیں اور ان کے بدلے 120 شہید فلسطینیوں کی لاشیں وصول کی ہیں۔
 
اسرائیل کا ہنیبال پروٹوکول
بنجمن نیتن یاہو کی سرکردگی میں غاصب صیہونی فوج کی جانب سے غزہ پر شدید اور اندھا دھند فضائی بمباری نے نہ صرف حماس کی فوجی طاقت کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ بڑی تعداد میں اس کے اپنے ہی یرغمالیوں کی ہلاکت کا باعث بنی ہے۔ ان یرغمالیوں میں سے بہت سوں کی لاشیں اب بھی ٹنوں وزنی ملبے تلے دبی ہوئی ہیں اور انہیں باہر نکالنے کے لیے جدید آلات کی ضرورت ہے جن کی تعداد غزہ میں انتہائی قلیل ہے۔ یہ صورت حال صیہونی فوج کے اس "ہنیبال پروٹوکول" کا نتیجہ ہے جس پر عرصہ دراز سے عمل ہوتا آیا ہے اور صیہونی فوج اس اصول کے تحت اپنے ان افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے جو دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے خطرے سے روبرو ہوں یا دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہوں۔ اس حکمت عملی کی بنیاد یہ ہے کہ صیہونی فوج کا کوئی سپاہی دشمن کے ہاتھ نہیں لگنا چاہیے۔
 
یوں ہنیبال پروٹوکول کے تحت جب صیہونی فوجیوں کا سامنا حماس مجاہدین سے ہوتا ہے تو وہ اندھا دھند بمباری شروع کر دیتی ہے تاکہ دشمن کے خاتمے کا یقین ہو جائے چاہے اس میں اپنے ہی فوجیوں کی جان کیوں نہ چلی جائے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن حماس کی جانب سے مقبوضہ فلسطین پر انجام پانے والے طوفان الاقصی آپریشن کے بارے میں انجام پانے والی تحقیقات میں یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ اس میں ہونے والی اسرائیلی ہلاکتوں کی بڑی تعداد خود اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ اسرائیلی فوج نے حماس کے مجاہدین کا پیچھا کرتے ہوئے بڑی تعداد میں اپنے ان شہریوں کو بھی قتل کر ڈالا جن کے بارے میں اسے یہ خوف تھا کہ وہ کہیں حماس کے ہاتھوں گرفتار نہ کر لیے جائیں۔ معروف تجزیہ کار جان مرشائیمر نے بھی اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے اور کہا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کے دن خود اسرائیلی فوج اور سیکورٹی فورسز نے بھی بہت سے شہریوں کو قتل کیا ہے۔
 
حماس کی جانب سے جنگ بندی کا خیرمقدم
اگرچہ غاصب صیہونی رژیم اپنے یرغمالیوں کی لاشیں تحویل دینے میں تاخیر کے سبب حماس پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کر رہی ہے لیکن حماس نے ثالثی کرنے والے ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد پر کڑی نظر رکھیں۔ حماس نے اپنے بیانیے میں اعلان کیا ہے کہ ٹیکنوکریٹس پر مشتمل کمیٹی کی تکمیل ضروری ہے تاکہ غزہ کی عوام کو درپیش مشکلات حل ہو سکیں۔ جنگ بندی معاہدے کے تحت ان فلسطینی ٹیکنوکریٹس نے غزہ کا انتظام سنبھالنا ہے اور جنگ زدہ علاقوں میں موجود مشکلات پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ کا انتظام سنبھالنے کے لیے 15 فلسطینی ٹیکنوکریٹس کا انتخاب مکمل ہو چکا ہے اور حماس سمیت تمام فلسطینی گروہوں نے اس کی حمایت بھی کر دی ہے۔
 
تل ابیب امن کے راستے میں روڑے اٹکا رہا ہے
ایک طرف حماس ہے جو پورے خلوص اور سچائی سے جنگ بندی معاہدے پر عمل پیرا ہے اور ثالثی کرنے والے ممالک سے بھرپور تعاون میں مصروف ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم مختلف بہانوں سے جنگ بندی معاہدے کی دھجیاں اڑانے میں مصروف ہے۔ اخبار گارجین کے مطابق 10 اکتوبر 2025ء کے دن غزہ میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد سے اب تک صیہونی رژیم کی جانب سے کئی خلاف ورزیوں کی رپورٹ موصول ہوئی ہے۔ جمعہ 13 اکتوبر سے کل 17 اکتوبر تک غاصب صیہونی فوجیوں کی بلا اشتعال فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 24 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ حماس کے ایک اعلی سطحی عہدیدار نے ان اقدامات کو جنگ بندی کی واضح خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ثالثی کرنے والے ممالک کو بھی ان سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔
 
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر 15 اکتوبر کے دن صیہونی فوجیوں نے غزہ کے شمال میں فائرنگ کر کے 6 فلسطینیوں کو شہید کر دیا تھا۔ یہ حملے ایسے وقت انجام پائے ہیں جب جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی فوجیوں کو غزہ کے گنجان آباد علاقوں جیسے غزہ اور خان یونس سے باہر نکل جانا چاہیے تھا۔ دوسری طرف اسرائیلی کابینہ کے انتہاپسند وزیروں بزالل اسموتریچ اور اتمار بن غفیر نے ایسے اشتعال انگیز بیانات دیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی رژیم جنگ بندی ختم کر کے غزہ میں دوبارہ جنگ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اسموتریچ نے غزہ میں جنگ بندی کو "یرغمالیوں کی جان کا سودا" قرار دیا اور حماس کی نابودی تک جنگ جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔ اس نے اگلی نسل کے مجاہدین سے درپیش خطرات پر زور دیا اور غزہ میں فوجی دباو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسرائیلی یرغمالیوں کی ثالثی کرنے والے ممالک یرغمالیوں کی لاشیں سے جنگ بندی معاہدے جنگ بندی معاہدے کی صیہونی فوجیوں اسرائیلی فوج میں مصروف ہے غاصب صیہونی صیہونی رژیم صیہونی فوج کی جانب سے کے ہاتھوں ہوئی ہے حماس کے دشمن کے حماس کی ہے اور کے تحت کو بھی

پڑھیں:

نیتن یاہو کی معافی اور عالمی انصاف کا بحران

اسرائیلی وزیر اعظم نے بدعنوانی کے مقدمات میں صدارتی معافی کی درخواست دے دی۔ اسرائیلی صدر کے دفتر نے اسے غیر معمولی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام قانونی رائے لینے کے بعد معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے گا۔ نیتن یاہو کی درخواست ایسے وقت سامنے آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسرائیل پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ان مقدمات میں انھیں معاف کر دیا جائے، جب کہ 2024 میں عالمی فوجداری عدالت (ICC) بھی ان کے خلاف جنگی جرائم کے وارنٹ جاری کر چکی ہے۔

 دوسری جانب اگلے روز نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے یہ واضح کر دیا تھا کہ پاکستان غزہ میں فوج بھیجنے پر آمادہ ہے مگر پاکستانی فورس کسی بھی صورت میں حماس کو غیر مسلح کرنے میں استعمال نہیں ہوگی، اس کا کام غزہ میں امن قائم رکھنا ہے نافذ کرنا نہیں ہے۔

دنیا اس وقت ایک انتہائی پیچیدہ اور نازک دوراہے پر کھڑی ہے جہاں طاقت، قانون، اخلاقیات اور عالمی سفارت کاری کا پورا ڈھانچہ لرزتی بنیادوں پرکھڑا محسوس ہوتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگ، عالمی طاقتوں کی ترجیحات میں تیزی سے آنے والی تبدیلیاں اور قانون کی عمل داری کے بارے میں اٹھتے سوالات ایک نئے عالمی بحران کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

ایسے میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی جانب سے اپنے خلاف جاری بدعنوانی کے مقدمات سے متعلق صدارتی معافی کی باضابطہ درخواست ایک نہایت سنگین سیاسی و قانونی پیش رفت ہے۔ یہ اقدام نہ صرف اسرائیلی سیاست کے بحران کی شدت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس حقیقت کی طرف بھی واضح اشارہ ہے کہ ریاستی اداروں کے اندر طاقت کا توازن کیسے بگڑ چکا ہے۔

عرب میڈیا کی رپورٹس کے مطابق نیتن یاہو نے صدر اسحاق ہرزوگ کو ایک غیر معمولی تحریری درخواست جمع کرائی ہے جس میں انھوں نے اپنے خلاف جاری تین سنگین مقدمات رشوت، دھوکادہی اور اختیارات کے غلط استعمال سے معافی کی استدعا کی ہے۔ اسرائیلی صدر کے دفتر نے بھی اس امر کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلے سے قبل تمام قانونی آراء اور آئینی پہلوؤں کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے گا، لیکن یہ ’’سنجیدگی‘‘ بذاتِ خود کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔

کیا قانون کی بالادستی کا دعویٰ کرنے والی اسرائیلی ریاست واقعی ایک ایسے وزیر اعظم کو معافی دینے پر غور کرے گی جس کے خلاف ثبوت مضبوط، مقدمات طویل المدتی اور عدالتی کارروائی مسلسل چل رہی ہے؟ یا یہ بھی وہی طاقت کا کھیل ہے جو دہائیوں سے خطے کو عدم استحکام کا شکار بنائے ہوئے ہے؟نیتن یاہو اپنے وڈیو بیان میں یہ مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ یہ مقدمات قوم میں تقسیم کا باعث بن رہے ہیں اور معافی ’’ قومی اتحاد‘‘ کی بحالی میں مدد دے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت میں باقاعدگی سے پیش ہونا ان کی قومی ذمے داریوں سے توجہ ہٹا رہا ہے، لیکن یہ بیانیہ نہ تو نیا ہے اور نہ ہی قائل کرنے والا۔ دنیا کی سیاسی تاریخ ایسے رہنماؤں کے بیانات سے بھری پڑی ہے جو جب قانون کی گرفت میں آتے ہیں تو انصاف کے بجائے قومی اتحاد، استحکام اور ریاستی مفاد جیسے مبہم نعروں کو اپنے دفاع کا حصہ بنا لیتے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایک عوامی منتخب وزیراعظم قانون سے بالاتر ہو سکتا ہے؟ کیا ایک ایسے شخص کو، جس کے خلاف بدعنوانی کے سنگین الزامات عدالتی کارروائی کے آخری مراحل میں ہوں، محض سیاسی مجبوریوں یا عالمی سفارتی دباؤ کی بنیاد پر معافی دی جا سکتی ہے؟یہاں ایک اور بڑا پہلو امریکی سیاست کا ہے۔ رپورٹس کے مطابق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسرائیل پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ نیتن یاہو کو معاف کردیا جائے۔

ٹرمپ کے اپنے سیاسی پس منظر اور عدالتی معاملات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات خود اس تضاد کی نشاندہی کرتی ہے جس نے عالمی سیاست کو انتہائی بے سمتی کا شکار کر رکھا ہے۔ اس تناظر میں 2024میں عالمی فوجداری عدالت (ICC) کی جانب سے نیتن یاہو کے خلاف جنگی جرائم کے وارنٹ کا اجرا بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے رہنما کے لیے بدعنوانی جیسے مقدمات سے قومی مفاد کے نام پر جان چھڑانا دراصل انصاف کے عالمی نظام پرکاری ضرب کے مترادف ہوگا۔

اسرائیلی سیاست کے اس بحران کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں قانون کی بالادستی کا درس دینے والی قوتیں خود اس مقام پر کھڑی ہیں جہاں انصاف اور طاقت کے درمیان کشمکش واضح نظر آتی ہے، اگر ایک طاقتور ریاست کا سربراہ بدعنوانی کے مقدمات سے بچنے کے لیے سیاسی استثنیٰ کا سہارا لے سکتا ہے تو دنیا کو یہ یقین دلانا مشکل ہو جائے گا کہ انصاف کا نظام سب کے لیے برابر ہے۔ اسرائیل میں موجود داخلی سیاسی تقسیم، فلسطین کے خلاف جاری جنگ اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنقید پہلے ہی نیتن یاہو کی حکومت کو کمزور کر چکی ہے۔ ایسے میں معافی کی درخواست کو کسی بھی اعتبار سے قومی مفاد کے نام پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس تمام منظر نامے میں پاکستان کا کردار اور بیانات بھی بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے دفترِ خارجہ میں ایک اہم بریفنگ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان غزہ میں امن قائم رکھنے کے لیے عالمی استحکام فورس میں اپنی شمولیت پر اصولی آمادگی رکھتا ہے، لیکن حماس کو غیر مسلح کرنے کی کسی بھی کوشش کی حمایت نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کردار امن قائم رکھنا ہو گا، نہ کہ غزہ میں کوئی ایسا عمل نافذ کرنا جو فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے کا سبب بنے۔ یہ مؤقف نہ صرف اصولی ہے بلکہ موجودہ حالات میں خطے کے حساس سیاسی ماحول کی درست ترجمانی بھی کرتا ہے۔

غزہ اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین انسانی بحران سے دوچار ہے۔ ہزاروں شہادتیں، لاکھوں بے گھر افراد، تباہ شدہ اسپتال اور انسانی حقوق کی کھلی پامالی نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی غیر جانبدار امن فورس تبھی مؤثر ہوگی جب اس کا مقصد حقیقی امن، انسانی جانوں کا تحفظ اور جنگ بندی کو یقینی بنانا ہو۔ اس کے برعکس اگر ایسی فورس کو فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے یا اسرائیلی خواہشات کے نفاذ کا ذریعہ بنایا گیا، تو یہ فورس نہ صرف ناکام ہوگی بلکہ خطے میں مزید عدم استحکام کا باعث بھی بنے گی۔ اس سلسلے میں پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ امن قائم رکھنے کا عمل فلسطینی عوام کی مرضی اور ان کی فلاح کے مطابق ہونا چاہیے۔

 نہ کہ کسی طاقتور ریاست کے دباؤ یا مفاد کے تحت۔پاکستان کی جانب سے غزہ میں فوج بھیجنے کی اصولی آمادگی ایک بڑی پیش رفت ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ پاکستان کی کوئی بھی شمولیت عالمی اتفاقِ رائے، واضح مینڈیٹ، اور مکمل شفاف ضوابط کی پابند ہوگی۔ اسحاق ڈار نے درست طور پر واضح کیا کہ ’’ہم امن قائم رکھنے کے لیے ہیں، نافذ کرنے کے لیے نہیں۔‘‘ یہ جملہ ایک بنیادی فلسفے کا اظہار ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مرکز میں ہونا چاہیے، یعنی انصاف، عالمی اصول اور کمزور اقوام کے حقوق کا دفاع۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ دنیا آج دہری پالیسیوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔

ایک جانب طاقتور ریاستیں اپنے سربراہوں کو قانون کے چنگل سے بچانے کے لیے مؤقف بناتی ہیں، دوسری جانب کمزور اقوام پر انصاف کے نام پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں پاکستان کا متوازن اور اصولی مؤقف اہمیت رکھتا ہے۔ عالمی سیاست اس وقت ایک ایسے مرحلے پر ہے جہاں اخلاقیات اور قومی مفاد کے درمیان توازن قائم کرنا دشوار ہو چکا ہے، لیکن وہ اقوام جو اصولی مؤقف کے ساتھ کھڑی رہتی ہیں، تاریخ میں وہی احترام پاتی ہیں۔اسرائیلی وزیر اعظم کی معافی کی درخواست اور پاکستان کا غزہ سے متعلق حالیہ مؤقف دراصل اس بڑے عالمی تضاد کی علامت ہیں۔ ایک طرف وہ ریاست ہے جو اپنے قانون کو بھی سیاسی مصلحتوں کے آگے قربان کرنے کے لیے تیار ہے اور دوسری طرف وہ ملک جو عالمی امن کے لیے اصولی موقف اپنائے ہوئے ہے۔ یہ تضاد نہ صرف موجودہ عالمی سیاست کی حقیقت بیان کرتا ہے بلکہ آنے والے وقت کی سمت بھی واضح کرتا ہے، اگر طاقتور قانون سے بالاتر رہیں گے اور کمزوروں پر قانون نافذ ہوگا، تو دنیا میں امن ایک سراب بن جائے گا۔اسی لیے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی ادارے اپنی ساکھ بچانے کے لیے واضح اور منصفانہ فیصلے کریں۔ اسرائیل ہو یا کوئی اور ملک، حکمرانوں کو قانون کے کٹہرے میں جواب دہ ہونا ہی چاہیے۔

نیتن یاہو کو بدعنوانی کے مقدمات سے بچانے کی کوئی بھی کوشش دراصل انصاف کے عالمی اصولوں کو پامال کرنے کے مترادف ہوگی۔ اس کے برعکس فلسطین، خصوصاً غزہ کے عوام کے لیے کوئی بھی امن فورس تبھی قابلِ قبول ہوگی جب وہ غیر جانبدار ہو، انسانی حقوق کی علمبردار ہو اور سیاسی ایجنڈے سے پاک ہو۔دنیا کو اس دوراہے سے نکلنے کے لیے انصاف، شفافیت اور اصولوں کی سیاست کو دوبارہ اپنا دھارا بنانا ہوگا۔ ہر وہ کوشش جو طاقتور کو بچائے اور کمزور کو قربانی کا بکرا بنائے، دنیا کو مزید انتشار کی طرف دھکیلتی رہے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ تاریخ فیصلہ کرے گی کہ کون سا ملک اصول پر قائم رہا اور کون سا رہنما قانون سے بھاگ کر سیاسی نعروں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتا رہا۔

متعلقہ مضامین

  • نیتن یاہو، ٹرمپ ٹیلیفونک رابطہ، حماس کو غیر مسلح کرنے پر تبادلہ خیال
  • نیتن یاہو کی معافی اور عالمی انصاف کا بحران
  • خطۂ مشرقِ وسطیٰ، یک طرفہ جنگ بندی، صیہونی جارحیت اور بدلتی علاقائی صف بندیاں
  • اسرائیلی وزیراعظم کی کرپشن مقدمات پر معافی کی اپیل؛ صدر کا اہم بیان سامنے آگیا
  • اسرائیلی وزیراعظم نے کرپشن مقدمات میں معافی کی درخواست کردی
  • صیہونی فوج کا گذشتہ ہفتے میں 40 سے زائد حماس جنگجو شہید کرنے کا دعویٰ
  • نیتن یاہو کی صدارتی معافی کے خلاف تل ابیب میں شدید احتجاج
  • اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات میں صدارتی معافی کی درخواست
  • نیتن یاہو نے اسرائیلی صدر سے کرپشن کے مقدمے میں4 معافی کی درخواست کردی
  • غزہ میں امداد روکی گئی تو دنیا خاموش نہیں رہے گی،انتونیو گوتریس، حماس جنگ بندی معاہدہ برقرار رکھے ہوئے ہے، اردوان