صیہونی فورسز کا گاڑی پر حملہ، 7 بچوں، 2 خواتین سمیت 11 فلسطینی شہید
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
غزہ ( نیوزڈیسک) اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی سنگین خلاف ورزیاں جاری رہیں۔
صیہونی فورسز نے طیارے سے گاڑی پر حملہ کر دیا جس کے باعث ایک ہی خاندان کے 11 افراد شہید ہوگئے، شہید فلسطینیوں میں7 بچے اور 2 خواتین شامل ہیں۔
حماس نے اسرائیلی حملے کے شدید مذمت کی، حماس نے عالمی برادری سے معاہدے پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا، ادھر رفاہ بارڈر کراسنگ تاحال نہ کھل سکی، فلسطینی خوراک، پانی اور دیگر اشیا کے منتظر رہے۔
واضح رہہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور حماس نے اسرائیل سے رفاہ کراسنگ کھولنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
خطۂ مشرقِ وسطیٰ، یک طرفہ جنگ بندی، صیہونی جارحیت اور بدلتی علاقائی صف بندیاں
اسلام ٹائمز: علاقائی منظرنامے پر ایک اور اہم پیشرفت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ایران اور پاکستان باہمی طور پر ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم بنتے جا رہے ہیں۔ حالیہ سفارتی تحرکات، خصوصاً ڈاکٹر علی لاریجانی کا دورۂ پاکستان، پاک ایران تعلقات اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتِحال میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان نہ صرف ایران اور چین کے درمیان ایک مؤثر پل کا کردار ادا کرسکتا ہے بلکہ دفاعی اور سرحدی سلامتی کے شعبوں میں بھی تعاون کو نئی جہت دے سکتا ہے۔ ایران، خصوصاً پاک ایران سرحد پر دہشتگرد عناصر کی سرکوبی کیلئے پاکستان کیساتھ مشترکہ اقدامات کا خواہاں ہے، جبکہ خطے میں اسلحہ کے توازن اور دفاعی تعاون کے معاملات میں بھی پاکستان کا کردار کلیدی سمجھا جا رہا ہے۔ تحریر: سید انجم رضا
لبنان اور فلسطین میں گذشتہ ایک برس سے اسرائیل کی مسلسل فوجی جارحیت پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ نام نہاد امن منصوبوں، بالخصوص مخبوط الحواس امریکی صدر کے پیش کردہ فارمولوں کے باوجود، مظالم کا یہ سلسلہ نہ تھم سکا۔ گذشتہ ایک برس کے دوران اسرائیل کی جانب سے ہزاروں فضائی اور زمینی خلاف ورزیاں کی گئیں، جن کے نتیجے میں ڈیڑھ سو سے زائد لبنانی مسلمان شہید ہوئے۔ اس کے برعکس حزب اللہ نے ایک ذمہ دار قوت کی حیثیت سے معاہدوں کی مکمل پاسداری کو ترجیح دی۔ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ جب بھی اسرائیل کو میدانِ جنگ میں کسی سیاسی یا عسکری ناکامی کا سامنا ہوتا ہے تو امریکہ سفارتی محاذ پر اسے سہارا دینے کے لیے سرگرم ہو جاتا ہے۔
حالیہ جنگ بندی بھی اسی یک طرفہ رویئے کا تسلسل ہے، جس میں اسرائیل کو عملی طور پر کھلی چھوٹ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ وہ خود اس جنگ کو پھیلانے کے عزائم رکھتا ہے۔ صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ سوچ آج بھی بدستور قائم ہے اور لبنان میں کشیدگی بڑھا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا اس کی واضح حکمتِ عملی دکھائی دیتی ہے۔ غزہ میں روا رکھی گئی بربریت نے نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ عرب عوام کے دلوں میں بھی اسرائیل کے خلاف شدید نفرت کو جنم دیا ہے۔ اسی پس منظر میں ابراہیم اکارڈ جیسے معاہدے عرب مسلم عوام کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں بن سکتے۔ اگرچہ سعودی عرب دو ریاستی حل کی بات کرتا ہے، تاہم موجودہ زمینی حقائق اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ خطے میں امن صرف نعروں سے نہیں، عملی انصاف سے قائم ہوگا۔
لبنان کے اندر حزب اللہ نے سیاسی میدان میں بھی اپنے قدم مضبوطی سے جما رکھے ہیں۔ گذشتہ ایک سال کے دوران اس کی جانب سے کوئی بھرپور جنگی کارروائی نہ کرنا، اس کے ضبط اور حکمتِ عملی کا ثبوت ہے، جس کے باعث لبنانی عوام میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ صبر، وقتی نہیں بلکہ ایک گہری سیاسی بصیرت کی عکاسی کرتا ہے۔ علاقائی منظرنامے پر ایک اور اہم پیش رفت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ایران اور پاکستان باہمی طور پر ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بنتے جا رہے ہیں۔ حالیہ سفارتی تحرکات، خصوصاً ڈاکٹر علی لاریجانی کا دورۂ پاکستان، پاک ایران تعلقات اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان نہ صرف ایران اور چین کے درمیان ایک مؤثر پل کا کردار ادا کرسکتا ہے بلکہ دفاعی اور سرحدی سلامتی کے شعبوں میں بھی تعاون کو نئی جہت دے سکتا ہے۔
ایران، خصوصاً پاک ایران سرحد پر دہشت گرد عناصر کی سرکوبی کے لیے پاکستان کے ساتھ مشترکہ اقدامات کا خواہاں ہے، جبکہ خطے میں اسلحہ کے توازن اور دفاعی تعاون کے معاملات میں بھی پاکستان کا کردار کلیدی سمجھا جا رہا ہے۔ رہبرِ معظم کی جانب سے پاکستان کے لیے نیک تمناؤں اور دعاؤں کا پیغام دونوں ممالک کے درمیان خیرسگالی اور اسٹرٹیجک اعتماد کی واضح علامت ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ آج مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت، امریکی سرپرستی، لبنانی استقامت اور ایران–پاکستان قربت ایک نئے علاقائی توازن کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔