وفاقی اور پنجاب حکومت نے سیلاب متاثرین کے مسائل حل نہیں کیے: مزمل اسلم
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
فائل فوٹو
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما مزمل اسلم نے کہا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت سیلاب متاثرین کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے زرعی نقصانات کے معاوضے ادا کر دیے ہیں، سیلاب 2025 سے ملک بھر میں 40 لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور کُل معاشی نقصان کا تخمینہ 822 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں 631 ارب، خیبرپختونخوا میں 51 ارب اور سندھ میں 32 ارب روپے کے نقصانات ہوئے۔
7 فیصد جی ڈی پی گروتھ بھی شرمندگی والا نمبر ہے، مزمل اسلم
مزمل اسلم نے کہا کہ اس سال عید پر پہلی بار 30 فیصد مال مویشی کراچی سے واپس گئے۔
پی ٹی آئی رہنما نے بتایا کہ کپاس کی 30 سے 34 لاکھ گانٹھیں اور گنے کی 13 سے 33 لاکھ ٹن پیداوار متاثر ہوئی، جبکہ چاول کی پیداوار میں 6 سے 12 لاکھ ٹن تک کمی آئی ہے۔
مزمل اسلم نے خبردار کیا کہ سیلابی نقصانات کے باعث برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوگا، جس کے نتیجے میں ملکی جی ڈی پی میں تقریباً 1 فیصد کمی متوقع ہے۔
ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں مزید کمی کا خدشہ
مجموعی ملکی پیداوار جو 30 ستمبر کو پچھلے سال کے مقابلے میں 49 فیصد زائد تھی، وہ اب کم ہو کر 22 فیصد زائد رہ گئی ہے اور اسی طرح پنجاب میں کپاس کی پیداوار جو پچھلی رپورٹ میں 56 فیصد زائد تھی، جو اب 28 فیصد زائد ہے، جبکہ سندھ کی پیداوار 45 فیصد زائد سے کم ہو کر اب صرف 19 فیصد زائد رہ گئی۔ اسلام ٹائمز۔ کپاس کی مجموعی پیداوار میں اگرچہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، لیکن یکم سے 15 اکتوبر کے دوران پیداوار 30 فیصد گھٹنے سے آنے والے دنوں میں کپاس کی پیداوار میں مزید کمی کے خدشات پیدا ہوگئے، جس سے روئی، کاٹن سیڈ اور آئل کیک کی قیمتوں میں تیزی کا رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب میں کپاس کی پیداوار کے بارے میں پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن اور کراپ رپورٹنگ سروسز پنجاب کے اعدادو شمار میں 100فیصد کے لگ بھگ فرق بدستور قائم ہے۔ چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ پی سی جی اے کی جانب سے کپاس کی مجموعی پیداوار سے متعلق جاری ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق 15 اکتوبر تک ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں 22 فیصد کے اضافے سے مجموعی طور پر 37 لاکھ 96 ہزار گانٹھوں کے مساوی پھٹی پہنچی ہے، تاہم یکم سے 15 اکتوبر کے دوران 7 لاکھ 51 ہزار گانٹھوں جننگ فیکٹریوں میں ترسیل ہوئی ہے۔
احسان الحق نے بتایا کہ زیر تبصرہ مدت کے دوران پنجاب کی جننگ فیکٹریوں میں 15 لاکھ 20 ہزار گانٹھیں جبکہ سندھ میں 22 لاکھ 76 ہزار گانٹھیں پہنچی ہیں، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں بالترتیب 28 اور 19 فیصد زائد ہیں۔ پی سی جی اے کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مذکورہ عرصے میں ٹیکسٹائل ملوں نے جننگ فیکٹریوں سے 30 لاکھ 40 ہزار روئی کی گانٹھوں کی خریداری کی ہے، جبکہ برآمد کنندگان نے اس عرصے کے دوران ایک لاکھ 25 ہزار گانٹھوں کی خریداری کی ہے، ملک میں فی الوقت 520 جننگ فیکٹریاں فعال ہیں۔ احسان الحق نے بتایا کہ اس سال پنجاب میں اگیتی کپاس کی زیادہ کاشت اور درجہ حرارت میں غیر متوقع اضافے سے کپاس کی چنائی قبل از وقت شروع ہونے سے ظاہری طور پر محسوس ہو رہا تھا کہ اس سال پاکستان میں کپاس کی مجموعی قومی پیداوار گذشتہ سال کی بہ نسبت زیادہ ہوگی، لیکن متعدد ماہرین نے اکتوبر میں آنے والی پیداواری اعدادوشمار کی رپورٹس میں کپاس کی پیداوار گھٹنے کی پیشگوئی کی تھی۔
اس پیشگوئی کے درست ہونے کا تجزیہ پی سی جی اے کی تازہ ترین رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یکم سے 15 اکتوبر کے دوران کپاس کی مجموعی پیداوار پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 30 فیصد کم ہے، جبکہ مجموعی ملکی پیداوار جو 30 ستمبر کو پچھلے سال کے مقابلے میں 49 فیصد زائد تھی، وہ اب کم ہو کر 22 فیصد زائد رہ گئی ہے اور اسی طرح پنجاب میں کپاس کی پیداوار جو پچھلی رپورٹ میں 56 فیصد زائد تھی، جو اب 28 فیصد زائد ہے، جبکہ سندھ کی پیداوار 45 فیصد زائد سے کم ہو کر اب صرف 19 فیصد زائد رہ گئی ہے۔ خدشہ ہے کہ ایک ماہ بعد آنے والی پیداواری رپورٹ میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار پچھلے سال کے مقابلے میں کم ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ حالیہ رپورٹ میں کپاس کی پیداوار توقعات سے کم ہونے کے باعث کاٹن سیڈ اور آئل کیک کی قیمتوں میں 100 تا 200 روپے فی من تک کے اضافے کے باعث ان کی قیمتیں اب بالترتیب 3 ہزار 600 اور 3 ہزار 100 روپے فی من کی سطح تک پہنچ گئی ہیں، جبکہ پیر سے شروع ہونے والے نئے ہفتے سے روئی کی قیمتوں میں بھی تیزی کا رجحان سامنے آنے کے امکانات ہیں۔ پی سی جی اے کی رپورٹ کے مطابق 15 اکتوبر تک پنجاب میں کپاس کی 15 لاکھ 20 ہزار گانٹھوں کی پیداوار ہوئی ہے، جبکہ سی آر ایس کی رپورٹ کے مطابق یہ پیداوار 30 لاکھ 81 ہزار گانٹھ ہے، جو پی سی جی اے کی رپورٹ کے مقابلے میں 100 فیصد سے بھی زائد ہے، جس سے کاٹن اسٹیک ہولڈرز میں اپنی حکمت عملی کی بنیاد کے تعین میں مشکلات پیش آ رہی ہے۔