پیٹرولیم مصنوعات میں سالونٹ مکسنگ کے خاتمے کیلئے اوگرا متحرک
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
کراچی:
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے واضح کیا ہے کہ وفاقی حکومت کی ہدایت کے مطابق پٹرولیم مصنوعات میں سالونٹ مکسنگ کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے اتھارٹی اپنے قانونی اختیارات کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مطلوبہ اقدامات کر رہی ہے۔
اوگرا آرڈیننس 2002 کی شق 30 کے تحت تمام لائسنس یافتہ کمپنیوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں اور مصنوعات سے متعلق معلومات فراہم کریں۔
اس تناظر میں اوگرا کی جانب سے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں سے سالونٹ آئل کے بارے میں معلومات طلب کرنا اس وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے جس کا مقصد صنعتی استعمال کے لیے مخصوص مصنوعات کو موٹر پٹرول کے ساتھ ملاوٹ یا غلط استعمال سے روکنا ہے تاکہ معیار، صارفین کے تحفظ اور سرکاری محصولات کو یقینی بنایا جاسکے۔
اوگرا شفافیت، منصفانہ مسابقت اور ریگولیٹری تعمیل کے فروغ کے لیے پرعزم ہے اور ملک بھر میں معیاری پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی اور عوامی مفاد کے تحفظ کو یقینی بنا رہی ہے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان
پڑھیں:
غزہ میں بین الاقوامی فوج کا قیام؛ امریکا، فرانس اور برطانیہ سلامتی کونسل میں متحرک
امریکی حمایت کے ساتھ فرانس اور برطانیہ غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک نئی قرارداد پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق فرانس اور برطانیہ اس وقت امریکا کی مکمل حمایت کے ساتھ ایک قرارداد کی تیاری میں مصروف ہیں۔
یہ قرارداد غزہ میں عالمی فوج کی تعیناتی سے متعلق ہے جس کا مقصد جنگ بندی کے بعد غزہ میں امن و امان کی بحالی اور انتظامی استحکام کے لیے ایک مضبوط بین الاقوامی فریم ورک تیار کرنا ہے۔
فرانسیسی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ ایسی کسی بھی فورس کو عالمی قانونی حیثیت دینے کے لیے اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کا حصول ناگزیر ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے امریکا اور برطانیہ سمیت متعدد ممالک کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور آئندہ دنوں میں قرارداد کا مسودہ حتمی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
ادھر امریکی مشیروں نے بھی بتایا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی نازک مرحلے میں ہے اسی لیے غزہ میں سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایک "بین الاقوامی استحکام فورس" کی تیاری کا عمل شروع کیا جا چکا ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ یہ فورس اقوامِ متحدہ کی روایتی امن فوج سے مختلف ہوگی اور ممکنہ طور پر ہیٹی میں بین الاقوامی تعیناتی کی طرز پر تشکیل دی جائے گی جہاں شراکت دار ممالک کو "تمام ضروری اقدامات" کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔
سفارتی مشاورت اور ممکنہ شرکاء 10 اکتوبر کو پیرس میں یورپی اور عرب نمائندوں کے ساتھ اعلیٰ سطحی ملاقات میں اس فورس کی ساخت اور ذمہ داریوں پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
سفارتی ذرائع کے مطابق امریکا ان ممالک سے رابطے میں ہے جو ممکنہ طور پر اس فورس کا حصہ بن سکتے ہیں، جن میں انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر، آذربائیجان اور اٹلی نے بھی کھلے عام شرکت کی آمادگی ظاہر کی ہے۔
یاد رہے کہ انڈونیشیا کے صدر پہلے ہی اقوامِ متحدہ میں 20,000 فوجی فراہم کرنے کی پیشکش کر چکے ہیں۔
برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر بھی پارلیمنٹ میں کہہ چکے ہیں کہ ایسی فورس کی تشکیل ایک تدریجی عمل ہوگا جس کے لیے شرائط اور ذمہ داریوں پر مکمل اتفاق ابھی باقی ہے۔
برطانوی وزیراعظم نے مزید بتایا کہ سلامتی کونسل میں قرارداد پیش ہونے کی توقع ہے، تاہم عملی نفاذ میں مزید وقت لگ سکتا ہے۔