بلال بن ثاقب کی بطور چیئرمین ورچوئل ایسٹ ریگولیٹری اتھارٹی 3 سالہ تعیناتی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ورچوئل اثاثوں کے شعبے کی نگرانی کے لیے بلال بن ثاقب کو پاکستان ورچوئل ایسٹ ریگولیٹری اتھارٹی کا چیئرمین مقرر کردیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان کی تعیناتی کا مقصد ملک میں ابھرتی ہوئی ڈیجیٹل فنانس اور ورچوئل ایسٹ ٹیکنالوجیز کے لیے مضبوط، واضح اور مستحکم ریگولیٹری فریم ورک تشکیل دینا ہے، تاکہ اس شعبے میں سرمایہ کاری اور شفافیت دونوں کو فروغ مل سکے۔
بلال بن ثاقب کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے حالیہ برسوں میں وزارت کے مختلف شعبوں میں معاون خصوصی کے طور پر خدمات انجام دیں، تاہم نئے عہدے کے بعد قواعد کے مطابق وہ معاون خصوصی کا منصب برقرار نہیں رکھ سکتے تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنا استعفا حکومت کو پیش کردیا۔
وفاقی کابینہ نے بلال بن ثاقب کی تقرری کی باضابطہ منظوری دے دی ہے جس کے ساتھ ہی ان کے عہدے کا فوری اطلاق ہوگیا ہے۔ حکومتی دستاویزات کے مطابق وہ بغیر کسی تنخواہ کے چیئرمین کی ذمہ داریاں نبھائیں گے، جبکہ ان کی تقرری اعزازی بنیادوں پر تین سال کے لیے کی گئی ہے۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ ورچوئل اثاثوں کے شعبے میں تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحانات کے پیشِ نظر ایک ایسی اتھارٹی کی ضرورت تھی جو نہ صرف ملکی سطح پر ڈیجیٹل مالیاتی سرگرمیوں کو منظم کرے بلکہ عالمی تقاضوں کے مطابق ان کی نگرانی بھی کر سکے۔
عہدے کے ساتھ ساتھ بلال بن ثاقب پر اس شعبے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ذمہ داری بھی عائد ہوگی، جس کے لیے وہ متعلقہ سرکاری اداروں اور نجی سیکٹر کے ساتھ مل کر لائحہ عمل تیار کریں گے۔
اس نئے عہدے کے ساتھ بلال بن ثاقب کو وزیرِ مملکت کا درجہ بھی دیا گیا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت اس اتھارٹی کو محض ایک ریگولیٹری ادارہ نہیں بلکہ قومی سطح پر ڈیجیٹل معیشت کی پالیسی سازی کا اہم ستون بنانا چاہتی ہے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں ورچوئل ایسٹس، کرپٹو ریگولیشن، ڈیجیٹل ٹوکنائزیشن اور آن لائن مالیاتی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے مؤثر قانون سازی وقت کی ضرورت ہے اور حکومت کی جانب سے اس اتھارٹی کو فعال بنانا اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ ملک میں اس شعبے سے متعلق پالیسی معاملات کئی برسوں سے متنازع رہے ہیں جب کہ متعدد بار یہ سوال بھی اٹھایا جاتا رہا کہ ورچوئل فنانس کو مکمل طور پر ریگولیٹ کیے بغیر پاکستان جدید فنانشل ٹیکنالوجیز کی دوڑ میں پیچھے رہ سکتا ہے۔
بلال بن ثاقب کی جانب سے عہدہ سنبھالنے کے بعد توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ اتھارٹی آئندہ چند ماہ میں شفاف ضوابط، لائسنسنگ کے طریقہ کار، بین الاقوامی معیارات کے مطابق نگرانی کے نظام اور ڈیجیٹل فنانس کے فروغ کے لیے نئے منصوبے سامنے لائے گی۔
حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد پاکستان میں ایسے محفوظ ماحول کا قیام ہے جہاں ورچوئل اثاثوں کے استعمال، تجارت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کم ہو اور کاروباری طبقہ اعتماد کے ساتھ اس شعبے میں قدم رکھ سکے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی ڈیجیٹلائزیشن اور نئے مالیاتی رجحانات کو دیکھتے ہوئے یہ تقرری مستقبل کی معیشت کو مستحکم بنانے کی اہم حکومتی کوشش قرار دی جا رہی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بلال بن ثاقب کے مطابق کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
EOBIایڈجوکیٹنگ اتھارٹی میں مزدوررہنما کے ساتھ ناروا سلوک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیشنل ریفائنری کنٹریکٹر ورکرز یونین CBAکے جنرل سیکرٹری شاکر محمود صدیقی نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 26 نومبر بروز بدھ بوقت تقریباً دوپہر ساڑھے 12بجے میں اپنے 2 ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ کی ایڈجوکیٹنگ اتھارٹی میں کیس جمع کرانے گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ کورنگی ریجن نے میرے ورکرز کی منیمم پنشن بنائی تھی جو کہ فارمولا پنشن ہونی چاہیے تھی۔ مختصر یہ کہ جب میں کیس جمع کرانے پہنچا تو اتھارٹی میں موجود عرفان احمد جو کہ درخواستیں وصول کرتے ہیں۔ انہوں نے درخواستیں یعنی کیسز دیکھنے کے بعد وہیں بیٹھے بیٹھے فیصلہ سنا دیا کہ یہ پنشن صحیح بنی ہیں۔ جس پر میں نے ان سے کہا یا تو آپ یہ درخواستیں وصول کر لیں یا میری درخواستوں پر فیصلہ لکھ کر دے دیں۔ اس پر انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کون ہیں؟ میں نے کہا یہ میرے ورکرز ساتھی ہیں ان سے پوچھ لیں جس پر وہ آگ بگولا ہوگئے اور بدتمیزی پر اُتر آئے اور سیکورٹی گارڈ کو بلا کر کہنے لگے اسے باہر نکالو جس پر پھر میری بردداشت ختم ہوگئی۔ میں نے کہا کوئی مجھے ہاتھ لگا کر دیکھے تو بتاتا ہوں کہ میں کیا ہوں۔ آخر میں میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کے اس عمل کو معاف نہیں کروں گا اور یہ بھی بتاؤں گا کہ ٹریڈ یونینسٹ کیا ہوتے ہیں۔ اس موقع پر شاکر محمود صدیقی نے نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی کے رہنمائوں خالد خان، قاسم جمال اور ان کی ٹیم سمیت پاکستان ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری وقار میمن، چوہدری سعد اور چوہدری نسیم اقبال جو کہ EOBIکے بورڈ آف ٹرسٹیز میں بھی شامل ہیں سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ EOBIکے خلاف بھرپور احتجاج ریکارڈ کروائیں اور اس کا ازالہ کروائیں۔
اس واقعے پر نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی کے سینئر نائب صدر امیر روان نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ورکرز کے حقوق پر ڈاکہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ EOBI کے اہلکاروں کا یہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی رویہ فوری طور پر تحقیق اور جوابدہی کا مستحق ہے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن مطالبہ کرتی ہے کہ مذکورہ اہلکار عرفان احمد کے رویے کے خلاف محکمانہ انکوائری، ڈسپلنری ایکشن اور ادارے کے اندر سروس ڈسپلن کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
مزید برآں مزدور اتحاد گروپ اٹک سیمنٹ کے رہنمائوں نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس واقعے کی فوری تحقیقات کی جائیں اور ذمہ دار اہلکار کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔