مانانوالہ: تیز رفتار کار سے تصادم میں 3 موٹرسائیکل سوار طالبعلم بھائی جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مانانوالہ:۔ پنجاب میں مانانوالہ ننکانہ روڈ پر تیز رفتار کار اور موٹر سائیکل کے درمیان حادثے کے نتیجے میں 3 حقیقی طالب بھائی جاں بحق ہوگئے۔ علاقہ بھرمیں سوگ کی فضاہر آنکھ اشکبار۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز مانانوالہ ننکانہ روڈ پر تیز رفتار کار کے ڈرائیور کی مبینہ غفلت اور لاپروائی تین حقیقی طالب علم بھائیوں کی جان لے گیا، موٹرسائیکل کو ٹکر کے نتیجے میں موٹرسائیکل سوار نجی اسکول کے بدقسمت 3 حقیقی بھائی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے۔
حادثہ ننکانہ روڈ بھگی مسجد کے قریب پیش آیا جاں بحق ہونے والوں میں دس سالہ ہادی عثمان، 12 سالہ زین عثمان اور 14 سالہ ارمغان عثمان شامل ہیں۔ ریسکیو 1122 ننکانہ صاحب نے جاں بحق ہونے والے تینوں بھائیوں کی لاشیں ورثاءکے حوالے کر دی ہیں تینوں بھائیوں کی موت کی خبر سنتے ہی گھر میں کہرام مچ گیا علاقے بھر میں سوگ کی فضا ہر آنکھ اشکبار دل افسردہ دکھائی دیا۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
مولانا فضل الرحمن کی ’’سخت‘‘ باتیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ملک اس وقت ایک ایسے مشکل دور سے گزر رہا ہے جہاں حکمرانوں کے بیانات اور حقیقت کی دنیا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حکمراں ہر روز معیشت کی بحالی، استحکام اور ترقی کے دعوے کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی دو وقت کی روٹی کو ترس گیا ہے۔ مہنگائی نے زندگی اجیرن کر دی ہے، تنخواہیں کم اور اخراجات بے قابو ہیں۔ عوام کے چہروں پر مایوسی، گھروں میں بے بسی ہے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ ’’ملک کی معیشت درست سمت میں جا رہی ہے‘‘ دراصل ان زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے جو عوام ہر روز برداشت کر رہے ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں ایک بار پھر ملک میں احتجاج اور مزاحمت کی بات ہو رہی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں منعقدہ مفتی محمود کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن نے پارلیمنٹ کو ’’بے معنی‘‘ اور ’’لونڈی‘‘ قرار دیتے ہوئے کارکنان کو اسلام آباد مارچ کی تیاری کرنے کی ہدایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلے اب ایوانوں میں نہیں بلکہ عوامی میدانوں میں ہوں گے۔ یہ ایک سخت پیغام ہے جو بظاہر نظام کے خلاف مزاحمت کا عندیہ دیتا ہے، لیکن اس کے پیچھے سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ تحریک ملک میں کوئی حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے یا یہ محض وقتی دباؤ کی سیاست ہے، جیسا کہ ماضی میں کئی بار دیکھنے میں آ چکا ہے؟ مولانا فضل الرحمن پاکستانی سیاست کے ایک پرانے اور زیرک کھلاڑی ہیں۔ ان کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اقتدار کے کھیل کے سب سے تجربہ کار کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ کبھی وہ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے قائد بن کر سامنے آتے ہیں، کبھی پیپلز پارٹی کے اتحادی بن جاتے ہیں، تو کبھی مسلم لیگ (ن) کے قریب دکھائی دیتے ہیں۔ 2018 کے بعد جب انہوں نے پی ڈی ایم کی قیادت سنبھالی تو ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ اختیار کیا، لیکن جلد ہی سیاسی فضا بدلنے پر ان کے لہجے کی شدت بھی کم ہو گئی۔ یہی وہ طرزِ سیاست ہے جس نے ان کے ناقدین کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ مولانا کی مزاحمت وقتی ہوتی ہے۔ جب اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے ہو جاتے ہیں، تو ساری گھن گرج دب جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک کوئی بڑی عوامی تحریک حقیقی تبدیلی نہیں لا سکی۔ ہر بار عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں، نعرے لگتے ہیں، جلسے جلوس ہوتے ہیں، لیکن انجام وہی رہتا ہے، نظام اپنی جگہ برقرار اور عوام اپنی حالت پر بدستور بے بس و مجبور ہی رہتے ہیں۔ مولانا کے والد، مفتی محمود، پاکستانی سیاست کے اْن رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے نسبتاً اصولوں کی سیاست کی۔ 1977 کے انتخابات میں جب دھاندلی کے خلاف تحریک چلی تو انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ اقتدار سے زیادہ اہم دیانت اور شفافیت ہے۔ مگر افسوس کہ مولانا فضل الرحمن کی سیاست میں وہ اخلاقی ٹھیرائو باقی نہیں رہا۔ ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) برصغیر کی قدیم دینی و سیاسی جماعت ہے، مگر اس کی سیاست میں وہ اصولی جرأت اب کمزور پڑ چکی ہے جو کبھی مفتی محمود کی شناخت تھی۔ یہ بات درست ہے کہ اس وقت ملک میں ایک ’’ہائیبرڈ نظام‘‘ رائج ہے، بظاہر جمہوریت ہے مگر فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس پر مولانا فضل الرحمن نے انگلی رکھی ہے۔ پارلیمنٹ بے وقعت ہو چکی ہے، منتخب نمائندے محض تماشائی بن گئے ہیں اور عوامی رائے کو طاقت کے غیر مرئی مراکز میں دبایا جا رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر آئینی ادارے کمزور ہو گئے ہیں تو ان کو مضبوط کرنے کا راستہ کیا ہے؟ یہ اہم سوال ہے اور اس کا جواب صرف یہی ہے کہ اصولی مزاحمت کی جائے اور لوگوں کے غصے اور رد عمل کو غلط موڑ نہ دیا جائے۔ حقیقی مزاحمت کا مطلب صرف وقتی احتجاج نہیں ہوتا؛ یہ ایک منظم، اصولی اور عوامی شعور پر مبنی تحریک ہوتی ہے۔ اس کے لیے اخلاقی جرأت، شفاف قیادت اور واضح اہداف کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب قیادت خود تضادات کا شکار ہو، تو مزاحمت کا خواب بھی ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کے سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحران نے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عوام بجلی کے بلوں، مہنگائی، بے روزگاری اور ناانصافی سے تنگ آ چکے ہیں۔ ایسے میں اگر حقیقی تبدیلی لانی ہے تو یہ ہائبرڈ احتجاج اور نعروں سے نہیں، بلکہ حقیقی مزاحمت سے ممکن ہے۔ ہائیبرڈ نظام اب مزید نہیں چل سکتا یہ ایک حقیقت ہے اور جس طرح کر پرتشدد فضا قائم کی جارہی اور اچانک پورے ملک میں افراتفریح پیدا ہوگئی یا کردی گئی ہے ایسے میں لگتا تو یہی کہ پھر کچھ بدلنے والا ہے لیکن یہ تبدیلی کتنی حقیقی ہوگی یہ ہم سب جانتے ہیں اس وقت پاکستان کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام سے جڑی ہو، جس کے ہاتھ میں اصول ہوں، مفادات نہیں ہوں۔ اس وقت ضرورت اس امرکی ہے کہ وقتی سیاسی سودے بازی سے نکل کر ایک ایسی تحریک کھڑی کی جائے جو وقتی اقتدار کے لیے نہیں، اصولوں کے لیے ہو۔ ایسی تحریک جو عام آدمی کے مفاد، انصاف، شفافیت اور خودمختار پارلیمنٹ کے قیام کے لیے ہو۔ قوم کو اپنے حقیقی نمائندے منتخب کرنے کا موقع ملے، وہ جو کسی طاقت کے اشاروں پر نہ چلیں بلکہ عوام کے دکھوں کو سمجھیں۔ ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے صرف نعروں کی نہیں، دیانت دار پالیسیوں اور جرأت مند فیصلوں کی ضرورت ہے۔ حقیقی تبدیلی وہی ہے جو عوام کے ہاتھوں، شفاف انتخابات کے ذریعے، اصولی قیادت کے تحت آئے، ورنہ سب کچھ پہلے جیسا رہے گا، اور حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔