بالی وُوڈ کی مستی بھری جوڑی، فرح خان اور جیکی شروف نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ صرف اسٹار نہیں بلکہ دل کے صاف اور گفتگو میں بے باک انسان ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق یہ قہقہوں بھری گفتگو کوریوگرافر فرح خان کے کوکنگ ولاگ میں ہوئی جو نہ صرف کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوگئی بلکہ سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح وائرل ہوگئی۔

اپنی نوعیت کی اس دلچسپ اور طنز و مزاح سے بھرپور گفتگو سے سوشل میڈیا پر بھی ہنسی کا طوفان آگیا جب فرح نے جیکی دادا کو اُن کے 90 کی دہائی کا مشہور پولیو اشتہار یاد دلایا۔

جس میں جیکی شروف نے بازاری زبان میں گالی دینے کے انداز میں پولیو کے قطرے پلوانے کی اہمیت بتائی تھی۔

 فرح خان نے جیکی شروف سے چھیڑ خانی کرتے ہوئے کہا کہ گالی دینے والے دل کے بہت صاف ہوتے ہیں۔

جیکی شروف بھی کچھ کم نہ تھے فوراً بول اُٹھے ایسا مت بولو ورنہ سب گالی دینے لگ جائیں گے اور الزام مجھ پر ڈال دیں گے۔

اس ولاگ میں جیکی دادا نے نہ صرف باتوں سے بلکہ اپنے ہاتھ سے کھانے پکا کر سب کے دل جیت لیے۔

یاد رہے کہ چار دہائیوں سے بالی ووڈ انڈسٹری میں دھوم مچانے والے جیکی شروف نے 13 زبانوں میں 250 سے زیادہ فلمیں کی ہیں۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جیکی شروف

پڑھیں:

امیگریشن محض نقل مکانی نہیں، باصلاحیت افراد کی مہارت اور علم کے تبادلے کا ذریعہ ہے

امیگریشن ماہر ابو بکر عادل نے کہا ہے کہ امیگریشن محض نقل مکانی کا عمل نہیں بلکہ صلاحیت، علم اور قیادت کے تبادلے کا ایک اہم ذریعہ ہےآج پاکستان کی افرادی قوت دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے۔ کارپوریٹ دفاتر اور تحقیقی لیبارٹریوں سے لے کر اسپتالوں اور جامعات تک، پاکستانی ماہرین ایسے اہم کردار ادا کر رہے ہیں جو حقیقی معنوں میں عالمی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اے پی پی سے گفتگو میں امیگریشن ماہر ابو بکر عادل نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی ہجرت نہیں بلکہ پاکستان کے اثر و رسوخ کا منظم، میرٹ پر مبنی اور قانونی توسیعی عمل ہے جو تعلیم اور پیشہ ورانہ مہارت کو عملی بین الاقوامی نتائج میں تبدیل کرتا ہے۔انہوں نے حکومت اور نجی اداروں کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر مواقع فراہم کرنے میں ان اقدامات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ عادل نے اس بات پر زور دیا کہ نوجوانوں کو عالمی معیار کی تعلیم اور پیشہ ورانہ مہارت کے لیے تیار کرنا ضروری ہے۔ ان کے مطابق جب امیگریشن کو منظم طریقے سے انجام دیا جائے تو یہ قیادت، علم کے تبادلے اور مضبوط قومی شناخت کو فروغ دیتی ہے۔ یہ پاکستانی ماہرین کو بیرون ملک اپنا مستقبل بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے جبکہ ملک کی عالمی ساکھ کو بھی بہتر بناتی ہے۔امیگریشن کے اس شعبے میں جہاں اکثر غیر حقیقی وعدے کیے جاتے ہیں، ابو بکر عادل ایک متوازن اور دیانتدار آواز کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کا نتیجہ خیز انداز شفافیت، درستگی اور ذمہ داری پر مبنی ہے، جو کھوکھلے دعوؤں کے بجائے دیانتدار تجزیے کو ترجیح دیتا ہے۔ سپیریئر کنسلٹنگ گلوبل، ان کی قیادت میں، بین الاقوامی روزگار کے مواقع اور تعلیمی نظاموں پر تفصیلی تجزیے فراہم کر رہا ہے، جس سے امیگریشن کنسلٹنسی میں پیشہ ورانہ معیار قائم ہو رہا ہے۔عادل کا انداز خاص طور پر آئی ٹی ماہرین کے لیے مؤثر ہے۔ وہ انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ وہ غیر حقیقی دعووں کے بجائے اپنی اصل کامیابیوں پر توجہ دیں۔درخواست دہندگان کو چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے معتبر ثبوت پیش کریں، جیسے نمایاں منصوبے، اوپن سورس شراکتیں، تحقیقی اشاعتیں، اور قابل اعتماد سفارشات۔ مقصد اپنی اسناد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا نہیں بلکہ اپنے کام کو ایسے نتائج کے ذریعے پیش کرنا ہے جن پر پالیسی ساز اعتماد کر سکیں۔یہی اصول، عادل کے مطابق، ڈاکٹروں اور طبی ماہرین پر بھی لاگو ہوتے ہیں جو بیرون ملک رجسٹریشن کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ تربیتی ریکارڈ، آڈٹ رپورٹس، اور مسلسل پیشہ ورانہ ترقی (CPD) کے شواہد کو میزبان ممالک کے ضوابط کے مطابق ہم آہنگ کرنا چاہیے۔شارٹ کٹس بظاہر آسان لگ سکتے ہیں مگر یہ پیشہ ورانہ ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ان کے مطابق، بہتر راستہ وہ ہے جو اعلیٰ تعلیم کو زیر نگرانی عملی تربیت کے ساتھ جوڑتا ہے، تاکہ پیشہ ورانہ دیانتداری برقرار رہے اور پاکستان کے اداروں سے تعلق مضبوط رہے۔عادل نے کہا کہ ایسی تیاری نہ صرف خاندانوں کو مالی و جذباتی دباؤ سے بچاتی ہے بلکہ بیرون ملک پاکستان کے پیشہ ورانہ تشخص کو بھی محفوظ رکھتی ہے۔“کمزور یا نامکمل درخواستیں نہ صرف فرد کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ نظام کی ساکھ کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ان کا عملی اور شفاف انداز پاکستان میں امیگریشن کنسلٹنسی کو ازسرنو متعین کر رہا ہے، اسے منافع پر مبنی دعووں سے نکال کر پالیسی پر مبنی پیشہ ورانہ عمل کی طرف لے جا رہا ہے۔ان تبدیلیوں کے اثرات سرحدوں کے پار نمایاں ہو رہے ہیں۔ جب کوئی پاکستانی سافٹ ویئر انجینئر عالمی کمپنی میں شامل ہوتا ہے تو وہ علم وطن واپس لاتا ہے۔ جب ڈاکٹرز بیرون ملک اعلیٰ تربیت مکمل کرتے ہیں تو وہ نئی تکنیک کے ساتھ مقامی صحت کے معیار کو بلند کرتے ہیں۔ اور جب نوجوان کاروباری افراد بین الاقوامی سطح پر کامیابی حاصل کرتے ہیں تو وہ پاکستانی سپلائرز اور انجینئرز کے لیے نئے مواقع پیدا کرتے ہیں، یوں پاکستان کی معاشی اور پیشہ ورانہ موجودگی عالمی سطح پر مستحکم ہوتی ہے۔عادل اپنے پیغام کو عام کرنے کے لیے میڈیا، پوڈکاسٹس، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے گفتگو کرتے ہیں، تاکہ امیگریشن کے عمل کو سادہ اور قابل فہم انداز میں بیان کیا جا سکے۔ ان کے بقول،میرا مقصد سب سے مشہور کنسلٹنٹ بننا نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کی دیانت اور وضاحت کے اصولوں پر قائم رہنا ہے۔ کامیابی کا معیار تعداد نہیں، بلکہ معیار اور اعتبار ہے۔مہارت، قانون پسندی، اور شفافیت پر مبنی امیگریشن کے فروغ کے لیے ان کی مسلسل جدوجہد پاکستان کی عالمی شناخت کو نئی جہت دے رہی ہے — جس سے امیگریشن محض نقل مکانی نہیں بلکہ مواقع، ترقی، اور قومی فخر کا پُل بن رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان میں دہشت گردوں کا خاتمہ ضروری
  • ہری پور: باراتیوں سے بھری بس حادثہ کا شکار، کمسن بچی سمیت 5 خواتین جاں بحق
  • باراتیوں سے بھری کوسٹرپہاڑ سے ٹکراگئی:5خواتین جاں بحق، 45 افراد زخمی
  • وائٹ ہاؤس پاکستان میں! سرگودھا میں تعمیر ہونے والی محل نما عمارت نے سب کو حیران کر دیا
  • سہیل آفریدی آل راؤنڈر نہیں بلکہ بزدار ٹو ثابت ہوں گے: رانا تنویر
  • امیگریشن محض نقل مکانی نہیں، باصلاحیت افراد کی مہارت اور علم کے تبادلے کا ذریعہ ہے
  • اِک واری فیر
  • شاہ رخ خان کے نزدیک ’دسترخوان‘ کی اہمیت کیا ہے؟
  • بچوں کے اقبال