غزہ میں ایسا منظر ہے جیسے یہاں ایٹم بم گرا؛ ٹرمپ کے داماد بھی بول پڑے
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
امریکی صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کُشنر جو ان کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ بھی ہیں، نائب امریکی صدر کے ہمراہ اسرائیل اور غزہ کے دورے پر ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جیرڈ کشنر نے اسرائیل کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کے ساتھ غزہ کے تباہ حال علاقے کا دورہ بھی کیا اور ملبے کے ٹنوں وزنی ڈھیر دیکھ کر ششدر رہ گئے۔
میڈیا سے گفتگو میں جیرڈ کشنر یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے کہ غزہ میں تباہی کے مناظر دیکھر کر ایسا لگتا ہے جیسے یہاں ایٹم بم گرایا گیا ہو۔
اس موقع پر انھوں نے نیتن یاہو حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر مشرق وسطیٰ کے عظیم اتحاد میں ضم ہونا چاہتا ہے تو اسرائیل کو چاہیے کہ فلسطینیوں کو ترقی کے سارے مواقع فراہم کرے۔
ایک انٹرویو میں جیرڈ کُشنر نے بتایا کہ غزہ کے دورے کے دوران میرے ساتھ اسرائیلی فوج کا پورا قافلہ تھا تو میں نے اُن سے پوچھا کہ غزہ کے فلسطینی اب کدھرجارہے ہیں؟
ان کے بقول اسرائیلی فوج نے بتایا کہ یہ فلسطینی اپنے ملبہ کا ڈھیر بنے گھروں کو جا رہے ہیں۔
جیرڈ کشنر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ دورے کے دوران میں نے دیکھا کہ بہت سے فلسطینی اپنے گھروں کے ملبے کے ڈھیر پر ٹینٹ لگا کر رہ رہے ہیں۔
تاہم جب صحافی نے جیرڈ کشنر سے پوچھا کہ کیا یہ فلسطینیوں کی نسل کشی نہیں ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ نہیں یہ نسل کشی نہیں ہے۔
البتہ جیرڈ کشنر نے اس بات کا کھل کر اعتراف کیا کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں بچوں کا قتل عام ہوا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: غزہ کے
پڑھیں:
غزہ میں جنگ بندی متاثر نہیں ہوئی، اسرائیلی کارروائیاں زیرِ غور ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاکہنا ہے کہ اسرائیل کے تازہ فضائی حملوں کے باوجود غزہ میں جنگ بندی بدستور برقرار ہے، واشنگٹن اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سرگرم ہے کہ حماس کے ساتھ امن قائم رہے اور صورتحال دوبارہ کشیدگی کا شکار نہ ہو۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ حماس کے ساتھ صورتِ حال پُرامن رہے کیونکہ کسی بھی نئے تصادم سے خطے میں امن کے امکانات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کے جنوبی علاقے رفح میں فضائی کارروائیاں کیں، جنہیں حماس کے مبینہ حملوں کا جواب قرار دیا جا رہا ہے، اس نے جنگ بندی کے عمل درآمد کی تجدید شروع کر دی ہے، دونوں فریق ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکی انٹیلیجنس کے مطابق ممکن ہے حماس کی اعلیٰ قیادت نے معاہدے کی مبینہ خلاف ورزی میں براہ راست کردار ادا نہ کیا ہو۔
امریکی صدر سے صحافی نے سوال کیا کہ کیا اسرائیلی حملے جائز تھے؟ ٹرمپ نے کہا کہ یہ معاملہ زیرِ غور ہے اور اس پر مناسب اور متوازن انداز میں فیصلہ کیا جائے گا۔
واضح رہےکہ امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور ان کے داماد جیرڈ کُشنر اسرائیل روانہ ہو چکے ہیں تاکہ جنگ بندی معاہدے کے تسلسل اور فریقین کے درمیان اعتماد کی فضا کو بحال کیا جا سکے۔
دوسری جانب حماس نے رفح میں کسی بھی حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ اسرائیل جھوٹے بہانوں کے ذریعے جنگ بندی توڑنے کی کوشش کر رہا ہے، تازہ اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 23 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ حماس کے مطابق جنگ بندی کے آغاز سے اب تک اسرائیل کی 80 سے زائد خلاف ورزیاں ریکارڈ کی جا چکی ہیں جن میں درجنوں فلسطینی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امدادی سامان کے داخلے میں رکاوٹیں بھی بدستور جاری ہیں اور فی الحال صرف کریم شالوم کراسنگ کے ذریعے محدود امداد کی اجازت دی جا رہی ہے، جس کے باعث قحط زدہ علاقوں میں صورتحال تشویشناک بنی ہوئی ہے۔