Jasarat News:
2025-10-22@00:59:22 GMT

ٹرمپ کے خلاف امریکی عوام کا رد عمل

اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں، اپنے متنازع بیانات اور آمرانہ اقدامات کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہیں، اقتدار کی کرسی سنبھالتے ہی ان کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایگزیکٹو احکامات، امیگریشن و ماس ڈیپورٹیشن کے قوانین، ڈیمو کریٹک شہروں میں فیڈرل اور ملٹری ٹروپس کی تعیناتی، بجٹ کٹس، میڈیا پر دباؤ، ارب پتی افراد کی حمایت، ٹرمپ مخالف وفاقی ملازمین کی برطرفی، انتقامی کارروائی، خارجہ پالیسی، اسرائیل کی بے جا حمایت اور غزہ میں مزاحمت کاروں کے خلاف ان کے لب و لہجے نے پورے امریکا میں ان کے خلاف شدید ردعمل کو جنم دیا ہے۔ گزشتہ دنوں ٹرمپ کی انہی پالیسیوں کے خلاف امریکا کی پچاس ریاستوں میں ستر لاکھ سے زائد افراد نے سڑکوں پر نکل کا اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، غیر ملکی میڈیا کے مطابق نو کنگ کے عنوان سے امریکا کے 2700 شہروں میں احتجاج کیے گئے، صرف شکاگو میں ڈھائی لاکھ افراد نے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی۔ مظاہرین نے ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا۔ مظاہرین نے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو آمرانہ قرار دیا اور ٹرمپ انتطامیہ مزید برداشت نہیں کریں گے کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ واضح رہے کہ رواں برس جون کے مہینے میں بھی اسی طرح کے مظاہرے کیے گئے تھے۔ یہ تحریک ان پالیسیوں کے خلاف ہے جنہیں ناقدین ملک کو آمریت کی طرف دھکیلنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ مظاہرین اس بات پر برہم تھے کہ ری پبلکن ارب پتی صدر کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں سخت گیر اقدامات بڑھ گئے ہیں، ان کے خدشات میں میڈیا پر حملے، سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات اور امیگریشن پر وسیع کریک ڈاؤن شامل ہیں، جس کے تحت نیشنل گارڈ کے دستے لاس اینجلس، واشنگٹن اور میمفس جیسے شہروں میں تعینات کیے گئے ہیں۔ یہ مظاہرے ایسے وقت میں ہوئے جب امریکی حکومت کے شٹ ڈاؤن کو 3 ہفتے ہو چکے ہیں، اور ٹرمپ انتظامیہ نے قانون سازی میں رکاوٹ کے باعث ہزاروں وفاقی ملازمین کو برطرف کر دیا ہے۔ احتجاج کی حمایت میں کئی معروف ڈیموکریٹ رہنماؤں نے بھی بیانات دیے، جن میں سینیٹر چَک شومر، سینیٹر برنی سینڈرز اور رکنِ کانگریس الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز شامل ہیں۔ کچھ ری پبلکن رہنماؤں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ مظاہرے سیاسی تشدد کو ہوا دے سکتے ہیں، خاص طور پر اس واقعے کے بعد جب ستمبر میں سیاسی کارکن چارلی کرک، جو ٹرمپ کے قریبی ساتھی تھے، کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس ساری صورتحال پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھاکہ وہ خود کو بادشاہ تصور نہیں کرتے جبکہ ری پبلکن رہنماؤں نے مظاہروں کو ’’امریکا مخالف‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ ٹرمپ نے حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے نسبتاً محتاط رد عمل کا اظہار کیا، مگر ان کے حامیوں نے بھرپور جوابی بیانات دیے، ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن نے اس دن کو ’ہیٹ امریکا ریلی‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ دیکھیں گے کہ مارکسسٹ، سوشلسٹ، اینٹیفا، انارکسٹ اور ڈیموکریٹ پارٹی کے پرو حماس دھڑے کے لوگ سب اکٹھے ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اندرونی مسائل کے علاوہ غزہ جنگ کے دوران ٹرمپ کی اسرائیل نواز پالیسیوں سے بھی امریکی عوام سخت نالاں ہیں، بیالیس فی صد سے زائد امریکی ٹرمپ کی غزہ پالیسی کو ناپسند کرتے ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود اسے اسلحے کی سپلائی کو بھی امریکی عوام غیر منصفانہ سمجھتے ہیں، ان کی یہ پالیسیاں امریکا کی ساکھ کو بری طرح مجروح کر رہی ہیں اور عوامی رائے تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ستر لاکھ افراد کا حالیہ مظاہرہ امریکا کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا، جس میں عوام نے کھل کر ان کی پالیسیوں کے خلاف اپنے عدم اعتماد کا اظہار کیا، یہ مظاہرے ان کے لیے نوشتہ ٔ دیوار ہیں، ٹرمپ اپنے اقدامات کے ذریعے تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں، ان کی داخلہ و خارجہ پالیسی اور جارحانہ طرز عمل امریکا کو صرف معاشی ہی نہیں بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی شکار کردے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بحیثیت امریکی صدر جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے، وہ کسی بھی طور ایک مستحکم اور طاقتور ملک کے سربراہ کے شایانِ شان نہیں۔

 

اداریہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پالیسیوں کے خلاف کی پالیسیوں ٹرمپ کی

پڑھیں:

امریکا بھر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تاریخ ساز مظاہرے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکا کے مختلف شہروں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے، جن میں مجموعی طور پر 70 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی، احتجاجی تحریک کو  نو کنگ (No King) کے عنوان سے منسوب کیا گیا۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا کے 2700 سے زائد شہروں میں عوام سڑکوں پر نکلے، صرف شکاگو میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد نے احتجاجی مارچ میں حصہ لیا، مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر  ٹرمپ آمریت نامنظور  اور  ہم بادشاہت نہیں، جمہوریت چاہتے ہیں  جیسے نعرے درج تھے۔

مظاہرین نے صدر ٹرمپ کی جانب سے تارکین وطن کے خلاف چھاپوں، گرفتاریوں اور ڈیموکریٹک ریاستوں میں فوج کی تعیناتی پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا،  یہ اقدامات امریکی آئین اور شہری آزادیوں کے منافی ہیں۔

مظاہرین نے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو آمرانہ قرار دیتے ہوئے نعرے لگائے کہ ٹرمپ انتظامیہ مزید برداشت نہیں، کئی شہروں میں ریلیاں پرامن طور پر منتشر ہو گئیں جبکہ بعض مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔

امریکی میڈیا کے مطابق چھاپوں اور فوجی تعیناتی کے فیصلوں پر ملک بھر میں سخت ردعمل سامنے آیا ہے، مظاہرین کا الزام ہے کہ صدر ٹرمپ آمریت اور فوجی جبر کی راہ پر گامزن ہیں، جس سے جمہوری ادارے کمزور ہو رہے ہیں۔

دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ خود کو بادشاہ تصور نہیں کرتے، بلکہ آئین کے مطابق ملک چلانے کے پابند ہیں۔

ری پبلکن رہنماؤں نے ان مظاہروں کو  امریکا مخالف  قرار دیتے ہوئے مسترد کر تے ہوئے  کہا کہ صدر ٹرمپ کے اقدامات قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہیں۔ تاہم، ڈیموکریٹ رہنماؤں نے ان مظاہروں کو عوامی غصے کی حقیقی عکاسی قرار دیا ہے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • پسندیدہ فیلڈ مارشل سے نئی دوستی تک، پاکستان نے امریکا کا دل جیت لیا
  • ٹیرف دھمکیاں؛ کولمبیا نے امریکا سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا
  • امریکا، مصنوعی ذہانت نے بجلی کے بل بڑھا دیے، عوام پریشان
  • امریکا بھر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تاریخ ساز مظاہرے
  • صدر ٹرمپ کے خلاف اچانک زور پکڑنے والی ’نو کنگز‘ تحریک کیا ہے؟
  • ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف امریکا کے 2700 سے زائد مقامات پر احتجاجی مظاہرے
  • ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف امریکا کے 2700 سے زائد مقامات پر احتجاجی مظاہرے
  • منشیات امریکا سمگل کرنے والی آبدوز تباہ، ٹرمپ کا 25000 امریکیوں کو موت سے بچانے کا دعویٰ
  • صدر ٹرمپ کیخلاف امریکا میں 2600 سے زائد مقامات پر ریلیاں اور احتجاج، مظاہرین کیا چاہتے ہیں؟