Jasarat News:
2025-12-06@21:12:06 GMT

ٹرمپ کے خلاف امریکی عوام کا رد عمل

اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251022-03-3

 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں، اپنے متنازع بیانات اور آمرانہ اقدامات کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہیں، اقتدار کی کرسی سنبھالتے ہی ان کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایگزیکٹو احکامات، امیگریشن و ماس ڈیپورٹیشن کے قوانین، ڈیمو کریٹک شہروں میں فیڈرل اور ملٹری ٹروپس کی تعیناتی، بجٹ کٹس، میڈیا پر دباؤ، ارب پتی افراد کی حمایت، ٹرمپ مخالف وفاقی ملازمین کی برطرفی، انتقامی کارروائی، خارجہ پالیسی، اسرائیل کی بے جا حمایت اور غزہ میں مزاحمت کاروں کے خلاف ان کے لب و لہجے نے پورے امریکا میں ان کے خلاف شدید ردعمل کو جنم دیا ہے۔ گزشتہ دنوں ٹرمپ کی انہی پالیسیوں کے خلاف امریکا کی پچاس ریاستوں میں ستر لاکھ سے زائد افراد نے سڑکوں پر نکل کا اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، غیر ملکی میڈیا کے مطابق نو کنگ کے عنوان سے امریکا کے 2700 شہروں میں احتجاج کیے گئے، صرف شکاگو میں ڈھائی لاکھ افراد نے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی۔ مظاہرین نے ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا۔ مظاہرین نے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو آمرانہ قرار دیا اور ٹرمپ انتطامیہ مزید برداشت نہیں کریں گے کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ واضح رہے کہ رواں برس جون کے مہینے میں بھی اسی طرح کے مظاہرے کیے گئے تھے۔ یہ تحریک ان پالیسیوں کے خلاف ہے جنہیں ناقدین ملک کو آمریت کی طرف دھکیلنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ مظاہرین اس بات پر برہم تھے کہ ری پبلکن ارب پتی صدر کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں سخت گیر اقدامات بڑھ گئے ہیں، ان کے خدشات میں میڈیا پر حملے، سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات اور امیگریشن پر وسیع کریک ڈاؤن شامل ہیں، جس کے تحت نیشنل گارڈ کے دستے لاس اینجلس، واشنگٹن اور میمفس جیسے شہروں میں تعینات کیے گئے ہیں۔ یہ مظاہرے ایسے وقت میں ہوئے جب امریکی حکومت کے شٹ ڈاؤن کو 3 ہفتے ہو چکے ہیں، اور ٹرمپ انتظامیہ نے قانون سازی میں رکاوٹ کے باعث ہزاروں وفاقی ملازمین کو برطرف کر دیا ہے۔ احتجاج کی حمایت میں کئی معروف ڈیموکریٹ رہنماؤں نے بھی بیانات دیے، جن میں سینیٹر چَک شومر، سینیٹر برنی سینڈرز اور رکنِ کانگریس الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز شامل ہیں۔ کچھ ری پبلکن رہنماؤں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ مظاہرے سیاسی تشدد کو ہوا دے سکتے ہیں، خاص طور پر اس واقعے کے بعد جب ستمبر میں سیاسی کارکن چارلی کرک، جو ٹرمپ کے قریبی ساتھی تھے، کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس ساری صورتحال پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھاکہ وہ خود کو بادشاہ تصور نہیں کرتے جبکہ ری پبلکن رہنماؤں نے مظاہروں کو ’’امریکا مخالف‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ ٹرمپ نے حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے نسبتاً محتاط رد عمل کا اظہار کیا، مگر ان کے حامیوں نے بھرپور جوابی بیانات دیے، ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن نے اس دن کو ’ہیٹ امریکا ریلی‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ دیکھیں گے کہ مارکسسٹ، سوشلسٹ، اینٹیفا، انارکسٹ اور ڈیموکریٹ پارٹی کے پرو حماس دھڑے کے لوگ سب اکٹھے ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اندرونی مسائل کے علاوہ غزہ جنگ کے دوران ٹرمپ کی اسرائیل نواز پالیسیوں سے بھی امریکی عوام سخت نالاں ہیں، بیالیس فی صد سے زائد امریکی ٹرمپ کی غزہ پالیسی کو ناپسند کرتے ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود اسے اسلحے کی سپلائی کو بھی امریکی عوام غیر منصفانہ سمجھتے ہیں، ان کی یہ پالیسیاں امریکا کی ساکھ کو بری طرح مجروح کر رہی ہیں اور عوامی رائے تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ستر لاکھ افراد کا حالیہ مظاہرہ امریکا کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا، جس میں عوام نے کھل کر ان کی پالیسیوں کے خلاف اپنے عدم اعتماد کا اظہار کیا، یہ مظاہرے ان کے لیے نوشتہ ٔ دیوار ہیں، ٹرمپ اپنے اقدامات کے ذریعے تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں، ان کی داخلہ و خارجہ پالیسی اور جارحانہ طرز عمل امریکا کو صرف معاشی ہی نہیں بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی شکار کردے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بحیثیت امریکی صدر جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے، وہ کسی بھی طور ایک مستحکم اور طاقتور ملک کے سربراہ کے شایانِ شان نہیں۔

 

اداریہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پالیسیوں کے خلاف کی پالیسیوں ٹرمپ کی

پڑھیں:

ٹرمپ کا ہائی اسکلڈ ورکرز کیلئے ویزا شرائط سخت کرنے کا حکم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہائی اسکلڈ ورکرز کے لیے ویزا شرائط مزید سخت کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ نئی ہدایات کے تحت امریکی سفارتکاروں کو ایچ ون بی ویزا کے درخواست گزاروں کے پروفائلز کی سخت جانچ کا حکم دیا گیا ہے۔ اب درخواست دہندگان اور ان کے ہمراہ سفر کرنے والوں کے ریزیومے اور لنکڈ اِن پروفائلز کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔

ہدایات میں واضح کیا گیا ہے کہ سنسرشپ میں ملوث پائے جانے والے افراد ایچ ون بی ویزے کے اہل نہیں ہوں گے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے 2 دسمبر کو یہ نئے رہنما اصول دنیا بھر میں موجود امریکی مشنز کو ارسال کیے۔

ایچ ون بی ویزے امریکی ٹیک کمپنیوں کے لیے نہایت اہم ہیں، اور انہی کمپنیوں کی قیادت نے ٹرمپ کی حمایت بھی کی تھی۔ یہ کمپنیاں بھارت، چین اور دیگر ممالک سے بڑی تعداد میں ماہر افراد کی بھرتی کرتی ہیں۔

ویب ڈیسک مقصود بھٹی

متعلقہ مضامین

  • فیفا کا پہلا امن ایوارڈ امریکی صدر ٹرمپ کے نام
  • فیفا ورلڈ کپ 2026 کا اعلان کردیا گیا
  • امریکی صدر ٹرمپ کو فیفا کے پہلے امن ایوارڈ سے نواز دیا گیا
  • فیفا نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن ایوارڈ کا اعزاز دے دیا
  • امریکا کا سفری پابندیوں کی فہرست مزید 30 سے زائد ممالک تک بڑھانے کا منصوبہ
  • ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں سے فیفا ورلڈ کپ 2026 کی میزبانی مشکل میں پڑ گئی
  • امریکا اور تاجکستان پر حملے:افغان طالبان ذمے دار؟
  • ٹرمپ انتظامیہ کا وائس آف امریکا کے اوور سیز دفاتر بند کرنے کا فیصلہ
  • علاقائی صورتحال پر ڈونلڈ ٹرمپ کا عراقی صدر کے نام پیغام
  • ٹرمپ کا ہائی اسکلڈ ورکرز کیلئے ویزا شرائط سخت کرنے کا حکم