ملک میں الیکٹرونک ویسٹ تیزی سے جمع ہورہا ہے، قائمہ کمیٹی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251023-08-5
اسلام آ باد(مانیٹر نگ ڈ یسک )چیئرپرسن قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی نے کہا ہے کہ ملک میں الیکٹرونک (ای) ویسٹ تیزی سے جمع ہو رہا ہے، تلف کرنے کی کوئی پالیسی نہی، ڈی جی انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی( ای پی اے ) اسلام آباد نازیہ ذیب پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ای پی اے اسلام آباد کے اہلکار مکمل طور پر نااہل ہیں، چیئرپرسن کمیٹی نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ای پی اے خود کچھ نہ کرے تو چیٹ جی پی ٹی سے سہارا لے، چیٹ جی پی ٹی ساری پالیسی بنا کر فراہم کردے گا۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس چیئرپرسن منزہ حسن کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا، جس میں پاکستان انوائرمنٹل پروٹیکشن ترمیمی بل 2025ء اور ای ویسٹ سے متعلق امور زیر بحث آئے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پاکستان میں بچوں میں پیدائشی دل کے امراض تیزی سے بڑھنے لگے
پاکستان میں بچوں میں پیدائشی دل کے امراض میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ این آئی سی وی ڈی کی اسسٹنٹ پروفیسر اور بچوں کی دل کی بیماریوں کی ماہر ڈاکٹر عالیہ کمال احسن کے مطابق ملک میں ہر سال 40 سے 60 ہزار بچے دل کے مختلف نقص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، جن میں سب سے عام بیماری ٹیٹرالوجی آف فالوت (TOF) ہے۔ اس مرض میں دل کی ساخت کے چار اہم حصے متاثر ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر عالیہ کے مطابق سالانہ 10 سے 12 فیصد یعنی 4 سے 7 ہزار بچے ٹوف میں مبتلا ہوتے ہیں، اور اگر بروقت تشخیص یا سرجری نہ ہو تو بچے کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کزن میرج اس بیماری کے امکانات کو مزید بڑھا دیتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ این آئی سی وی ڈی میں روزانہ دو ٹوف اوپن ہارٹ سرجریز اور دو کلوز ہارٹ سرجریز (شنٹس) کی جاتی ہیں، جبکہ سالانہ ہزاروں بچے سرجری کے ذریعے صحت یاب ہوتے ہیں۔
ٹوف کوئی میڈیکل ٹریٹمنٹ والا مرض نہیں، بلکہ مکمل طور پر سرجیکل بیماری ہے۔ اس میں دل میں سوراخ، پلمونری والوز کی غلط ساخت، ایورٹا کی اوور رائڈنگ، اور دائیں وینٹریکل کی موٹائی جیسے چار بڑے مسائل شامل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر عالیہ نے بتایا کہ اگر سرجری نہ کی جائے تو ایک سال میں شرح اموات 40% تک پہنچ جاتی ہے، لیکن اگر سرجری بروقت کر دی جائے تو اگلے 40 سال تک موت کا خطرہ صرف 1% رہ جاتا ہے۔
یعنی اس سرجری سے بچوں کی زندگی میں بہت بڑی بہتری آتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹوف کی علامات ہر بچے میں مختلف ہو سکتی ہیں۔
کچھ بچے چار ماہ کی عمر میں تشخیص ہوتے ہیں، کچھ رونے، نہانے یا صبح اٹھتے ہی نیلے پڑنے لگتے ہیں۔
کچھ پیدائش کے وقت ہی شدید نیلے ہوتے ہیں، جو ٹوف کی خطرناک قسم TOF with pulmonary atresia ہے۔
بعض بچے باہر سے نارمل نظر آتے ہیں، جنہیں پِنک ٹوف کہا جاتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ان میں سانس کے مسائل بڑھنے لگتے ہیں۔
ڈاکٹر عالیہ نے بتایا کہ سرجری کے بعد پلمونری والوز میں لیکیج ہو سکتی ہے، مگر این آئی سی وی ڈی کے سرجنز میں یہ شرح بین الاقوامی سطح کے مقابلے میں کم ہے۔ لیکیج تین درجوں—ہلکی، معتدل اور شدید—میں تقسیم کی جاتی ہے۔ شدید لیکیج کی صورت میں دائیں دل کے چیمبر پر دباؤ بڑھ جاتا ہے اور والوز تبدیل کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ سہولت SIUT میں موجود ہے جہاں کینولا اور سرجری دونوں طریقوں سے والوز تبدیل کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگر ٹوف پیدائش کے فوراً بعد پکڑ لیا جائے تو جلد سرجری کی جاتی ہے، تاہم عالمی سطح پر زیادہ تر سرجری چھ سے نو ماہ کے درمیان کی جاتی ہے۔ لیکن ہر بچے کی سرجری کا وقت اس کی بیماری کی شدت کے مطابق طے ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عالیہ نے واضح کیا کہ اس بیماری میں جینیاتی عوامل بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اگر والدہ کو ٹوف ہو تو بچے میں 10% خطرہ ہے، والد یا بہن بھائی کو ہو تو بھی خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تاہم جینیاتی تبدیلیاں نئی بھی ہو سکتی ہیں، اس لیے خاندان میں کسی کو نہ ہونے کے باوجود بھی بچہ اس مرض کے ساتھ پیدا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دنیا میں ہر 100 میں سے 1 بچہ پیدائشی دل کے مرض کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، لیکن ایشیا میں یہ شرح بڑھ کر 8 سے 9.3 فیصد تک جا چکی ہے، اور کچھ علاقوں میں 12 فیصد تک بھی ہے۔ ان تمام بیماریوں میں سب سے زیادہ عام ٹوف ہے۔
صحيح تشخيص کے لیے ای سی جی، ایکسرے اور اچھا ایکو ضروری ہے۔ ایک ماہر امیجنگ اسپیشلسٹ صرف ایکو کے ذریعے 90 فیصد سے زائد کیسز کی درست تشخیص کر سکتا ہے، جس سے بروقت فیصلہ سازی اور علاج ممکن ہوتا ہے۔