ڈیجیٹل عہد کے بچے۔۔ زوالِ ذہانت، ذہنی تنہائی ،مصنوعی بچپن
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
عصرِ حاضر میں انسانی زندگی کا سب سے نمایاں تغیر ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی ہے ۔ نت نئی برقی ایجادات، بالخصوص ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، اسمارٹ ڈیوائسزاور مصنوعی ذہانت سے جڑے نظاموں نے زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ یہ آلات نہ صرف معلومات کے حصول، رابطے اور تفریح کے ذرائع بن چکے ہیں بلکہ تعلیم، طب، معیشت اور مواصلات کے میدان میں انقلاب برپا کر چکے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سہولتیں انسانی ذہن کے لیے واقعی باعثِ ارتقاء ہیں یا رفتہ رفتہ ہماری فکری، سماجی اور اعصابی ساخت کو کمزور کر رہی ہیں؟ یہی سوال آج دنیا بھر کے ماہرینِ تعلیم اور نفسیات کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے ۔حالیہ برسوں میں ہونے والی متعدد بین الاقوامی تحقیقات نے واضح کیا ہے کہ بچوں کا روزانہ اسکرین ٹائم اگر دو گھنٹے سے زیادہ ہو جائے تو اس کے اثرات ان کی ذہنی نشوونما اور تعلیمی کارکردگی پر منفی پڑتے ہیں۔ امریکا کی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) کی ایک تحقیق کے مطابق، وہ بچے جو روزانہ 7 گھنٹے سے زیادہ اسکرین استعمال کرتے ہیں، ان کے دماغ کے سفید مادّے (White Matter)میں ساختی تبدیلیاں پائی گئیں، جو زبان سیکھنے ، فہم اور یادداشت سے براہِ راست تعلق رکھتا ہے ۔ کینیڈا میں کی گئی ایک جامع تحقیق نے بتایا کہ ایسے بچے جن کے اسکرین ٹائم کو والدین باقاعدہ محدود کرتے ہیں، ان کی ریاضی اور مطالعے کی صلاحیت اوسط درجے سے بہتر پائی گئی۔یہ تحقیق بتاتی ہے کہ زیادہ اسکرین دیکھنے والے بچوں کی علمی کارکردگی 15٪ تک کم دیکھی گئی، بالخصوص ریاضی، زبان فہم اور مطالعے کے مضامین میں۔ وجہ یہ ہے کہ ڈیجیٹل اسکرین کا مسلسل استعمال دماغ کے ان حصوں کو کمزور کرتا ہے جو ارتکاز، فیصلہ سازی اور تخلیقی سوچ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بچوں کی بصری یادداشت (Visual Memory) تو تیز ہو جاتی ہے ، مگر تجزیاتی سوچ (Analytical Thinking) سست پڑ جاتی ہے ۔
یہ بھی ایک قابلِ غور امر ہے کہ جب بچے زیادہ وقت ویڈیوز، گیمز اور مختصر ڈیجیٹل کلپس دیکھنے میں گزارتے ہیں، تو ان کے دماغ کا "ریوارڈ سسٹم” (Reward System) حد سے زیادہ متحرک ہو جاتا ہے ۔ ہر نئی ویڈیو، ہر نیا نوٹیفکیشن، ایک وقتی خوشی یا Dopamine کا جھٹکا دیتا ہے ، Dopamine(ڈوپامین) ایک قدرتی کیمیائی مادّہ (Neurotransmitter)ہے جو دماغ میں پیغام رسانی کے عمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔اس کا بنیادی کام خوشی، تحریک، توجہ اور انعام کے احساس (Pleasure, Motivation, Attention, Reward) کو کنٹرول کرنا ہے ۔یعنی جب کوئی شخص کوئی خوشگوار کام کرتا ہے مثلاً پسندیدہ کھانا کھاتا ہے ، تعریف سنتا ہے یا کوئی کامیابی حاصل کرتا ہے تو دماغ ڈوپامین خارج کرتا ہے ، جس سے مسرت اور اطمینان کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔جس کے بعد دماغ حقیقی سیکھنے یا مطالعے کی طرف کم متوجہ رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں میں "توجہ کی کمی” (Attention Deficit) کا رجحان بڑھ رہا ہے ، اور وہ ایک موضوع پر زیادہ دیر تک مرکوز نہیں رہ پاتے ۔نفسیاتی ماہرین کے مطابق جب بچے روزانہ 4 گھنٹے سے زائد وقت اسکرین پر گزارتے ہیں تو ان میں چڑچڑاپن، بے چینی، نیند کی کمی، جسمانی کمزوری اور سماجی تنہائی کے اثرات واضح ہونے لگتے ہیں۔ دنیا بھر میں "Digital Addiction” اب ایک نئی بیماری کے طور پر تسلیم کی جا چکی ہے ، جس کے تحت بچے حقیقی انسانی تعلقات سے زیادہ اسمارٹ فون یا گیمز سے وابستہ محسوس کرتے ہیں۔ ان کے والدین سے بات چیت کے دورانیے میں کمی، جسمانی کھیلوں سے بے رغبی، اور نیند کے اوقات میں عدم توازن ان کے ذہن و جسم دونوں کو متاثر کرتا ہے ۔
پاکستان میں بھی یہی صورتحال تیزی سے ابھر رہی ہے ۔ کورونا وبا کے بعد آن لائن تعلیم کے رجحان نے بچوں کو اسکرین سے مزید قریب کر دیا۔ ایک مقامی تعلیمی ادارے کے سروے کے مطابق، شہری علاقوں میں 70٪ طلبہ روزانہ 5 گھنٹے سے زیادہ وقت موبائل یا لیپ ٹاپ کے سامنے گزارتے ہیں۔ بظاہر وہ تعلیم کے لیے ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہوتے ہیں مگر درحقیقت ان کا بڑا وقت سوشل میڈیا، ویڈیوز اور غیرتعلیمی تفریحات میں صرف ہوتا ہے ۔ نتیجتاً ان کی جسمانی سرگرمیوں میں 60٪ کمی اور نیند کے دورانیے میں اوسطاً 1.
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے اسکرین ٹائم روزانہ ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے جبکہ اسکول جانے والے بچوں کے لیے زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے تجویز کیے گئے ہیں۔ اسی طرح امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس والدین کو یہ ہدایت دیتی ہے کہ بچوں کے سونے سے ایک گھنٹہ پہلے تمام ڈیجیٹل آلات بند کر دیے جائیں تاکہ دماغ سکون کی حالت میں جا سکے اور نیند کا معیار بہتر رہے ۔سماجی سطح پر بھی یہ مسئلہ شدت اختیار کر چکا ہے ۔ بچے اب جسمانی کھیلوں کے بجائے ورچوئل دنیا کے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ جہاں کبھی گلی محلوں میں کرکٹ، فٹبال اور دوڑ کے مقابلے ہوتے تھے ، وہاں اب موبائل گیمز نے جگہ لے لی ہے ۔ والدین کو سہولت محسوس ہوتی ہے کہ بچہ گھر میں ہے اور محفوظ ہے ، مگر حقیقت میں وہ جسمانی اور ذہنی طور پر سست ہوتا جا رہا ہے ۔ مسلسل بیٹھنے سے موٹاپا، خراب نظر (Myopia)، (مایوپیا) اردو میں نزدیک بینی یا کم نظری کہا جاتا ہے ۔اس حالت میں انسان کو قریب کی چیزیں صاف دکھائی دیتی ہیں لیکن دور کی چیزیں دھندلی نظر آتی ہیں۔یہ آنکھ کا ایک عام نقصِ بینائی (Vision Error) ہے ، جو عموماً آنکھ کے عدسے (Lens) یا قرنیے (Cornea) کی زیادہ خمیدگی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔
مایوپیا والے شخص کی آنکھ میں روشنی کا عکس Retina (شبکیہ) پر صحیح طرح نہیں پڑتا بلکہ اس سے پہلے فوکس ہو جاتا ہے ، جس سے دور کی چیزیں واضح نہیں رہتیں اور ریڑھ کی ہڈی کی بے ترتیبی جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ماہرِ نفسیات کے مطابق،”ڈیجیٹل آلات کا غیر محدود استعمال بچوں میں جذباتی بے حسی، خود اعتمادی میں کمی اور اضطرابی کیفیت پیدا کرتا ہے ”۔ان کے مشاہدے کے مطابق، ایسے بچے عملی زندگی میں مشکل فیصلے لینے یا تعلقات نبھانے میں کمزور ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کا دماغ فوری ردعمل کا عادی ہو چکا ہوتا ہے ۔ یہ رویہ مستقبل میں سماجی کمزوری اور احساسِ تنہائی کو جنم دیتا ہے ۔یہ کہنا درست ہے کہ ٹیکنالوجی کا انکار ممکن نہیں۔ جدید دنیا میں تعلیم، تحقیق اور معلومات تک رسائی انہی آلات کے ذریعے ممکن ہے ۔ مسئلہ ٹیکنالوجی نہیں، بلکہ اس کے غیر متوازن اور غیر ذمہ دارانہ استعمال کا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکولوں میں ”ڈیجیٹل لٹریسی”کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ بچے خود سمجھ سکیں کہ ٹیکنالوجی کب فائدہ مند اور کب نقصان دہ بنتی ہے ۔ اسی طرح والدین کو بھی گھروں میں ”اسکرین فری زونز” (Screen-Free Zones)متعارف کرانے چاہئیں، مثلاً کھانے کے دوران یا سونے سے پہلے موبائل فون کا استعمال ممنوع ہو۔مزید برآں، ریاستی سطح پر بھی عوامی آگاہی مہمات ناگزیر ہیں تاکہ والدین کو بچوں کے ڈیجیٹل رویوں کی تربیت کے بارے میں رہنمائی فراہم کی جا سکے ۔ اسکولوں میں روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ جسمانی سرگرمی لازمی قرار دینا، اور ہفتہ وار ”ڈیجیٹل ڈی ٹاکس ڈے ” کا اہتمام ایک موثر قدم ثابت ہو سکتا ہے ۔
آخرکار بات وہیں آتی ہے کہ جدید سہولتیں انسان کے تابع رہیں، نہ کہ انسان ان کے ۔ بچوں کا دماغ ابھی تشکیل کے عمل میں ہوتا ہے ؛ اگر ہم نے ان کے وقت، عادات اور ذہنی توجہ پر ٹیکنالوجی کو مکمل قبضہ کرنے دیا تو آنے والی نسلوں کی فکری آزادی اور تخلیقی قوت متاثر ہوگی۔ اس لیے دانشمندی اسی میں ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو علم و آگہی کا ذریعہ بنایا جائے ، تفریح کا نہیں؛ اور بچوں کے لیے جسمانی کھیل، مطالعہ اور قدرتی مشاہدہ زندگی کا لازمی حصہ بنائے رکھا جائے ۔ یہی وہ توازن ہے جو ہمیں سہولتوں کے ساتھ ذہانت، اور ترقی کے ساتھ انسانیت بھی محفوظ رکھنے کا یقین دلا سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: گھنٹے سے زیادہ والدین کو کے مطابق کرتا ہے ہوتا ہے بچوں کے کے لیے
پڑھیں:
ایسی 3 عادات جو مدافعتی نظام کو مضبوط کرتی ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مدافعتی نظام انسانی صحت کی پہلی اور سب سے اہم حفاظتی دیوار ہے۔ اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں چند آسان اور صحت مند عادات شامل کر لیں تو جسم کی قدرتی مدافعت کو نمایاں طور پر مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، چند بنیادی عادات سائنسی طور پر ثابت شدہ ہیں جو مدافعتی نظام کو بہتر بناتی ہیں۔
متوازن اور غذائیت سے بھرپور خوراک
غذا دراصل سب سے مؤثر دوا ہے۔ ایسی خوراک کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں جو وٹامنز، منرلز اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہو۔ وٹامن سی کے لیے نارنجی، امرود، لیموں اور شملہ مرچ بہترین ذرائع ہیں، جبکہ وٹامن اے اور ای کے لیے پالک، گاجر اور میوہ جات کا استعمال مفید ہے۔ اومیگا-3 فیٹی ایسڈز حاصل کرنے کے لیے مچھلی اور السی کے بیج کھائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قدرتی مدافعت بڑھانے والی اشیاء جیسے لہسن، ادرک، ہلدی اور شہد کو اپنی خوراک میں شامل کریں۔ یہ اجزا جسم میں سوزش کو کم کرتے ہیں، خلیوں کی مرمت کرتے ہیں اور وائرس و بیکٹیریا کے خلاف دفاع مضبوط بناتے ہیں۔
معیاری نیند اور ذہنی سکون
مدافعتی نظام رات کے وقت جسم کی مرمت اور بحالی کا عمل انجام دیتا ہے۔ بہتر صحت کے لیے ہر رات کم از کم 7 سے 8 گھنٹے نیند لینا ضروری ہے۔ سونے سے پہلے موبائل فون کے استعمال، کیفین اور ذہنی دباؤ سے گریز کریں۔ مراقبہ، گہری سانس یا ہلکی ذہنی مشقیں تناؤ کم کرنے میں مدد دیتی ہیں، کیونکہ مسلسل ذہنی دباؤ قوتِ مدافعت کو کمزور کر دیتا ہے۔
باقاعدہ جسمانی سرگرمی
ورزش صرف جسمانی فٹنس کے لیے نہیں بلکہ مدافعتی نظام کو متحرک رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ روزانہ کم از کم 30 منٹ تیز چہل قدمی، یوگا یا ہلکی ورزش کریں۔ یہ سرگرمیاں خون کی روانی کو بہتر بناتی ہیں، جس سے مدافعتی خلیے جسم کے مختلف حصوں تک زیادہ مؤثر انداز میں پہنچ کر اپنا کام انجام
دیتے ہیں۔