ڈیجیٹل کیمرے کی پیدائش: ایک انجینیئر نے فوٹوگرافی کی دنیا بدل کر رکھ دی
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
سنہ1975 میں ایک نوجوان انجینیئر اسٹیو ساسن نے ایسٹ مین کوڈک میں ہینڈ ہیلڈ ڈیجیٹل کیمرا سے پہلی تصویر کھینچی اور اس وقت سے فوٹوگرافی کی دنیا بدل دی۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جب اسٹیو ساسن نے ایسٹ مین کوڈک میں کام شروع کیا تھا تو کمپنی امریکی فوٹوگرافک فلم بنانے والی کمپنی امریکی صنعتی مہارت کی علامت تھی۔
سنہ1870 کی دہائی میں جارج ایسٹ مین نے اس کمپنی کی بنیاد رکھی اور کوڈک نے فلم فوٹوگرافی کو عام لوگوں تک پہنچایا۔ لوگ کوڈک فلم خریدتے، کوڈک کیمرے میں لگاتے اور کوڈک کی فوٹوگرافک پیپر پر پرنٹ تیار کرتے۔
ساسن کا آغاز اور خیالالیکٹریکل انجینیئر 23 سالہ ساسن فلمی کیمرے کے روایتی عمل سے مطمئن نہیں تھے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر ہم سب کچھ الیکٹرانک طور پر کر سکیں؟ تصویر الیکٹرانک طور پر محفوظ ہو اور فلم کی ضرورت نہ ہو؟
ڈیجیٹل امیجنگ کی بنیادیںسنہ1969 میں بیل لیبارٹریز نے چارج کپلڈ ڈیوائس ایجاد کی جو روشنی کو الیکٹرانک سگنل میں بدل سکتی تھی۔ سنہ 1974 تک فیئرچائلڈ سیمی کنڈکٹرز نے پہلی تجارتی چارج کپلڈ ڈیوائس بنائی جس کا سائز 100 x 100 پکسلز تھا۔
ساسن نے اس نئی ٹیکنالوجی میں دلچسپی لی اور سوچا کہ اسے استعمال کر کے فلم کے بغیر کیمرا بنایا جا سکتا ہے۔
کیمرے کی تیاریساسن نے ایک اوور سائز ٹوسٹر نما کیمرہ بنایا۔ اس میں چارج کپلڈ ڈیوائس، لینس اور آڈیو کسٹ ڈیک استعمال کیا گیا تاکہ ڈیجیٹل سگنل محفوظ ہو سکے۔ کیمرا 8 پاؤنڈ (3.
ساسن نے پہلی تصویر اپنے ساتھی جوی مارشل کی کھینچی۔ تصویر 1/20 سیکنڈ میں کی گئی، اور 23 سیکنڈ میں کیسٹ ڈیک پر محفوظ ہوئی۔ جب اسے ٹی وی پر دیکھا گیا تو تصویر کی ہیئر اور پس منظر تو نظر آئے مگر چہرہ مکمل طور پر مبہم تھا۔ بعد میں وائرنگ میں معمولی تبدیلی سے تصویر صاف دکھائی دینے لگی۔
ساسن کے مطابق پہلی تصویر لی گئی اور اس لمحے سے فوٹوگرافی کی دنیا بدل گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
تصویری دنیا میں انقلاب ڈیجیٹل فوٹوگرافی ڈیجیٹل کیمرا فوٹوگرافیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: تصویری دنیا میں انقلاب ڈیجیٹل کیمرا فوٹوگرافی پہلی تصویر
پڑھیں:
ڈیجیٹل جزیروں پر تنہائی کا دور
آج ہم ایک ایسے زمانے میں جی رہے ہیں جہاں ہر طرف ہجوم ہے، مگر ہر چہرہ تنہا ہے۔ اسکرینز نے ہمیں دنیا سے جوڑا، مگر دلوں کے فاصلے بڑھا دیے۔ فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور دیگر ایپس کے ذریعے ہم جڑنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر سچ یہ ہے کہ جب دل اداس ہوتا ہے تو کوئی “ان باکس” میں نہیں آتا۔
ٹیکنالوجی نے سہولتیں دی ہیں، مگر انسانی رابطے اور جذبات کی اصل ضرورت کو نظر انداز کیا ہے۔ آج لوگ سالگرہ پر لائیکس گنتے ہیں، آن لائن موجودگی کو زندگی کا پیمانہ سمجھتے ہیں، اور حقیقی بات چیت اور انسانی لمس کو بھول جاتے ہیں۔
ہر شخص اپنے ڈیجیٹل جزیرے پر ہے—وی لاگ، ریلز، ٹویٹس میں مصروف، مگر رات کو تنہائی میں کوئی دل کی سننے والا نہیں ہوتا۔ پہلے خطوط اور بات چیت میں جذبات ہوتے تھے، آج نوٹیفکیشن کی بیپ ہماری خوشی کا سبب ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم دوبارہ کتابیں کھولیں، فطرت کے رنگ دیکھیں، اور اپنے آس پاس موجود لوگوں کی خاموش کہانیاں سنیں۔ آخرکار، انسانوں کی ضرورت ہمیشہ انسانوں کو رہے گی، چاہے ٹیکنالوجی کتنی بھی ترقی کر جائے۔ اور اگر سب پڑھنے کے بعد بھی سوچ رہے ہیں کہ “شیئر کروں یا نہیں؟”، تو پہلے کسی کو گلے لگا لیں—حقیقی موجودگی سب سے بڑی چیز ہے۔