Daily Mumtaz:
2025-12-06@14:53:02 GMT

ڈیجیٹل جزیروں پر تنہائی کا دور

اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT

ڈیجیٹل جزیروں پر تنہائی کا دور

آج ہم ایک ایسے زمانے میں جی رہے ہیں جہاں ہر طرف ہجوم ہے، مگر ہر چہرہ تنہا ہے۔ اسکرینز نے ہمیں دنیا سے جوڑا، مگر دلوں کے فاصلے بڑھا دیے۔ فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور دیگر ایپس کے ذریعے ہم جڑنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر سچ یہ ہے کہ جب دل اداس ہوتا ہے تو کوئی “ان باکس” میں نہیں آتا۔
ٹیکنالوجی نے سہولتیں دی ہیں، مگر انسانی رابطے اور جذبات کی اصل ضرورت کو نظر انداز کیا ہے۔ آج لوگ سالگرہ پر لائیکس گنتے ہیں، آن لائن موجودگی کو زندگی کا پیمانہ سمجھتے ہیں، اور حقیقی بات چیت اور انسانی لمس کو بھول جاتے ہیں۔
ہر شخص اپنے ڈیجیٹل جزیرے پر ہے—وی لاگ، ریلز، ٹویٹس میں مصروف، مگر رات کو تنہائی میں کوئی دل کی سننے والا نہیں ہوتا۔ پہلے خطوط اور بات چیت میں جذبات ہوتے تھے، آج نوٹیفکیشن کی بیپ ہماری خوشی کا سبب ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم دوبارہ کتابیں کھولیں، فطرت کے رنگ دیکھیں، اور اپنے آس پاس موجود لوگوں کی خاموش کہانیاں سنیں۔ آخرکار، انسانوں کی ضرورت ہمیشہ انسانوں کو رہے گی، چاہے ٹیکنالوجی کتنی بھی ترقی کر جائے۔ اور اگر سب پڑھنے کے بعد بھی سوچ رہے ہیں کہ “شیئر کروں یا نہیں؟”، تو پہلے کسی کو گلے لگا لیں—حقیقی موجودگی سب سے بڑی چیز ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

صدر پوٹن کا دورہء ہندوستان

اسلام ٹائمز: مشرق وسطیٰ میں کوئی ممکنہ بڑی جنگ عالمی افق پر کسی نئے منظرنامے کو تشکیل دے سکتی ہے۔ لمحہء موجود میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ طالبان و افغانستان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان اس بار بھی کہیں وہ غلطی نہ کر بیٹھے جو اس نے ”نائن الیون“ کے بعد کی تھی۔ یعنی اب بھی وہ اس مسئلے کے حل کے لیے امریکہ کا دامن پکڑنے کی کوشش کرے۔ یہ کام انتہائی خطرناک ہوگا۔ اس طرح طالبان کو موقع ملے گا کہ وہ پاکستان سے جنگ کو امریکہ کے خلاف جہاد سے تعبیر کریں اور یوں امریکہ مخالف بننے والے نئے کیمپ کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کریں۔ تحریر: پروفیسر تنویر حیدر نقوی
           
”نائن ایلیون“ کے بعد امریکہ کے سر پر انتقام کا بھوت سوار تھا۔ وہ جلدازجلد افغانستان کو ”تورا بورا“ بنانا چاہتا تھا۔ اپنی آتشِ انتقام کو سرد کرنے کے لیے اسے کسی کی ”لاجسٹک سپورٹ“ کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس کے ایک دھمکی آمیز فون نے اس کا کام آسان کر دیا۔ جنرل مشرف نے امریکہ کے ابرو کے ایک اشارے پر اسے پلیٹ میں رکھ کر وہ کچھ دے دیا جس کے بارے میں اس نے سوچا بھی نہیں تھا اور جو اس کا مطالبہ بھی نہیں تھا۔  اس حوالے سے  افتخار عارف کا ایک معروف شعر(ان سے معذرت کے ساتھ) کچھ ترمیم کے ساتھ، اس شکل میں وارد ہوا:
امریکہ کی چوکھٹ پہ ہم آشفتہ سروں نے
سجدے کیے کچھ ایسےجو واجب بھی نہیں تھے
امریکہ کے سامنے اس درجہ تک جبہ سرائی کے جواز میں کہا گیا کہ اگر ہم اس کام میں پہل نہ کرتے تو ہمارا رقیب ہندوستان مفادات کی اس دوڈ میں ہم پر سبقت لے گیا ہوتا۔ گویا ہمیں کسی کی محبت اور کسی کی مخالفت میں یہ سب کچھ انجام دینا پڑا۔ (آج ہم اپنے دامن میں اپنی اس پالیسی کی وجہ سے جس قسم کے ”فوائد“ سمیٹے ہوئے ہیں، وہ ”پہلے آؤ، پہلے پاؤ“ کے اصول پر ہمارے اسی عمل کا نتیجہ ہے۔) حقیقت یہ ہے کہ ہم نے جلد بازی میں ”دانے“ کو دیکھا لیکن ”دام“ کو نہ دیکھا۔ یوں ہم تب سے اب تک، امریکہ بہادر کے بچھائے ہوئے اس جال میں بری طرح سے پھنسے ہوئے ہیں۔

کامیابی اس میں نہیں کہ امریکہ ہم پر کتنا مہربان ہے بلکہ کامیابی اس میں ہے کہ ہم امریکہ کے سایے سے کس حد تک دور ہیں۔ ہم نے امریکہ کے راستے میں اپنے دیدہ و دل بچھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن حد یہ ہے کہ کوئی امریکی صدر ہماری سرزمین ہر اپنا قدم رنجہ فرمانا اپنی شان اقدس کے خلاف سمجھتا ہے۔ حالانکہ ہم اپنے اس ”صنم“ کو راضی کرنے کے لیے ہمیشہ اپنا سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ رہے۔
اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچہء رقیب میں بھی سر کے بل گیا
اس کے مقابلے میں جب ہم صدر پوٹن کے حالیہ دورہء ہندوستان کو دیکھتے ہیں تو ہم احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس پر غور کرنا چاہیئے۔ ہمارے بعض تجزیہ نگار اس بات پر خوش ہیں کہ ”مودی نے امریکہ و یورپ کو جس طرح جھنڈی دکھا کر پوٹن کا استقبال کیا ہے، اس سے اس نے اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری ہے۔“ حالانکہ مودی نے اپنے پاؤں زخمی کرکے بھی جس روش کو اختیار کیا ہے اسے سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ امریکہ کی مخالف سمت میں اس کے اس سفر سے اسرائیل سے اس کی دوری پیدا ہو گی لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ روس کے ساتھ اس کے تعلقات بڑھنے سے چین سے اس کے اختلافات کم ہوں گے۔

پاکستان کے پاس اتنی مہارت ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس نئی عالمی بساط پر اپنے بہتر کارڈ کھیل سکتا ہے۔ اسے چاہیئے کہ وہ آج کی صورت حال کے مطابق امریکہ سے کم از کم اتنی دوری اختیار کرے جو روس، چین اور ایران کے بننے والے علاقائی محور میں اپنی کوئی خاص پہچان بنائے۔ (ناممکن نہیں کہ مستقبل قریب میں ہندوستان اور افغانستان بھی اس محور کا حصہ بن جائیں۔ جس میں شمولیت کے لیے سب سے بڑی شرط امریکہ سے دوری ہو)۔

مشرق وسطیٰ میں کوئی ممکنہ بڑی جنگ عالمی افق پر کسی نئے منظرنامے کو تشکیل دے سکتی ہے۔ لمحہء موجود میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ طالبان و افغانستان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان اس بار بھی کہیں وہ غلطی نہ کر بیٹھے جو اس نے ”نائن الیون“ کے بعد کی تھی۔  یعنی اب بھی وہ اس مسئلے کے حل کے لیے امریکہ کا دامن پکڑنے کی کوشش کرے۔ یہ کام انتہائی خطرناک ہوگا۔ اس طرح طالبان کو موقع ملے گا کہ وہ پاکستان سے جنگ کو امریکہ کے خلاف جہاد سے تعبیر کریں اور یوں امریکہ مخالف بننے والے نئے کیمپ کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کریں۔

روس نے پہلے ہی اپنا وزن طالبان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ اس خطے کے مسائل کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں بلا مبالغہ تمام مسائل کی جڑ امریکہ ہی نظر آئے گا۔ ہم جو اب تک امریکہ کے پیدا کیے ہوئے مسائلِ کہن کے بھنور سے نہیں نکل پائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم آنے والے وقتوں میں اس سے کہیں بڑے گرداب میں پھنس کر رہ جائیں۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

متعلقہ مضامین

  • ڈکی بھائی کی ذہنی صحت متاثر، تنہائی اور اہل خانہ کے ساتھ وقت کی ضرورت ہے: اقرا کنول
  • ڈیجیٹل جزیروں  کے سراب پر تنہا ہجوم
  • وقت سے پہلے دفتر پہنچنے کی ’عادت‘، اسپین میں خاتون کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ گئے
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • صدر پوٹن کا دورہء ہندوستان
  • فوج کی دوٹوک پریس کانفرنس: عمران خان پر ذہنی بیماری اور ریاست مخالف بیانیے کے الزامات
  • کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ پاکستان کی افواج اور عوام کے بیچ دراڑیں ڈالے؛ ڈی جی آئی ایس پی آر
  • مہنگائی کی آگ اور غریب کا بجھتا ہوا چولہا
  • مقصودِ حقیقی صرف فلاح اخروی