اداکارہ کا اغوا اور چلتی گاڑی میں اجتماعی زیادتی؛ بھارتی سپراسٹار کو بری کردیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
بھارتی فلم انڈسٹری کے سب سے سنسنی خیز اغوا اور جنسی زیادتی کے ہائی پروفائل کیس کے حیران کن فیصلے نے عدالتی نظام کو بے نقاب کردیا۔
مقامی میڈیا کے مطابق 2017 کو معروف اداکارہ کو اغوا کے بعد جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کے کیس نے ملیالم فلم انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
متاثرہ اداکارہ کو چلتی گاڑی میں نہ صرف اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا بلکہ ویڈیو بناکر دھمکایا گیا تھا کہ منہ کھولا تو وائرل کردی جائے گی۔
متاثرہ اداکارہ نے الزام عائد کیا تھا کہ اغوا کاروں نے بتایا تھا کہ وہ یہ خوفناک عمل کسی ایسے شخص کے کہنے پر کر رہے ہیں جس کی اداکارہ سے "پُرانی دشمنی" تھی۔
پولیس کی تحقیقات کے دوران اس سفاک واردات میں 10 افراد کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تھے۔ جن کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔
اس کیس کے مرکزی ملزم لاکھوں دلوں کی دھڑکن، ملیالم سپر اسٹار دلیپ تھے جن کے مداح ان کو بھگوان مان کر پوجا کرتے ہیں۔
پولیس نے دلیپ کو اس کیس کا "مرکزی منصوبہ ساز" قرار دیا تھا جس پر سپراسٹار کو جولائی 2017 میں گرفتار کرکے 85 دن جیل میں بھی رکھا گیا تھا۔
یہ کیس ہائی پروفائل بنا اور عوامی سطح پر بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا جس پر کیرالا حکومت نے ہائی کورٹ جج کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی بھی بنائی تھی۔
کمیٹی کی رپورٹ 2017 میں مکمل ہوگئی لیکن اس کے مخصوص حصے ہی 2024 میں سامنے آسکے تھے جس نے ایک بار پھر MeToo# کی لہر کو زندہ کر دیا تھا۔
تاہم آج ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے نامزد 10 ملزمان میں سے 6 کو مجرم قرار دیا لیکن سپراسٹار دلیپ سمیت 4 ملزمان کو عدم ثبوت پر بری کردیا۔
بری ہونے کے بعد سپراسٹارر دلیپ نے 8 ساتھ سال ساتھ دینے پر اپنے مداحوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے کیریئر کو تباہ کرنے کی جھوٹی سازش تھی۔
انھوں نے مزید کہا ایک پولیس گینگ نے میڈیا کی مدد سے فرضی کہانی بنا کر مجھے پھنسانے کی کوشش کی اور آج وہ کہانی ناکام ثابت ہوگئی۔
دوسری جانب ریاست کیرالا کے وزیر قانون پی راجیو نے اعلان کیا ہے کہ حکومت متاثرہ اداکارہ کے ساتھ ہے اور ہم اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس کیس کی ساری فائل کا دوبارہ جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کہاں خامیاں رہ گئیں۔ ملزم کو سزا دلوا کر رہیں گے۔
اس ہائی پروفائل کیس کی ابتدائی تفتیش کرنے والی سابق پولیس چیف بی سندھیا نے بھی کہا کہ یہ آخری عدالت نہیں ہے۔ کیس سپریم کورٹ تک جائے گا۔
خیال رہے کہ جن 6 افراد کو اس کیس میں مجرم قرار دیا گیا ہے انھیں 12 دسمبر کو سزائیں سنائی جائیں گی۔
اگر ریاست نے اپیل دائر کر دی تو معاملہ ایک بار پھر ہائی کورٹ اور ممکنہ طور پر سپریم کورٹ تک جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بابری مسجد شہادت کی 33ویں برسی، اترپردیش میں آج بھی ہائی الرٹ
سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو منہدم کرکے نہیں بنائی گئی۔ عدالت کے اس تبصرہ سے ایک ایسے جھوٹ کا پردہ فاش ہوگیا جسکو ہندو تنظیموں نے خوب پھیلایا، مسلمانوں کے بارے میں نفرت پیدا کی گئی اور فرقہ پرستوں کی ایک جارح اور شدت پسند فوج تیار کردی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ اودھ کے حاکم میر باقی اصفہانی نے 1528ء میں بابری مسجد تعمیر کروائی تھی۔ یہ دور شہنشاہ بابر کا تھا۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں نے بابری مسجد کو سب سے پہلے 27 مارچ 1932ء کو گائے کشی کے نام پر نشانہ بنایا تھا۔ پھر اس کے 60 سال بعد چھ دسمبر 1992ء کو ہندو کارکنوں نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا۔ گزشتہ 33 سال سے ہر برس 6 دسمبر کو "رام جنم بھومی" کی حامی تنظیمیں "شوریہ دیوس" اور مسلم تنظیمیں "یوم سیاہ" کے طور پر مناتے آرہے ہیں۔ اسی سال بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر مکمل ہوئی اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اس کا افتتاح کیا۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے 9 نومبر 2019ء کو ایودھیا میں 1949ء میں مسجد میں مورتیاں رکھے جانے اور مسجد کے انہدام کو غیر قانونی فعل قرار دیا تھا۔ باوجود بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بی جے پی کے لیڈر اور ہندو کارکنوں کو تحقیقاتی ایجسنی "سی بی آئی" کی عدالت نے بری کردیا، اس معاملے میں ملزم ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت تمام 32 ملزمین کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے بری کر دیا تھا کہ ان کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو منہدم کر کے نہیں بنائی گئی۔ عدالت کے اس تبصرہ سے ایک ایسے جھوٹ کا پردہ فاش ہوگیا جس کو ہندو تنظیموں نے خوب پھیلایا، مسلمانوں کے بارے میں نفرت پیدا کی گئی اور فرقہ پرستوں کی ایک جارح اور شدت پسند فوج تیار کر دی گئی۔
سپریم کورٹ نے اپنے حتمی فیصلے میں رام مندر کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی سات ججوں کی آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ اراضی کو ہندو فریق رام لیلا کے حوالے کرنے کا فیصلہ جب کہ مسلم فریق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لئے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا حکومت کو حکم دیا۔ واضح رہے کہ ممبئی فسادات کی تحقیقات کرنے والے بامبے ہائی کورٹ کے جسٹس بی این سری کرشنا کمیشن نے بھی مسجد میں 1949ء میں مورتیاں رکھنا اور 1992ء میں مسجد کے انہدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی کی "رتھ یاترا" کو بھی مسجد کے انہدام کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ لیکن کمیشن کی سفارشات کے باوجود قصورواروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
ایسا یقین دلایا گیا تھا کہ بابری مسجد کے بعد ملک کی کسی دیگر مسلم عبادت گاہ پر دعویٰ نہیں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ آف انڈیا پہلے ہی 1991ء میں ایک فیصلہ دے چکی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ 1947ء سے عبادت گاہوں کی مذہبی نوعیت کو برقرار رہنا چاہیئے، لیکن بابری مسجد کے بعد بھی مسلم عبادت گاہوں، بزرگان دین کے مزاروں پر ہندو تنظیموں کے دعویٰ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں وارانسی کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ، دھار کی کمال مولیٰ مسجد، سنبھل کی شاہی جامع مسجد، بدایوں کی تاریخی جامع مسجد، اجمیر کی مشہور خواجہ معین الدین حسن چشتی کی درگاہ اور دہلی کی تاریخی جامع مسجد شامل ہیں۔
بابری مسجد انہدام کی 33ویں برسی کے سلسلے میں آج بھی ضلع انتظامیہ نے سنبھل اور متھرا میں بھی ہائی الرٹ جاری کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ شری کرشن جنم بھومی اور شاہی عیدگاہ مسجد کے اردگرد ڈرون کیمروں سے نگرانی کی جا رہی ہے۔ مندر کے تمام دروازوں سے گزرنے والے ہر شخص کی جانچ کی جا رہی ہے۔ جمعرات کی شام دیر گئے، ضلعی انتظامیہ نے مندروں کے اردگرد بنائے گئے ہوٹلوں، ڈھابوں اور دھرم شالوں کو بھی چیک کیا تھا۔ متھرا میں بھی بابری مسجد انہدام کی برسی کے حوالے سے الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ شاہی عیدگاہ مسجد کے اطراف کے علاقوں میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ بی ڈی ایس ٹیم اور ڈاگ اسکواڈ نے چیکنگ کی۔
دوسری جانب شاہی عیدگاہ مسجد کی سکیورٹی کے حوالے سے بھی احتیاط برتی جارہی ہے۔ شری کرشنا جنم بھومی مندر کمپلیکس کے علاقے کو کئی زون اور کئی سیکٹرز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سادہ لباس میں پولیس اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔ پولیس فورس کے ساتھ سی آئی ایس ایف جوان پی اے سی بھی تعینات ہے۔ ضلعی انتظامیہ سوشل میڈیا واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹاگرام کی نگرانی کر رہی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے کچھ روز قبل سماج دشمن عناصر کے خلاف اپیل جاری کی تھی۔ کسی بھی قسم کی افواہ پھیلانے یا فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا انتباہ جاری کیا گیا ہے۔