Express News:
2025-12-06@16:28:06 GMT

ڈیجیٹل جزیروں  کے سراب پر تنہا ہجوم

اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT

یہ ایک عجیب تضاد ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ انسانوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ انسانیت کی مقدار گھٹتی جارہی ہے۔ 

کہاوت ہے کہ ’’بندہ بندے کا دارو‘‘ مگر آج کا بندہ زیادہ تر اپنے بھائی کے اسٹیٹس، اسٹوری اور پروفائل پکچر کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ہر طرف ہجوم ہے، مگر ہر چہرہ تنہا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جہاں ’’رابطے بہت، رشتے کم‘‘ کا محاورہ صرف شاعری نہیں، بلکہ روزمرہ کی حقیقت بن چکا ہے۔

ہر شخص کے ہاتھ میں ایک اسکرین ہے، اور ہر دل میں ایک خالی پن۔ ہم نے ایک دوسرے سے جڑنے کےلیے جتنے زیادہ پلیٹ فارمز بنائے ہیں، اتنا ہی ہم ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے ہیں۔ سچ ہے کہ ٹیکنالوجی نے ہمارے فاصلے مٹائے، مگر دلوں کے فاصلے بڑھا دیے۔

کبھی سوچا ہے کہ ہم نے کتنے ’’رابطہ خانے‘‘ بنا لیے ہیں؟ فیس بک، انسٹاگرام، ٹویٹر، واٹس ایپ، سگنل، ٹیلیگرام، ہر ایپ میں چیٹ کا آپشن ہے، ہر ہاتھ میں دنیا، مگر جب دل اداس ہوتا ہے تو کوئی ’’اِن باکس‘‘ میں نہیں آتا۔ صرف نوٹیفکیشن کی بے ہنگم آوازیں گونجتی ہیں۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’آپ کی خاموشی دیکھنے کے لیے آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے، مگر آپ کا اسٹیٹس پڑھنے کےلیے صرف انٹرنیٹ چاہیے‘‘۔ یہ وہ دور ہے جہاں لوگ اپنی سالگرہ پر کیک سے زیادہ ’’لائیکس‘‘ گنتے ہیں، اور جہاں ’’آن لائن‘‘ ہونا زندگی کی علامت بن چکا ہے، چاہے دل حقیقت میں کتنا ہی ’’آف لائن‘‘ کیوں نہ ہو۔

ٹیکنالوجی نے ہمیں وہ سب کچھ دیا جس کا خواب تھا، گھر بیٹھے کھانا، انگلی کے اشارے پر ٹیکسی، مگر اس سب کے بدلے ہم نے کیا کھویا؟ ’’دل کی بات‘‘ اب صرف ’’ٹائپنگ.

..‘‘ میں رہ گئی ہے، اور ’’آنکھوں کی زبان‘‘ فلٹرز میں چھپ گئی ہے۔

مصنوعی ذہانت نے ہمیں سہولتیں تو دیں، مگر قدرتی بے حسی بھی ساتھ لائی۔ اب کسی کی آنکھوں میں آنسو دیکھنے کے بجائے، ہم اس کی ’’سوری‘‘ والی اسٹوری دیکھتے ہیں، اور دل کو تسلی دیتے ہیں کہ ’’کم از کم پوسٹ تو کی ہے، جذبات زندہ ہیں!‘‘

ہم سب اپنے اپنے ڈیجیٹل جزیروں پر رہتے ہیں۔ ہر کوئی مصروف ہے، کسی کو ’’ریلز‘‘ بنانے کی جلدی ہے، کسی کو ’’وی لاگ‘‘ اپ لوڈ کرنا ہے، اور کسی کو ’’ٹویٹ‘‘ میں دنیا کی اصلاح کرنی ہے۔ مگر جب رات کو نیند نہیں آتی، تو کوئی ’’فالوور‘‘ دلاسہ دینے نہیں آتا۔ یہ وہ ہجوم ہے جو تنہائی میں بھی شور کرتا ہے، مگر دل کی خاموشی نہیں سنتا۔ ہر شخص اپنے فون کی اسکرین میں قید ہے، جیسے قیدی کو کھڑکی سے باہر جھانکنے کی اجازت ہو، مگر باہر نکلنے کی نہیں۔

یاد ہے وہ وقت جب کسی عزیز کا خط آتا تھا؟ لفافہ کھولنے سے پہلے دل دھڑکتا تھا، اور ہر لفظ میں جذبات کی خوشبو ہوتی تھی۔ آج، نوٹیفکیشن آتا ہے: "Your package has been delivered" اور ہم خوش ہوجاتے ہیں کہ شاپنگ کامیاب رہی، چاہے دل خالی ہی کیوں نہ ہو۔ اب ’’انتظار‘‘ کو وقت کا ضیاع سمجھا جاتا ہے، اور ’’صبر‘‘ کو کمزوری۔ ہم نے تو شیطان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، اور اب ہر کام ’’پری آرڈر‘‘ سے پہلے ہی مکمل چاہتے ہیں۔

اسکرین نے ہمیں وہ سب کچھ دکھایا جو ہم دیکھنا چاہتے تھے، مگر وہ چھپا لیا جو ہمیں دیکھنا چاہیے تھا۔ اب ہر چہرہ فلٹر شدہ ہے، ہر بات ایڈیٹ شدہ، اور ہر جذبات ایموجی شدہ۔ ’’چراغ تلے اندھیرا‘‘۔ ہم نے اسکرین کی روشنی میں اپنے اندر کی تاریکی کو نظر انداز کردیا۔ ہم نے اپنی اصل کو اتنا چھپا لیا ہے کہ اگر کبھی خود سے ملاقات ہو جائے تو شاید پہچان بھی نہ سکیں۔ پہلے بزرگوں کی باتیں سننا فخر کی بات ہوتی تھی۔ اب ’’اس نے پرانی بات کی‘‘ کہہ کر اگلے کو ’’اَن فالو‘‘ کردیا جاتا ہے۔ ہم نے تجربے کو ’’اوور ایج‘‘ اور دانائی کو ’’آؤٹ ڈیٹڈ‘‘ قرار دے دیا ہے، جیسے انسان صرف اپ ڈیٹ کے بعد ہی قابلِ استعمال ہو۔ ہم نے فطرت کو چھوڑ کر ’’فیس‘‘ کو اپنا مرکز بنالیا ہے۔ پہلے درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر باتیں ہوتی تھیں، اب ’’کافی شاپ‘‘ میں بیٹھ کر فون چیک کیے جاتے ہیں۔ ہم نے پرندوں کی چہچہاہٹ کو نوٹیفکیشن کی بیپ سے بدل دیا ہے، اور سورج کی روشنی کو اسکرین کی برائٹ نیس سے۔

کیا ہم واقعی جُڑے ہوئے ہیں؟ یا پھر ہم محض ایک ڈیجیٹل سراب میں اپنے اپنے جزیروں پر تنہا کھڑے ہیں؟ ہمیں دوبارہ سے کتابوں کے صفحات پلٹنے ہوں گے، فطرت کے رنگوں کو آنکھوں سے دیکھنا ہوگا، اور سب سے بڑھ کر، اپنے آس پاس موجود انسانوں کی خاموش کہانیوں کو سننا ہوگا۔ کیونکہ آخر میں ’’انسانوں کی ضرورت انسانوں کو ہمیشہ رہے گی‘‘ چاہے ٹیکنالوجی کتنی بھی ترقی کرجائے۔ اور اگر آپ یہ سب پڑھ کر بھی صرف اتنا سوچ رہے ہیں کہ ’’اِسے شیئر کروں یا نہیں؟‘‘ تو جناب، پہلے کسی کو گلے لگا لیجیے۔ شاید وہ آپ کے ’’ریپلائی‘‘ سے زیادہ آپ کی حقیقی موجودگی کا منتظر ہو۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کسی کو

پڑھیں:

پی ٹی آئی نے مذاکرات کی ٹرین مس کر دی، اپنے لیڈر کے بیانات پر معذرت کریں: عطا تارڑ

اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ بھارتی میڈیا کو جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ اڈیالہ جیل کے باہر امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ جو بھی جیل رولز کی خلاف ورزی کرے گا اسے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں ہوگی۔ جمعہ کو یہاں پارلیمنٹ ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ بھارتی میڈیا کو جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں آتا، انہیں شرم کرنی چاہئے۔  ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بڑے بڑے سینئر صحافیوں کو قوم سے معافی مانگنی چاہئے۔ انہوں نے چائے کی پیالی میں طوفان برپا کیا ہوا تھا۔ پورے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر افواہیں پھیلانے والوں کو آج قوم کے سامنے شرمسار ہونا چاہئے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کا دفاع مزید مضبوط ہوا ہے۔ پاکستان نے سٹرکچرل تبدیلیاں کر کے دشمن کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ تمام فورسز کی متحدہ کمانڈ قائم کی گئی ہے، اس سے ہمیں جنگ میں فتح ملی۔ ہم نے مشرقی اور مغربی سرحدوں کو مضبوط کیا۔ دشمن کو شکست دی، آئندہ دشمن جرات نہیں کرے گا۔ پی ٹی آئی نے مذاکرات کی ٹرین مس کر دی۔ اپنے لیڈر کے بیانات پر معذرت کریں۔ بانی پی ٹی آئی بھارت اور افغانستان کیلئے سپیس پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ سہیل آفریدی صوبے میں امن و امان ٹھیک نہیں کریں گے تو گورنر راج کا آپشن استعمال ہو گا۔ بانی کے بیانات سے تحریک انصاف کے رہنماؤں کے اعلان لاتعلقی کے بعد مذاکرات کا دیکھا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • بائنانس کی اعلیٰ قیادت کا پاکستان دورہ، وزیراعظم اور آرمی چیف سے اہم ملاقاتیں
  • ڈیجیٹل جزیروں پر تنہائی کا دور
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • صدر پوٹن کا دورہء ہندوستان
  • ’میری زندگی کے سب سے بڑے اعزازات میں سے ایک‘، فیفا پیس ایوارڈ ملنے پر ٹرمپ کا ردعمل
  • کراچی میں غیرقانونی کال سینٹر پر چھاپہ، 5 ملزمان گرفتار
  • پی ٹی آئی نے مذاکرات کی ٹرین مس کر دی، اپنے لیڈر کے بیانات پر معذرت کریں: عطا تارڑ
  • ہمیں ذمہ داری دی جائے تو ہدف سے زیادہ ٹیکس جمع کرسکتے ہیں، بلاول بھٹو
  • خیالات کو قید نہیں کیا جا سکتا